تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مخطوطات  :

          ملّاعرفان صاحب کے قلم کی لکھی ہوئی چندکتابیں بھی نظر سے گذری ہیں۔بطور یادگار ان کی تفصیل بھی ذیل میں درج کی جارہی ہے   :

۱۔     نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر لابی الحسن السندی۔ تقطیع متوسط کاغذ دبیزغیرمحشی، اوراق ۷۷ ہیں۔ یہ نسخہ مولانا نے نواب فیض اللہ خاں کے عہدمیں اس وقت رامپور میں لکھاجب کہ موصوف حدیث میں صحیح البخاری کتاب الحج اور اصول میں مسلم الثبوت پڑھتے تھے۔ ۱۷؍ربیع الثانی تاریخ کتابت بھی درج ہے لیکن بدقسمتی سے سنہ کتابت درج نہیںہے۔

۲۔     نزھۃ النظرشرح نخبۃ الفکر۔  تقطیع متوسط ، اوراق ۳۴، اول سے آخر تک کثیر محشیٰ ، تاریخ کتابت درج نہیں۔

۳۔     شرح بوستاں، مصنفہ حکیم محمدساجد۔ شارح مولوی صاحب کے ہم عصر تھے اور رامپور میں نواب فیض اللہ خاں کے ملازم تھے۔ یہ شرح انہی حکیم صاحب کی مصنفہ ہے اور ملا صاحب کے قلم کی لکھی ہوئی ہے ۔ تقطیع متوسط، قدرے محشیٰ ،غیرمجدول ، اوراق ۱۹۲ ہیں۔ تاریخ کتابت اس نسخہ پر بھی درج نہیں ہے۔

۴۔     متن متین مصنفہ عبدالرسول۔ تقطیع خرد کاغذ دبیز غیرمجدول غیر محشیٰ، اوراق ۸۳ ہیں۔ تاریخ کتابت درج نہیں ہے ۔ اس نسخہ پرمولانا کے پسر مولوی سعداللہ خطیب جامع مسجد ٹونک کی مہر ثبت ہے۔

۵۔     اسرار الاحکام شرح شرعۃ الاسلام ۔ کاغذ سفید غیرمجدول، قدرے آب رسیدہ، تقطیع متوسط اور اق ۱۸۲ ہیں۔

۶۔     صواعق محرقہ۔ کاغذ سفید کرم خوردہ، تقطیع متوسط، اوراق ۱۵۱ ہیں۔ ۱۱؍ رجب یوم جمعہ کورامپور میں یہ کتاب لکھی۔ سنہ کتابت اس پر بھی درج نہیں ۔ اول میں مولانا صاحب کے پسران مولوی محمدمفتی اور مولانا حبیب الرحمٰن کے قلم کی عبارتیں درج ہیں۔

۷۔     فصول الحواشی شرح اصول الشاشی۔ تقطیع قدرے خرد، اوراق ۱۱۲ ہیں۔ تاریخ کتابت درج نہیں ۔

۸۔     درر المنتشرہ فی الاحادیث المشتہرہ۔ للسیوطی ۔ اوراق ۳۴۔ تاریخ کتابت درج نہیں ، اول میں مولاناکے بیٹے مولوی محمدصاحب مفتی کی مہرثبت ہے۔

۹۔     ہدایۃ النحو۔ کاغذ حنائی۔ بسیار کرم خوردہ۔ اوراق ۴۵ ہیں۔ ۱۹؍ جمادی الاخریٰ ۱۲۱۲؁ھ مطابق ۱۷۹۷؁ء کو مولانا نے اپنے صاحبزادگان مولوی محمداور مولاناخلیل الرحمٰن کے پڑھنے کے لئے رحم پور (رامپور) میں یہ نسخہ لکھا۔

          اول الذکرچارکتابیں ہمارے آبائی کتب خانہ میں محفوظ ہیںاور آخر الذکر پانچ کتابیں کتب خانہ سعیدیہ (سعیدیہ ڈسٹرکٹ لائبیری،ٹونک ،شعبۂ قلمی) میں موجود ہیں۔

وفات  :

          ملّا عرفان صاحب کاانتقال رامپور میں ہوا اور وہیں عیدگاہ دروازہ کے باغ میں مدفون ہیں۔ لیکن تاریخ وفات صحیح طورپر معلوم نہیں ہوسکی۔ حافظ احمدعلی خاں شوق، تذکرۂ کاملان رامپور میں لکھتے ہیں کہ ملّا صاحب کاانتقال ۱۲۱۴؁ھ مطابق ۱۷۹۹؁ء سے پہلے ہوگیا تھا۔ لیکن یہ سن صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ملّا صاحب نے اپنے حاشیہ دوار میں مولانا بحرالعلوم کو ’’قدس سرہٗ‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے،جیساکہ اس سے پہلے بھی ذکرکیاجاچکا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولاناکا انتقال بحرالعلوم کے انتقال کے بعد ہواہوگا۔مولانا بحرالعلوم کا انتقال ۱۲۲۵؁ھ مطابق ۱۸۱۰؁ء میں ہوا ہے۔

          حافظ احمدعلی خاں شوق کے تحریرکردہ سن کے متعلق مولوی امتیاز علی صاحب عرشی لائبریرین رضا لائبریری رامپور سے دریافت کیاگیا تو موصوف نے تحریرفرمایا کہ حافظ احمد علی خاں شوق کے تحریر کردہ سن کی بناء یہ معلوم ہوتی ہے کہ مفتی عبدالقادر چیف رامپوری نے جس کا حوالہ شوق نے دیا ہے، اپنے روزنامچہ میں علماء رامپور کاتذکرہ جہاں سے شروع کیا ہے اس سے ایک سطر پہلے ۱۲۱۴؁ھ مطابق ۱۷۹۹؁ء آگیا ہے ۔ اس سے غالباً حافظ صاحب نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ آئندہ مذکور ہونے والے حضرات اس سن سے پہلے گذرچکے ہیں۔ موصوف کا یہ خیال درست نہیں۔ اس لئے کہ اس موقع پر علماء میں ملا عرفان سے پہلے مولانابحرالعلوم کاذکر ہے اوریہ لکھاہے کہ ’’بہ ارکات رحلت کرد‘‘ جس کامطلب یہ ہے کہ  ۱۲۲۵؁ھ مطابق ۱۸۱۰؁ء کے بعدان کا یہ حال لکھا ہے۔ ملا عرفان کے متصل بعد مولوی غلام جیلانی رفعت کاذکر بصیغہ اموات کیا ہے اور وہ انتخاب یادگار کے مطابق ۱۲۳۴؁ھ مطابق ۱۸۱۸؁ء میں فوت ہوئے تھے۔ ان تمام امور کو پیش نظررکھ کر یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا عرفان کاانتقال مولانابحرالعلوم کے بعدہوا ہے ۔ واللہ اعلم۔

          ملاعرفان صاحب کی مہرمیں یہ عبارت کندہ تھی ’’زفضل سبحان شد محمدعرفان‘‘اس مہر میں ۱۱۹۶؁ء کندہ ہے ۔ اس کے علاوہ ایک مہراور تھی جس میں صرف ’’محمد عرفان‘‘ کندہ ہے ۔ یہ مہر کتب خانہ ٹونک کی ایک کتاب ’’حاشیہ مطوّل‘‘کے ورق اول پر ثبت ہے۔ اس کتاب کا ورق اول مولانا صاحب کے قلم کالکھاہواہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے