تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

ریاضت  و  ولایت  :

          آپ اگرچہ ظاہرپرستی یاظاہرپرست صوفیوں کوپسندنہیں فرماتے تھے ،لیکن خود حقیقت میں صوفی منش انسان تھے ۔ فرمایاکرتے، کامل اتباع شریعت کانام ولایت ہے۔ آپ اسی پرعامل تھے ، صرف یہی نہیں بلکہ آپ اس کے مظہر اور نمونہ تھے۔ آپ کاقول تھا ، اس دو رمیں جس نے فرائض کی پابندی کرلی اور محرمات سے باز رہا اس سے زیادہ کامیاب انسان دوسرا نہیں ہے۔ اگرکبھی نوافل اداکرنے یانفلی روزہ رکھنے کاذکرآگیا ہے تو ظریفانہ انداز میں بے تکلف فرماتے :  میاں!  ہم تو فرض چھوڑتے نہیں ہیں اور نفلی رکھے نہیں جاتے۔

          لیکن ان سب چیزوں کے باوجود آپ صاحب ریاضت تھے۔ طالب علمی کے زمانہ سے نماز تہجدکے پابندتھے اور آخرعمر میں بھی۔ قویٰ نے جب تک ساتھ دیا ہے نماز تہجد آپ نے پابندی سے ادا فرمائی ہے ۔ طُرفہ یہ کہ کبھی کسی کو یہ محسو س نہیں ہونے دیا کہ آپ تہجد کے بھی پابندہیں۔ نماز عشاء کے بعدرات میں جلدسوجانے کے عادی تھے۔ آخر شب میں بیدار ہوجاتے، خاموشی سے اٹھتے ،ضروریات سے فارغ ہوکر نماز تہجدادافرماتے اور اوراد ووظائف میں مشغول ہوجاتے۔ جب کبھی آپ کے پاس ایک کمرے میں سونے کااتفاق ہوا ہے اور رات کوآنکھ کھلی ہے تو دیکھاہے کہ آپ سجدے میں پڑے ہیں، زار  زار  رور ہے ہیں اور ادعیہ ماثورہ زبان پر ہیں۔ خشوع وخضوع کا اعلیٰ ترین منظرہوتاتھا جو اس وقت نمایاں طورپر نظرآتاتھا۔

صبرو ضبط  :

          صبر وتحمل کے اعتبار سے بھی آپ بڑی خصوصیت رکھتے تھے۔ نو عمری میں آپ کے والد، والدہ اور دیگراعزہ کابیک وقت انتقال ہوجانے کی وجہ سے بڑی بڑی مشکلات آپ کو برداشت کرناپڑیں۔ آپ نے تمام مصائب برداشت کئے اور کبھی صبر کوہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اولاد کے سخت صدمے آپ کوپہنچے۔ آپ کبھی متاثرنظرنہیں آئے اور تمام صدمات آپ نے خوش دلی کے ساتھ برداشت فرمائے۔

          مولوی حافظ محمدامین صاحب  ۱؎   فرماتے ہیں کہ ایک روز  وہ حسب معمول درس لینے حاضرہوئے۔ اتفاق سے اسی روز کچھ دیرپہلے آپ کے چھوٹے بچہ کاانتقال ہوگیاتھا۔ حافظ صاحب کومعلوم نہیں تھا۔ قاضی صاحب مکان سے باہر تشریف لائے اور سبق پڑھانا شروع کردیا۔ سبق سے فارغ ہوکر فرماتے ہیں، حافظ جی!  آئو بچہ کاانتقال ہوگیا ہے اسے نہلالیں۔ حافظ صاحب نے بڑے تعجب سے عرض کیاکہ آپ نے سبق سے پہلے کیوں نہیں فرمادیا۔ آپ نے جواب دیا کہ موت اپنے وقت پرآچکی، سبق کیوں ناغہ کیاجاتا۔

          اس طرح ۱۹۵۰؁ء اور  ۱۹۵۵؁ء میں آپ کی جوان دختران کاانتقال ہوا۔ لیکن انتقال کے روز بھی آپ حسب معمول اپنے مشاغل میں مصروف او رمریضوں کے نسخہ تجویز کرتے نظرآئے ہیں۔ دل پر کتنے ہی صدمات پہنچتے آپ برداشت فرماتے اور کبھی اس کے اثرات ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ انواع واقسام کے امراض میں آپ کی پوری زندگی گذری لیکن تمام تکالیف آپ نے صبر کے ساتھ برداشت کیں اور کبھی شکایتی الفاظ زبان پر نہیں لائے۔ آخرعمرمیں بہت معذور ہوچکے تھے لیکن پھربھی نہایت صبر وضبط کے ساتھ آپ نے عمرکایہ حصہ بھی گذارا۔ سخت تکلیف کے باوجود بھی آپ خاموشی کے ساتھ اپنے بستر پرآرام فرماتے رہتے اور کبھی اس تکلیف کااحساس دوسرے کونہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ صحیح معنیٰ میں ایک صابر وشاکرانسان تھے اور یہ اوصاف اعلیٰ پیمانہ پر آپ کی ذات میں نظرآتے تھے۔

