تاثرات
الحمدللہ وکفیٰ وسلامٌ علیٰ عبادہٖ الذین اصطفیٰ ۔ اما بعد!
والد محترم حضرت مولانا محمد عمران خانصاحب رحمۃ اللہ علیہ بے شمار خوبیوں اور گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے ، اپنی ذات والا صفات میں ایک انجمن تھے، وہ علم الادیان کے بے تاج بادشاہ تھے تو دوسری طرف علم الابدان پر کامل دسترس رکھنے والے حکیم حاذق، طبیب ممتازتھے۔ پوری زندگی درس وتدریس، تصنیف وتالیف، تحقیق وتدقیق اور خدمتِ خلق میں گزاری۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کم گفتار لیکن گرم رفتار کے عملی نمونہ تھے ہمیشہ خاموش رہتے لیکن مستقل اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرتے اور ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی کی فکرکرتے رہتے ، اپنے حقوق کامطالبہ نہیں فرماتے ، آپ کی زبان خاموش رہتی قلم گویا ہوتا، آپ خوش نویس بھی تھے اور زود نویس بھی تھے۔ ملک وبیرون ملک کے جید علماء سے خط وکتابت سے رابطہ رکھتے، بھرپور علمی تعاون فرماتے ۔
مفکر اسلام حضرت مولاناعلی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے نزہۃ الخواطر کی آٹھویں جلدکے سلسلے میں باربار مراسلت فرمائی اور آپ نے تعاون فرمایا۔جیساکہ اسی کتاب کے مقدمہ میں مولاناعلی میاں ندویؒ تحریرفرماتے ہیں :
’’مولاناعمران خانصاحب کو خدانے بہت اچھا تاریخی ذوق عطا کیا ہے ، ان کو تاریخی واقعات وسنین معلوم کرنے اور محفوظ رکھنے کا بڑا سلیقہ ہے ان کے متعدد مضامین علماء ٹونک کے حالات اور ٹونک کے کتب خانوں کی نادر کتابوں کے تعارف میں ہندوستان کے بلند پایہ علمی رسالہ معارف میں شائع ہوچکے ہیں ، میں نے بھی نزہتہ الخواطر کی جلد ہشتم کی تکمیل کے سلسلہ میں ان کی معلومات سے استفادہ کیا ہے اور وقتاً فوقتاً ان کو تکلیف دیتا رہا ہوں۔‘‘ (مقدمہ تاریخ عرفانی)
مولاناعبدالرشیدنعمانی صاحب اپنی کتاب مکانۃ الامام ابی حنیفۃ فی الحدیث کے صفحہ ۱۰۶ پر حضرت مولانا عمران خانصاحب کے علمی تعاون کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
’’رأیت من ھٰذا الکتاب نسخۃً خطیۃً جیدۃ الخط فی خزانۃ محمد آبادطونک من أعمالِ راجبوتانہ بالھند وقد تفضل علینا الأستاد الشیخ العالم عمران خان بن عرفان خان المرحوم الطونکی بنقل ھٰذہ الترجمۃ من ’’جامع الاصول‘‘ جزاہ اللہ تعالیٰ عناومن أھل العلم خیرا۔ (مکانۃ الامام ابی حنفیہ فی الحدیث ،ص ۱۰۶)
تاریخ عرفانی اور آپ کی دیگر تصنیفات وتالیفات سے آپ کے علمی تحقیقی ذوق کا بھرپور اندازہ کیاجاسکتا ہے ۔ اس کے مطالعہ سے یہ بات بھی خوب واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نے بڑی محنت وجفاکشی اور مستقل کاوشوں اور شب بیداری کے نتیجہ میں ان افکار منتشرہ ومعلومات پارینہ کوجمع فرمایا ہے جو ذراسی غفلت سے ھباء ً منثورا اور نسیاً مّنسیاً ہوجاتے۔
ہم نے ان کے شب وروز کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہ نہایت صابرو شاکر شخص تھے وہیں انتظامی اعتبار سے مدرسہ عالیہ فرقانیہ، مدرسہ تعلیم الاسلام جامع مسجد اور جامع مسجد قافلہ کا حساب وکتاب رکھنا ،پھر رباطوں کے اجازت ناموں کی تقسیم وتوزیع کی ذمہ داری، عمرانی دواخانہ کی مستقل خدمت، سعیدیہ ڈسٹرکٹ لائبریری کی کتابوں اور مخطوطات کی فہرست سازی ،فتویٰ نویسی اور امارت شرعیہ ٹونک کے ذریعہ عائلی مسائل کے حل کی فکر ،نکاح خوانی ان جیسے کتنے کام اور ذمہ داریاں تھیں جس کو وہ بڑی ذمہ داری سے بغیر کسی شکوہ شکایت کے اداکرتے تھے۔ بقول لوگوں کے کہ وہ ایک شخص دس افرادکے برابر اکیلے کام کرتے تھے۔
کسی کو کیا خبر تھی کہ ایک ماہ کے لئے پاکستان رشتہ داروں سے ملنے جانے والے واپس نہیں آپائیں گے وہیں حیدرآبادہی میں ۱۹۸۶ء میں آپ کاوصال ہوا۔ مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی ولی حسن خانصاحب ٹونکی نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آپ کے جنازے کی نماز پڑھائی، کئی ملکوں میں نماز جنازہ نشر ہوئی اور وہیں حیدرآباد ہی میں سپرد خاک کیے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون o
میں اپنے بیٹے عزیزم مفتی محمدعادل خان ندوی کے لئے دست بدعاہوں کہ ان کی محنتوں اور کاوشوں اور خاندانی وراثت کی حفاظت کے تئیں جذبہ صادق کو اللہ رب العزت شرف قبولیت سے نوازے اور ہرمحاذ پر کامیابی وکامرانی سے سرفراز فرمائے اور تاریخ عرفانی کی ترتیب جدید کو قبول فرمائے۔
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد
محمدعامرخان ندوی ٹونکی
ناظم ومؤسس جامعہ سید احمدشہیدؒ، گنج شہیداں ٹونک
و ناظم مرکزی دارالافتاء والقضاء ،ٹونک