اختتام :
قاضی صاحب مرحوم کے جس قدر حالات میں اپنے علم اور اپنی کوشش کی حد تک فراہم کرسکتاتھا وہ اس مجموعہ میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجھے الحمدللہ آپ سے بہت قریب رہنے کاموقع ملا ہے۔ یہ موقع اگرچہ اولاد میں ہرایک کواپنے بزرگوں کے ساتھ ملا کرتا ہے ۔ لیکن الحمدللہ میں نے شعور کے ساتھ آپ کی زندگی کامطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ سے بہت قریب رہ کرکی ہے۔ یہ موقع اگر چہ عمر کے اس حصہ میں زیادہ ملا جب کہ آپ زمانۂ کہولت سے گذرکرمعذوری کی حدود میں آرہے تھے ۔ لیکن چونکہ عمرکایہ حصہ پوری زندگی کالب لباب ہواکرتا ہے اور زندگی کے اس طویل سفر کوگذارکریہ منجھاہواانسان عمرکے اسی حصہ میں اس قابل ہواکرتا ہے کہ اس کی حیات کاصحیح معنیٰ میں مطالعہ کیاجائے۔ الحمدللہ مجھے اس کاموقع ملا اور ایک خادم پسر ہوکرملا ہے ۔ مجھے فخر ہے اس بات پر کہ اللہ نے مجھے ایسا باپ عطا فرمایا جس نے احسن طریقہ پرتربیت کرکے اس قابل بنایا کہ زندگی میں بھی حتی المقدور خدمت کی جاسکی اورآج بھی کچھ خدمت کرنے کاموقع مل رہاہے۔ یہ ایک حق تھا جس کے اداکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ علیّین میں جگہ دے اور ان حقیر خدمات کو قبول فرمائے۔
اس مجموعہ میں جوحالات یکجاکرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ صرف اس حقیر کی معلومات کی حد تک محدود ہیں۔ ورنہ آپ کی زندگی کے متعدد پہلوتشنہ ہیںاور ان کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے، جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ امیدہے معاف فرمائیںگے۔
ملّا عرفان رامپوری
(مورث اعلیٰ)
مولوی حافظ اخوندمحمدعرفان بن ملا عمران بن الشیخ اخوندعبدالحلیم التاجیکی نسباً الخراسانی اجداداً الپشاوری اباً المصطفیٰ آبادی مسکناً۔ قوم کے پٹھان سواتی، قصبہ تورو علاقہ سوات کے رہنے والے تھے ۔ کہاجاتا ہے کہ ان کے اجداد ،خواجہ اویس بن جہانگیر شاہزادہ حاکم سوات کی اولاد میں تھے۔ ملّاعرفان صاحب نے وطن مالوف میں مقامی علماء سے علوم حاصل کئے۔ پھرحصولِ علم کاشوق آپ کوہندوستان لایا۔ آپ کے ساتھ اخوندمحمد ایاز خان خسر نواب امیرالدولہ بہادر والیٔ ریاست ٹونک بھی رفیقِ سفر تھے۔ ابتداء ً ہر دو حضرات نے دہلی میں اقامت اختیار کی۔ اس کے بعدملا عرفان صاحب، ابوالعیاش بحر العلوم مولوی عبدالعلی صاحب لکھنوی کاغلغلۂ درس وتدریس سن کر لکھنؤ پہنچے اور مولانا کی شاگردی اختیار کرکے تمام کتب درسیہ حاصل کیں۔ جب مولانابحرالعلوم نواب فیض اللہ خاں والی رامپور کے زمانہ ( ۱۱۸۸ھ مطابق ۱۷۷۴ء تا ۱۲۰۸ھ مطابق۱۷۹۴ء) میں رامپور منتقل ہوئے تو ملاعرفان بھی رامپور آگئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی او رمتأہل ہوگئے۔ ملّا صاحب محلہ گوئیا تالاب میں سکونت رکھتے تھے اُس محلہ کی مسجد اب تک ملّا عرفان صاحب کی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔
ملاّعرفان رامپوری، مولانابحرالعلوم کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور شاہ عبدالرحیم صاحب کے مرید تھے۔ مفتی عبدالقادر خان چیف رامپوری اپنے روزنامچہ میں لکھتے ہیں۔ ملّا عرفان ، حاشیۂ دائریادگار ادست’’مطالب علمیہ را از کلامش جز عالم متبحر نمی توانستے فروگرفت‘‘ ۔ مولوی عبدالحیٔ صاحب لکھنوی نے نزہتہ الخواطر میں لکھاہے۔
’’وکان من العلماء المتبحرین ‘‘۔
تصانیف :
مولوی صاحب نے حصول علم سے فراغت کے بعد ہی تصنیف کاسلسلہ شروع کردیاتھا۔ چنانچہ دائرالوصول الیٰ علم الاصول شرح منار جو اس دور میں داخل درس تھی اور معرکتہ الآراء کتابوں میں شمار کی جاتی تھی۔ مولوی صاحب نے اس کا ایک مفصل حاشیہ لکھنا چاہا اور اس کانام مدرار الاصول حاشیہ دائرالوصول رکھا۔ یہ حاشیہ نہایت شرح وبسط کے ساتھ لکھاگیاتھا۔ مبحث سنتہ تک تصنیف کرچکے تھے کہ بخوف طوالت اس کی تصنیف روک کر ایک دوسرا حاشیہ ترتیب دینا شروع کیااور اس کانام دوار الاصول حاشیہ دائر الوصول رکھا۔ اول الذکرحاشیہ مسودات ہی کی شکل میں رہا جیسا کہ خود ملا صاحب نے دوّار کے مقدمہ میں ظاہرفرمایا ہے اور غالباً یہ مسودات بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ اسی وجہ سے آج تک حاشیہ مدار کے کسی نسخہ کا کہیں پتہ نہیں چل سکا۔ ثانی الذکر حاشیہ کے جو نسخے علم میں آسکے ہیں ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حاشیہ بھی غالباً مکمل نہ ہوسکا۔ بلکہ یہ حاشیہ بھی اوائل بحث سنتہ تک ہے۔
پیش نظرنسخہ خود مصنف علام کے قلم کالکھاہوا اصل مبیضہ ہے ۔ تقطیع متوسط اوراق ۲۶۳ (۳۳جز) ہیں۔گنجان لکھاہواہے۔ہرصفحہ میں ۲۳ سے لے کر ۲۹ سطور ہیں۔ آخر میں تاریخ کتابت وغیرہ درج نہیں۔ اول میں مصنف کی دو مہریں ثبت ہیں۔ جس مقام تک یہ نسخہ ہے ، اسی مقام اور اسی عبارت تک وہ نسخہ بھی ہے جو رضالائبریری رامپور میں محفوظ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملا صاحب غالباً یہ حاشیہ یہیں تک تصنیف فرما سکے یا پھر اس کے بعد کاحصہ مسودات کی شکل میں رہا اور اس کے صاف کرنے کی نوبت نہیںآئی۔ والعلم عنداللہ۔
حاشیہ ہذا کا جونسخہ رضالائبریری رامپور میں محفوظ ہے او رفہرست کتب خانہ میں ۱۲۴۳ فن اصول الفقہ الحنفی پردرج ہے ، رجب ۱۳۷۰ھ مطابق اپریل ۱۹۵۱ء میں یہ نسخہ رامپور میں دیکھنے کااتفاق ہوا تھا۔ تقطیع کتابت ۵:۱۰ × ۷۵:۷ انچ ،سطر۲۵، کاغذ دہلی خط نستعلیق اوسط درجہ کا،کتابت سرخی و سیاہی سے ہے۔ اوراق پرکرم خوردگی کاخفیف اثر ہے اور قدرے پیوندکاری بھی ہے۔ ابتدائی صفحہ پر’’محمدشکور‘‘نام کی چھوٹی مہر ثبت ہے جس میں ۱۲۳۶ھ مطابق ۱۸۲۰ء کندہ ہے۔ صاحب مہر نے ۱۲۶۹ھ میں یہ نسخہ خریدا اس نسخہ کے اول میں یہ عبارت درج ہے : ’’ حضرت ظل سبحانی خلیفہ الرحمانی سلطان محمدمعظم شاہ بادشاہ غازی من عواری الزمان حافظ رحمت خان المخاطب بحافظ الملک ۱۱۷۰ھ مطابق ۱۸۵۲ء درتحویل عبدالسلام خان۔‘‘ محب محترم مولاناامتیاز علی خاں عرسی رامپوری لائبریرین رضالائبریری رامپور کاخیال ہے کہ یہ عبارت جعلی معلوم ہوتی ہے ا س لئے کہ حاشیہ دوار میں جگہ جگہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مصنفہ مولانا بحرالعلوم کاحوالہ درج ہے اور وہ ۱۱۸۰ھ مطابق ۱۷۶۶ء کی تالیف ہے۔ نیز حاشیہ ہٰذا میں مولانابحرالعلوم کو ’’قدس سرہٗ جیسے الفاظ سے یاد کیاگیاہے جس کامطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعداس حاشیہ کی تالیف (یاکتابت) عمل میں آئی اور بحرالعلوم کا انتقال ۱۲۲۵ھ مطابق ۱۸۱۰ء میں ہوا لہٰذا حاشیہ ہٰذا کی تصنیف اور کتابت اس کے بعدعمل میں آناچاہئے۔
مولوی عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی۱؎ نے اپنی کتاب قمرالاقمار حاشیہ نور الانوار میں اسی حاشیہ دوار کاتردیداً متعدد مقامات پر حوالہ دیا ہے جیسا کہ نورالانوار مطبوعہ کے حواشی پر متعدد جگہ ’’ملاعرفان رامپوری‘‘ کاحوالہ درج ہے ۔ اس حاشیہ کا ایک نسخہ دراصل مولوی عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی کوحاصل ہوگیاتھا۔ ان کے انتقال کے بعدموصوف کے پسر مولوی عبدالحیٔ صاحب فرنگی محلی کے کتب خانہ میں رہا۔ موصوف کاکتب خانہ چونکہ علی گڑھ یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل ہوگیا ہے اس لئے یہ نسخہ بھی اسی لائبریری میں محفوظ ہے۔ السید سبط الحسن لائبریرین شعبۂ مخطوطات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے خط مورخہ ۷؍ اپریل ۱۹۶۱ء کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ نسخہ لائبریری میں ۹ بہ ۴۶۴ درج ہے۔ اوراق ۳۳۶ ہیں اور سائز ۵:۱۰ × ۵ : ۶ ہے۔ آخرسے ناقص ہونے کی وجہ تاریخ کتابت وغیرہ کاپتہ نہیں چلتا۔ ورق اول پر بخط مولاناعبدالحلیم فرنگی محلی تحریرہے۔ ’’حاشیہ الدائر شرح المنار‘‘ از ملا عرفان رامپوری نسخہ مذکور پر ’’ابوالفیض محمدیوسف‘‘ کے نام کی دومہریں ثبت ہیں۔ یہ نسخہ بھی اُسی مقام تک ہے جہاں تک مذکورہ بالاہردونسخے ہیں۔
حاشیہ ہذا کاایک نسخہ مولاناحکیم برکات احمد صاحب ٹونکی کے کتب خانہ میں بھی تھا۔ موصوف نے یہ نسخہ ٹونک میں کسی صاحب سے خریدا تھا۔ اس سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ تصنیف کے بعدہی مذکورہ حاشیہ کے نسخے عام ہوکر علماء کے ہاتھوں میں پہنچ گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا عرفان اس دور میں ’’صاحب دوّار‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے اور تذکروں میں بھی اسی طرح آپ کا ذکرآتاہے۔
ذیل میں حاشیہ دوارالاصول کامقدمہ نمونہ کے طورپر قدرے اختصار کے ساتھ نقل کیاجاتا ہے :
الحمدللہ الملک المنان رب العالمین کلہم باصناف التربیۃ والاحسان خلق الانسان وعلمہ البیان …وبعدفیقول العبد الضعیف العاصی بانواع العصیان محمدعرفان بن محمد عمران بن عبدالحلیم غفراللہ الرحمٰن لہم ولسائرأقربائھم واساتذتہم ومشائخہم وأحبائھم ذوی الایمان انی وان کنت قلیل البضاعۃ فی العلوم خصوصاً فی الفنون الشرعیۃ لاسیما فی علم الاصول جلیل الشان لکونہ کبحر عمیق بلاساحل، جامعا لتدقیقات وتحقیقات انیقۃ من سائر انواع العلوم وعلم المیزان لکن بتوفیق اللہ تعالیٰ صنفت فی عنفوان الشباب بعیدالفراغ عن تحصیل العلوم وحفظ القرآن کتاب مدرارالاصول حاشیۃ علی دائرالوصول شرح المنار ولم یتیسّر لی الاتمام الی الاٰن، بل وصل الٰی أوائل مباحث السنۃ بل لم یتیسّرلی النقل من التسوید الی التبیض لعوائق وعلائق جسیمۃ البنیان لکن ماکان فیہ اطناب یمل عنہ قاصروالاذھان لاشتمالہ علیٰ ابحاث رائقۃ ودلائل واضحۃ وأسؤلۃ وأجوبۃ شائقۃ ممانسخ لی الفکر الفاتر ونقل عن کتب مبسوطۃ کالمحصول والاحکام والبذ دوی وشروحہ الکشف والھدایہ والکفایہ وشرح المختصر العضدی وحواشیہ للتفتازانی والشیرازی والابھری والمسلم وفواتح الرحموت للاستاد المدعوفیہ بالغفران العلی الشان والتحقیق والتوضیح والتلویح وحاشیۃ للچلپی وشیخ الاسلام والفصول وشرح الشاشی وبعض شروح المنار…والتمس عنی بعض الاخوان من علماء العصر وحیدالزمان الفائق علی الاقران الذی طاربہ نسیم القبول الیٰ اقطار البلدان (اراد بہ مولوی نسیم) أن الخصہ وأھذبہ بوجہ مافی کتاب کان لکل مشکلات دائرالوصول ومشتمل علی بعض الاسئولۃ والاجوبۃ لیکون منتفعابہ للقاصرین وماحی الاذھان فلم أکداجیب التماسہ وسوقت من زمان الیٰ زمان لافواج من الہموم والغموم واندراس المدارس النطراح علماء الزمان علی الطرق وارتفاع الجھل والجہال علی الحدق للاختبار والامتحان لکن لما الحّ فی الالتماس ولم اجدبدامن اجابتہ فاردت ان اصنفہ لما التمسہ مع یسیر من الزیادات وأسمّیہ ’’دوار الاصول نسبتہ الیٰ مدرار الاصول کنسبۃ دائرالوصول الیٰ مدرار الفحول فتنا سبت الفرعان والاصلان کاربعۃ متناسبۃ مصطلح الریاضی نفع اللہ تعالیٰ بھما کمانفع باصلیہما فھما انا اشرع فی المرام انہ المیسّر لکل عسیر وعلیہ التکلان وھو حسبی ونعم الوکیل
دوارالاصول کی آخری عبارت یہ ہے : ’’واما ثانیاً فان المراد بغیر اذن ولیہما فیتوافقا فی الاحتراز بتمرینہ ای لقرینۃ قولہ باطل لأنہ لوصح باذن الولی لتوقف بغیر اذنہ لاانہ یبطل ۔‘‘
حاشیہ مذکور کے جونسخے علم میںآسکے ہیںوہ سب اسی مقام تک ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حاشیہ کا اس قدر حصہ تصنیف کاصاف ہوسکاہے۔حاشیہ دوّارالاصول کاجونسخہ اس وقت پیش نظر ہے او رمصنف علام کے قلم کالکھا ہوا ہے اس میں دائرالوصول کے خطبہ کی شرح مصنف کے قلم کی لکھی ہوئی نہیں ہے او رنہ ہی موصوف کی مصنفہ ہے بلکہ ملا صاحب کے بیٹے مولاناخلیل الرحمٰن یوسفی گلشن آبادی نے خطبہ کی شرح از خود تصنیف کرکے حاشیہ دوّار کے ابتداء میں شامل کی ہے ۔ مولانا خلیل الرحمٰن نے خطبہ کی یہ شرح تصنیف کرنے کی وجہ اپنے ’’حاشیہ دائرالوصول۱؎‘‘ کے ایک منہیہ میں بیان فرمائی ہے کہ ’’دوارالاصول‘‘ میں دیباچہ کی اصل شرح ضائع ہوئی تھی اس لئے میں نے اس کی تکمیل کرکے دوّار میں شامل کردیا ہے۔ اس شرح دیباچہ کی ابتدائی عبارت یہ ہے :
’’الحمدھوالوصف بالجمیل علی جھۃ التعظیم ظاہراً وباطناً ۔ الخ‘‘
مذکورہ بالا ہردو حواشی ’’مدرار‘‘ و ’’دوار‘‘ کے علاوہ ملاعرفان صاحب کا مرتبہ ایک ’’جُنگ‘‘بھی ہے جس میں علم فقہ کے مختلف ابواب وفصول مرتب کرکے مسائل جمع کیے گئے ہیں ۔ گویا ’’مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کا پیش نظرنسخہ ٔ مصنف کے قلم کالکھاہوا اصل نسخہ ہے۔ کاغذ بادامی دبیز، قدرے کرم خوردہ، تقطیع خورد، تاریخ کتابت وغیرہ درج نہیں ہے۔ یہ نسخہ ابتداء سے ایک جزو او ر آخر سے نصف جزو کے قریب ناقص تھا جومیرے جدامجد مولوی قاضی عبدالحلیم صاحب نے نقل کرکے شامل کیا۔ اس کتاب کا ایک اور نسخہ ہمارے کتب خانہ میں محفوظ ہے جوغالباًاسی نسخہ سے نقل کرایاگیاہے۔ تاریخ کتابت وغیرہ اس نسخہ میں بھی درج نہیں ہے۔ ’’ جُنگ‘‘کی ابتدائی عبارت یہ ہے : کتاب الطہارۃ ، باب الوضوء الوضوء لکل صلوٰۃ سنّۃ مؤکدّۃ زاھدی شرح قدوری والھدایۃ بمابدء اللہ تعالیٰ بذکرہ وھوان یغسل وجھہ الاثم یدیہ ثم یمسح راسہ ثم یغسل رجلیہ ھذہ الترتیب شرح المقدمۃ ۔‘‘
کتاب ہٰذا کی آخری عبارت اس طرح ہے :
’’قال بعض للولد ان یبطل ذلک البیع وقال بعضہم لیس لہ ان یبطل قبل البلوغ، قاضیخان۔‘‘
مذکورہ بالاہرسہ کتب کے علاوہ مولاناصاحب کی کسی اور تصنیف کاعلم اب تک نہیں ہوسکا۔