          صبروضبط کے ساتھ ساتھ آپ طبعاً قوی دل واقع ہوئے تھے۔مصائب وآلام برداشت کرتے کرتے اس کے عادی بن چکے تھے اورآپ کا دل اس قدر قوی او رسخت ہوگیاتھا کہ خوف وہراس یاوحشت کے مواقع بھی آپ پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے۔ جب آپ کے والدصاحب کاانتقال ہوا ہے تو فرمایاکرتے تھے کہ میں رات میں اکثر گورستان جاکر تنہا والدکی قبرپرقیام کرتاتھا۔

          قیام چھبڑہ کے زمانے میں ایک مرتبہ رات میں کسی جنازہ کے ساتھ گورستان جانا ہوا۔ قبرتیار ہونے میں دیر تھی اس لئے انتظارکرناپڑا۔ رات زیادہ جاچکی تھی۔ جس پلنگ پر میت رکھی ہوئی تھی اسی پلنگ پرمیت کے پاس آپ بھی لیٹ گئے اور بآسانی سو گئے۔ اس طرح سوتا دیکھ کرلوگوں کوتعجب ہورہاتھااور آپ بآسانی آرام فرمارہے تھے اور خرّاٹے لے رہے تھے ۔ جب قبر تیار ہوگئی تو آپ کوبیدار کیاگیا اور میت کودفن کیاگیا۔

ایثار  وانفاق فی سبیل اللہ  :

          معاشی اعتبار سے اگرچہ آپ کی زندگی زائد خوشحال نہیں گذری لیکن اس کے باوجود انفاق فی سبیل اللہ کاجذبہ آپ میں خاصہ تھا۔ ظاہرمیں اور پوشیدہ طورپر غریبوں، محتاجوں اور بیوائوں کی مدد فرماتے ،ذوی القربیٰ کے حقوق کابڑالحاظ کرتے اور خفیہ طورپر جس کی جس قدر مددہوسکتی تھی فرماتے تھے ،زکوٰۃ ودیگر صدقات واجبہ بڑے اہتمام وپابندی سے ادا فرماتے۔

          طلباء کی ضروریات کاخاص طورپر بڑاخیال رکھتے تھے۔ کسی کاکھانامقرر ہے تو کسی کاوظیفہ، کسی کومٹی کے تیل ہی کی بوتل مقررکردی ہے تاکہ وہ رات میں بسہولت مطالعہ کرسکے۔ آپ کاپوراکتب خانہ طلباء کے لئے وقف تھا۔ جس کو جس کتاب کی ضرورت ہوتی، آپ دینے میں تأمل نہیںفرمایاکرتے تھے ۔ درسی کتابوں کے کئی کئی نسخے اپنے کتب خانہ میں فراہم رکھتے تاکہ طلباء کوسہولت رہے اور ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔

          ایثارکاجذبہ کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔ ہمیشہ دوسروں کی ضروریات کواپنی ضرورت پر ترجیح دیتے اور دن رات کی معمولی زندگی میں بھی ان باتوں کالحاظ فرماتے۔ ایک روز شام کو آپ اپنے مکان پر پہنچے تو جسم پر کرتہ نہیں تھا۔ گھروالوں کوتعجب ہوا، دریافت کرنے پرفرمانے لگے ، ایک غریب شخص کے پاس کرتہ نہیں تھا ۔ راستہ میں اس نے سوال کیا۔ میں اپنا کرتہ اسے دے آیاہوں۔

          آپ کی زندگی ایک متوکلانہ زندگی تھی ۔ پیسہ سے کبھی آپ کومحبت نہیں رہی اور پیسہ کبھی آپ کے پاس جمع بھی نہیں ہوا۔ کبھی کبھی ظریفانہ انداز میں فرمایاکرتے، میاں!  اپنے پر کبھی زکوٰۃ ہی فرض نہیں ہوئی۔ اللہ نے اس توکل کایہ صلہ عطافرمایاکہ آپ کی پوری زندگی سکون واطمینان کی زندگی گذری کبھی آپ معاشی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ کبھی آپ کی کوئی ضرورت نہیں رکی۔ جب کبھی آپ کو جیسی بھی ضرورت پیش آئی ہے ،منجانب اللہ وہ بآسانی پوری ہوگئی ہے۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلیٰ اللّٰہِ فَہُوْ حَسْبُہٗ

          یہ اور ان کے علاوہ بے شمارخوبیاں، قاضی صاحب مرحوم میں پائی جاتی تھیں۔ چوںکہ آپ ہردل عزیزانسان تھے ۔ اس لئے آپ کی بھلائیاں اور پیش آنے والے واقعات یہاں زبان زد خاص وعام ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے