تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

اتّقاء وپرہیزگار ی  :

          موصوف حد درجہ خداترس انسان واقع ہوئے تھے۔ احکام شریعت کے بڑے پابند اور زندگی کے ہرگوشہ میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے والے تھے۔آپ کی رفتار وگفتار، آپ کے اطوار وکردار، آپ کے اعمال وافعال، آپ کی نشست وبرخاست، آپ کے معاملات وتعلقات اور آپ کے معمولات ومشاغل غرض ہرچیز میں اتباع سنت وخداترسی کے آثار نمایاں تھے۔آپ کی زبان سے کبھی کسی کی برائی یاغیبت نہیںسنی گئی۔ اگر کسی مجلس میں کسی کی برائی کی جارہی ہے تو آپ نے کبھی اس کی تائیدنہیں فرمائی۔ ہم عصروں میں سے کسی کے متعلق اگر کسی نے آپ کے سامنے حرف زنی کی ہے تو آپ نے فوراً اس بات کو ٹال دیا ہے اور اس کا سننا تک پسند نہیں فرمایاہے۔

          غرض آپ کی پوری زندگی خدا ترسی کی زندگی تھی اور شب وروز کے معمولات میں مستحبات تک کالحاظ رکھاجاتاتھا۔ آپ کے اتقاء اور اتباع سنت کا اندازہ اس واقعہ سے کیاجاسکتا ہے کہ مرض الموت میں جس روز آپ پر غفلت طاری ہوئی ہے، اسی روزشام کو پائجامہ تبدیل کرانے کی نوبت پیش آئی۔ میری والدہ صاحبہ محترمہ نے اتفاق سے پہلے بائیں پیر میں پہنانا شروع کردیا۔ آپ نے اسی غفلت کے عالم میں پیرجھٹک دیا۔ چنانچہ پہلے دائیں پیرمیں پہناکر پائجامہ تبدیل کرایاگیا۔ عقدانامل کے آپ پابندتھے آپ کا انتقال ہوا ہے تو اس وقت بھی عقدانامل کے آثارنظرآتے تھے۔

خلوص وللّٰہیت  :

          اتّقاء وپرہیزگاری کے ساتھ ساتھ خلوص آپ کے تمام اعمال و افعال میں کوٹ کوٹ کر بھراہواتھا۔ ہرکام اللہ کی خاطر کرتے اور کبھی اس بات کی تمنانہیں رکھتے کہ اس پر آپ کانام اور تعریفیں کی جائیں۔ بلکہ اس قسم کی باتوں کو بہت ناپسندفرماتے تھے۔خود ستائی اور خود سرائی سے آپ کو دور کابھی واسطہ نہیں تھا۔ ریاکاری اور دکھاوے کی چیزیں آپ کے لئے سوہان روح تھیں۔ کسی سے ملتے تو اللہ کی خاطر، کسی کوناپسندفرماتے تو اللہ کے لئے۔ آپ نے کبھی کسی سے سوال نہیں کیا۔ ملازمت یاترقی کے لئے کبھی درخواست نہیں کی۔ حدیث کاحوالہ دے کر فرمایاکرتے، جو شخص کسی عہدے کی از خود خواہش کرے، شرعاً وہ اس کااہل نہیں۔

اوراد  و  وظائف  :

          آپ کے چندمعمولات تھے جن پر آپ نے طالب علمی کے زمانہ سے لے کر آخر دم تک پابندی کی ہے۔ قرآن مجیدکی تلاوت آپ ہمیشہ سے فرمایاکرتے تھے۔ ۱۳۲۸؁ھ  مطابق ۱۹۱۰؁ء میں جب آپ کے والدکانتقال ہوا توآپ نے اس وقت سے ایک پارہ یومیہ تلاوت کرنا اپنے لئے لازم فرمالیا۔ اس طرح ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کرلیاکرتے تھے ،چاند کی پہلی تاریخ سے شروع فرماتے اور اختتام پرختم کردیاکرتے تھے۔ فرمایاکرتے کہ اس طرح ہجری تاریخ بھی خوب یادرہتی ہے ۔ غرض عمر بھر آپ نے ا س کی پابندی فرمائی۔ اسی طرح دلائل الخیرات ،حصن حصین، حزب البحر اور الحزب الاعظم کے آپ عامل تھے۔ آپ کی زندگی حالانکہ مصروف ترین زندگی تھی لیکن اس کے باوجود اپنے معمولات کی بڑی پابندی فرمایاکرتے تھے۔ وظائف کی کتابیں ساتھ رہاکرتیں جہاں موقع ملاوہیں تلاوت شروع کردی۔ راستہ میں تانگہ میں تشریف لے جارہے ہیں اور چلتے چلتے وظیفہ جاری ہے۔ کسی مریض کودیکھنے گئے ہیں یا کسی کام میں کہیں انتظار کرناپڑا ہے تو آپ کااپنا کام جاری ہے۔

          ۱۵؍رمضان ۱۳۷۹؁ھ مطابق ۱۹۶۰؁ء تک آپ نے ان وظائف کی پابندی خود فرمائی۔ اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے یاموصوف کاحسنِ عمل۔ ان سے میں نے دریافت کیا کہ آج آپ نے وظیفہ نہیں پڑھا تو فرمانے لگے،  بھیّا  !  نظر اب اس قد رکمزو رہوگئی ہے کہ اب پڑھانہیں جاتا۔ میں نے استدعاء کی کہ اگر اجازت ہوتو میں آپ کویہ وظائف سنادیاکروں۔ آپ نے منظور فرمالیا اور بخوشی اس کی اجازت دی۔ اسی تاریخ سے میں نے جملہ اوراد ووظائف پابندی کے ساتھ سنانا شروع کردیئے اور آپ کی عمرکے آخری ایام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح میں خود بھی ان اوراد کاپابندہوگیا اور بحمداللہ مرحوم کے انتقال کے بعدبھی پابندی کے ساتھ یہ اوراد جاری ہیں۔

          آپ کاہمیشہ کامعمول تھاکہ قرآن مجید کے ساتھ دیگر اوراد بھی ہر ماہ کی آخری تاریخ کو ختم فرمایاکرتے تھے ،دلائل الخیرات کادور تو ہفتہ وار ہوتالیکن باقی اوراد کادور وقت کی کمی کی وجہ سے ایک ماہ میں ایک بار ہواکرتاتھا۔ قابل حیرت بات یہ ہے کہ جس روز آپ کاانتقال ہوا ہے، اتفاق سے وہی روز قرآن مجیداور وظائف کی تمام کتابیں ختم ہونے کا دن تھا۔ ۳۰؍شوال کو تمام اوراد ختم ہوئے اور یکم ذیقعدہ کوصبح آپ کاانتقال ہوگیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے