اولاد :
قاضی صاحب مرحوم کی شادی ۷؍ذیقعدہ ۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۴ء کو آپ کی ماموں زاد بہن کلثوم بیگم دختر مولوی حافظ انوارالحق صاحب خطیب جامع مسجد ٹونک سے ہوئی تھی جو بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں۔ ۱؎ اللہ نے اپنے فضل سے آپ کو بیوی بھی ایسی نیک عطا فرمائی جو مرحوم کی طرح خود بھی بڑی خصوصیات کے حامل ہیں۔ مہمان نوازی کی صفت خاص طور پر آپ میں پائی جاتی ہے۔ اس نیک بی بی نے شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری اور خدمت میں پوری عمر گذاری۔ آدھی رات کو بھی اگر کوئی طالب علم آگیا ہے اور قاضی صاحب نے اس کے لئے کھانا طلب کیا ہے تو اسی وقت ہی تازہ روٹی پکاکر طالب علم کو دی ہے ۔ پھر قاضی صاحب کے معذور ہوجانے کے بعدآپ نے جوخدمت بھی مرحوم کی کی ہے ، اللہ کی نیک بندیاں ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ موصوفہ کو زندہ وبعافیت رکھے اور عاقبت محمود ہو۔
ٍ قاضی صاحب مرحوم کی صرف دو دختران اور ایک پسر حیات رہے۔ باقی اولاد کاانتقال بچپن ہی میں ہوگیا۔ دختر کلاں آمنہ بیگم تھیں۔ ان کی شادی منشی محمد شریف خاں انسپکٹر پولس سے ہوئی تھی۔لیکن بقضاء الٰہی ۱۹۵۰ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔ مرحومہ نے صرف ایک پسر برخوردار عبدالحیٔ خاں کویادگار چھوڑا۔ دوسری صاحبزادی عزیزہ بیگم تھیں۔ ان کی شادی منشی محمدخاں صاحب سب انسپکٹر پولس سے ہوئی۔ افسو س ان کی زندگی نے بھی وفا نہیں کی اور ۱۹۵۵ء میں عزیزہ بیگم کا بھی انتقال ہوگیا۔ مرحومہ نے دوپسران احمد خان ومحمود خاں او رتین دختران حبیبہ بی، فریدہ بی اور رضیہ بی کویادگار چھوڑا۔
نرینہ اولاد میں یہ ہیچمدان محمدعمران خاں زندہ رہا۔ الحمدللہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے ایسا شفیق باپ عطافرمایا جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق بہتر سے بہتر طریق پر میری تربیت فرمائی اور علم ودین کی دولت سے آراستہ کیا۔ نیز اپنی زندگی میں جس جس نوعیت سے حتی الامکان تربیت فرماسکتے تھے اس کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ یہ بھی میری ہی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے کچھ علم عطا فرمانے کے بعد والدین کی خدمت کرنے کا موقع عطافرمایا اور اب آپ سے جدا ہوجانے کے بعد سب سے زیادہ جو چیز مجھ پر اثرانداز ہے وہ یہی ہے کہ افسوس آج میں اس خدمت سے محروم ہوں جس میں مجھے بڑا ہی لطف حاصل ہوتاتھا۔ اللہ تعالیٰ اس خدمت کوقبول فرمائے اورخطائوں ولغزشوں کومعاف فرمائے۔
مرحوم کے لئے جس طرح دختران کی اولاد تسلی کاسہارا تھی اسی طرح مرحوم اپنے پوتوں اور پوتیوں پر بھی فدا تھے اور بڑی محبت فرمایاکرتے تھے۔ مرحوم کی حیات میں تین پوتے برخوردار عمر،عامر،عارف اور دوپوتیاں سعیدہ ومسعودہ عالم ِ وجود میں آچکے تھے۔ برخوردار عمر سے بے پناہ محبت تھی اور کبھی اسے اپنے سے جدا نہیں فرماتے تھے۔ مگر اس کے باوجود اس کے ہوشیار ہونے پرعلم کی خاطر اسے جداکرناپڑا اور شوال ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۱ء میں مولانا ابوالحسن علی ندوی سے مشورہ کرکے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بغرض حصول علم داخل کردیا۔ بحمداللہ برخوردار موصوف اب بھی وہیں تعلیم حاصل کررہا ہے اور اللہ سے توقع ہے کہ وہ ضرور مرحوم کی خواہشات کی تکمیل فرمائے گا اور برخوردار موصوف آپ کی تمنائوں کے موافق علم کی دولت سے مالامال وسرفراز ہوگا۔ دوسرے بچے بھی حسب استعداد وعمر اپنی اپنی تعلیم میں مصروف ہیں۔