تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

خصائل وفضائل  :

          قاضی صاحب مرحوم ،اوصاف جلیلہ اخلاقِ جمیلہ ، خصائل حمیدہ اور اسوۂ حسنہ کے مجموعہ انسان تھے۔ منکسر المزاج، ذکی الطبع، حلیم وکریم، صاحب حیاء صابر وقانع، صاحبِ دیانت وامانت، بردبار وبامروت ،سادہ مزاج، منصف طبیعت، بے لوث خدمت گذار، صاحب عبادت وریاضت اور اپنے اجداد وسلف صالحین کی زندہ مثال تھے۔ محتاجوں وضرورت مندوں کے کام آتے،یتیموں وبیوائوں کی مددکرتے تھے او رطالب علموں کی تمام ضروریات کالحاظ رکھنے والے انسان تھے۔ آپ کا دسترخوان وسیع تھا۔ گھرمیں مہمانداری کا سلسلہ اکثر وبیشتر جاری رہتا۔ سائل آپ کے دروازے سے کبھی خالی نہیں جاتا۔ بے کس اور بے نوا لوگ امیدیں لے کرآپ کے پاس آتے اور خو ش ہوکر واپس جاتے تھے۔

          فرائض کے بڑے پابندتھے۔ محرمات سے ہمیشہ احتراز کیاکرتے تھے۔ چلنے میں اگرچہ تکلف ہوتا،لیکن جب تک اعضاء نے ساتھ دیا، ہرموسم میں ہمیشہ مسجدجاکرپنچ وقتہ نماز باجماعت ادا کی۔ پیرمیں ناصور تھا اور زخم جاری ہونے کی وجہ سے شرعی عذر بھی تھا لیکن اس کے باوجود پنچ وقتہ پٹی تبدیل فرماتے، موسم گرماہویاسرما ، پانچوں وقت تازہ وضو کرتے اور ہروضو کے ساتھ معذور پائوں کوبھی دھوتے اور نئی پٹی باندھ کرنماز ادافرماتے تھے اور کوشش فرماتے کہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ جماعت میں شریک ہوں۔

          ذرائع آمدنی پر سخت نگرانی رکھتے اورحلت وحرمت کا بڑا لحاظ فرماتے تھے۔ یہ اللہ کا محض فضل تھا کہ اس نے ہمیشہ حلال وجائز ذرائع سے آپ کی معاش کاانتظام فرمایا۔ اس معاملہ میں آپ بہت محتاط تھے۔ جن مدات میں فقہی اختلاف ہے یا ان میں کسی قسم کی کراہت ہے ، ان تک کو اپنے مصارف میں صرف کرنے سے احتراز فرمایاکرتے تھے۔ نکاح خوانی کاسلسلہ خاندانی سلسلہ ہے ۔ اس کی آمدنی جس قدر بھی آپ کو پہنچتی، کوشش فرماتے کہ اسے خود کے یامتعلقین کے مصارف میں صرف نہ کریں۔ اس قسم کی آمدنی آپ ہمیشہ مدارس، ذوی القربیٰ  یاآبائی مسجد وغیرہ پرصرف کیاکرتے تھے۔

          تبحرعلمی کے لحاظ سے آپ کادرجہ بہت بلندتھا ۔ جملہ علوم وفنون سے واقف مکمل انسان تھے۔ حدیث، فقہ، فرائض، منطق، فلسفہ اور کتب اصول میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔

          شعر وشاعری سے آپ کو بچپن سے لگائوتھا۔ خود کبھی شعر نہیں کہا لیکن شعر فہمی کاپورا ملکہ تھا۔مشاعروں میں کبھی شرکت نہیں فرماتے، لیکن پھربھی رئوسا ء وامراء ٹونک خاص مواقع پرآپ کوتکلیف دیاکرتے، بلکہ اہم مواقع پرحکم تک مقررفرماتے تھے۔ علم مجلسی بہت وسیع تھا۔ موقع بموقع اشعار بہت یاد تھے۔ جو عین موقع پر فی البدیہہ پڑھاکرتے تھے۔ مزاج میں ظرافت تھی۔ اس لئے محافل ومجالس میں خود بھی ہمیشہ خوش رہتے اور دوسروں کو بھی کبھی غمگین واداس نہیں ہونے دیتے تھے۔ جری اس درجہ کے تھے کہ اگر بھرے دربار میں بھی موقع آگیاہے تو فوراً  اپنی بات کہہ ڈالی ہے اور کبھی نہیں چوکے ہیں۔

          حق گوئی وصداقت آپ کادائمی شعار تھا۔ اللہ نے اس سلسلہ میں آپ کو بڑی جرأت اور بیباکانہ طبیعت عطا فرمائی تھی ۔ بڑے سے بڑے موقع پر آپ ہمیشہ حق بات بلا تکلف وتامل فرمادیاکرتے تھے اور یہ خصوصیت آپ کے لئے ضرب المثل بن چکی تھی۔ افتاء ومقدمات عدالت کے سلسلہ میں اکثر وبیشتر اختلافات پیداہوتے۔ عدالت عالیہ اپیل تک اختلافی معاملات پہنچتے۔ خود نواب صاحب کے دربار میں کبھی یہ معاملات پیش ہوتے اور اس پر علماء کاجلسہ طلب کیاجاتا۔ایسے اہم مواقع پر بھی آپ نے اپنی رائے بیباکانہ طور پر ظاہرکرنے میں کبھی تامل نہیں کیاہے۔ بعض مواقع پرخود نواب صاحب کے خلاف بولنے کی ضرورت پیش آئی ہے تب بھی آپ نے بڑی جرأت وبیباکی کے ساتھ اپنی رائے کااظہار فرمایا ہے۔ حضرت رساؔ نے اسی وجہ سے آپ کے لئے کہا ہے اور بالکل سچ کہا ہے  

ع       ’’ببانگ دہل حق گوئی، یہ ان کاخاص مسلک تھا‘‘

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے