اولہٗ :
وکم سرخفی للنبی
علیہ صلوۃ بارئہ الخفی
بسیار راز پوشیدہ ہستند مرنگی را
بروے باددرود آفریدگار وے کہ مہربان
است کم جزئیہ لانشاء الشکر
وقد وقع السوال لذی ذکاء
بدار العلم عن سرخفی
بتوفیق الالٰہ لیوسفی
لصدق فی النبی وفی الولی
وان الیوسفی اجاد نظما
بلیغا کاشفاً امرا الجنی
چوتھے شعر کی شرح میں موصوف لکھتے ہیں:
اعلم ان الناظم ھو خلیل الرحمٰن بن…التاجیکی نسباً والخراسانی اجداداً والبشاوری اباً وجداً والمصطفیٰ آبادی مولداً ومنشائً، کان فی القدیم یلقب نفسہ بالمصطفیٰ آبادی وکان رقیمہ علی الفتاویٰ والرسائل ھٰکذا کتبہ العبد المسکین المعتصم بحبلہ المتین خلیل الرحمٰن المصطفیٰ آبادی تجاوزاللہ عنہ یوم التنادی، ثم منذ سنۃ الف ومائتین واربعۃ وخمسین صار یلقب نفسہ بالیوسفی وکان رقیمہ ھکذا، کتب الراجی عن عفوربہ الحفی خلیل الرحمٰن الیوسفی المصطفیٰ آبادی حفہ اللہ تعالیٰ بلطفہ الخفی…اماتلقیبہ نفسہ بالیوسفی فلمارأی من اھل الزمان عن البغی والعدوان علی من یذم الدنیا ویمدح العقبیٰ…وقد وقعت لی مثل ھٰذا الواقعۃ وتحققت فیہا أن الاخوان ھم الخوان…فوجہ تلقیبی نفسی بالیوسفی ماجری علی من الظلم الجلی والخفی من الاخوۃ والاخوان والاصدقاء والخلّان والتشبیہ لمافی ذٰلک بیوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام الواقعۃ فی القطعۃ المذکورۃ والابیات المسطورۃ والنسبۃ الیٰ
سورۃ یوسف عصمنااللہ عن التأسف فھٰذہ ثلٰثۃ وجوہٍ ۔ الخ۔
اسی سلسلہ میں آپ لکھتے ہیں :
وقد قلت فی تلک الایام لمارأیت من الاخوان اللئام:
معاملۃ الاخوان قطع اخوۃ
لذا قیل مقراض المحبہ للقرض
وقد قلب فی سالف الزمان وھواول شعرقلتہ :
لنا عتب علی قوم أساؤا
بنا عمدا ولاعذر یبین
جنوا عمدا وراعوا حقوق
الحق بمسلم لوان یدین
غالباً یہ اشارہ ان حالات کی طرف ہے جس کی وجہ سے آپ کوٹونک چھوڑنا پڑا۔ افسوس یہ کتاب بھی مکمل دستیاب نہ ہوسکی۔ اس کاصرف ایک نسخہ آبائی کتب خانہ میں محفوظ ہے جو گیارہ اجزاء پرمشتمل ہے ۔ اس کے بعدسے ناقص ہے۔
(۷) فتاویٰ فارسی۔ یہ کوئی مستقل فتاویٰ نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ آپ سے ایک استفتاء کے ذریعہ کسی مقام سے آٹھ سوال کیے گئے تھے۔ ان سوالات کے جوابات موصوف نے تفصیل سے دیئے۔ یہی جوابات فتاویٰ کے نام سے موسوم ہوگئے۔ ’’رسالہ تحلیل مااحل اللہ‘‘ میں آپ نے ان جوابات کاذکرفرمایا ہے جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جوابات موصوف نے ۱۲۴۶ھ مطابق ۱۸۳۰ء میں لکھے تھے۔ یہ سوالات فاتحہ خوانی، اسقاط، تلقین میت اور مسئلہ مااہل بہٖ لغیراللہ سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کاایک نسخہ سعیدیہ لائبریری ٹونک میں اور ایک نسخہ والدصاحب مرحوم کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔کتب خانہ قلعہ معلیٰ میں ایک کتاب ’’استفتاء نواب وزیرالدولہ ازمولاناخلیل الرحمٰن‘‘کے نام سے موجود تھی جو دیگر کتب کے ساتھ دہلی منتقل ہوگئی۔ اس لئے اس کی مزید تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں۔ یہ کتاب وہاں کی فہرست میں بہ ۲۱۳ فقہ فارسی درج تھی۔
(۸) تحلیل مااحل اللہ فی تفسیر مااہل بہ ٖ لغیراللہ (فارسی) یہ رسالہ ۱۲۵۴ھ مطابق ۱۸۳۸ء کا مصنفہ ہے۔ ۱۲۵۹ھ مطابق ۱۸۴۳ء میں یہ رسالہ سماچاربمبئی میں طبع ہوا جب کہ مولاناحج سے واپس تشریف لائے تھے۔ یہ رسالہ ۴۴ صفحات پرمشتمل ہے۔
اولہ: الحمدللہ واجب الوجود بذاتہٖ وصفاتہٖ لذاتہٖ الخ
(۹) رسم الخیر (عربی) اس رسالہ میں مصنف نے ایام مخصوصہ میں صدقات وفاتحہ کے مسئلہ سے بحث کی ہے۔
(۱۰) رسم الخیرات وافشاء المبرات (فارسی) یہ رسالہ دراصل عربی رسالہ رسم الخیر کا فارسی ترجمہ ہے جو بعض احباب کے فرمانے سے کیا ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی کیا ہے۔ یہ رسالہ بھی ۱۲۵۹ھ مطابق ۱۸۴۳ء میں مطبع سماچاربمبئی میں طبع ہوا جب کہ آپ حج سے واپس تشریف لائے تھے۔ صفحات۶۳ ہیں۔
اولہٗ : الحمدللہ رب العالمین… امابعدچوں کہ ایں راجی از عفوربہ الخفی خلیل الرحمٰن الیوسفی۔ الخ
اس رسالہ کی تردیدمیں مولاناحیدرعلی صاحب رامپوری ٹونکی نے دو رسالہ فارسی میں تصنیف فرمائے۔ ایک رسالہ میں اس رسالہ کے مطالب ومعانی کی تردیدکی ہے اور دوسرے رسالہ میں اس کے الفاظ وعبارات کاسقم ظاہرفرمایاہے۔ ثانی الذکر رسالہ
’’ اقامت سنت باماتت بدعت‘‘ کے نام سے موسوم ہے او رسعیدیہ لابئریری ٹونک کے شعبہ قلمی میں محفوظ ہے جو ۱۲۶۴ ھ مطابق ۱۸۴۷ء کامصنفہ ہے۔ اس رسالہ میں مولوی حیدرعلی صاحب نے اپنے اول الذکر رسالہ کامتعددمقامات پرذکرفرمایاہے۔
(۱۱) رسالہ فاتحہ در رد وہابیہ : (اردو) مذکورہ بالاہردورسائل ’’رسم الخیر‘‘اور’’رسم الخیرات‘‘ تصنیف فرمانے کے بعدملک بنگال کے باشندگان کے اصرارپر آپ نے ان رسائل کااردوترجمہ کرکے یہ رسالہ ترتیب دیا۔ یہ رسالہ ۱۲۶۱ھ میںمطابق ۱۹۴۵ء بمبئی میں طبع ہوا جو ۳۰ صفحات پرمشتمل ہے۔
(۱۲) رسالہ بیعت اردو ۔ یہ رسالہ آپ نے اخذ بیعت کے سلسلہ میں تصنیف فرمایا اور جو بدعتیں اس سلسلہ میں رائج ہوگئی ہیں، اس رسالہ میں ان کی تردیدکی ہے۔ اصل رسالہ فارسی میں تصنیف کیاتھا۔ بعد میں اس کااردومیں ترجمہ کیا۔ یہ رسالہ بھی ۱۲۶۱ھ مطابق ۱۹۴۵ء میں بمبئی میں طبع ہوا۔ مختصررسالہ ہے۔
مولوی عبدالحیٔ صاحب لکھنوی نے نزہتہ الخواطر میں مولاناخلیل الرحمٰن کی تصنیفات کے تحت بیان کیا ہے کہ آپ نے حاشیہ غلام یحیٰ میرزاہد رسالہ اور میرزاہد علیٰ شرح المواقف پربھی تعلیقات لکھیں ہیں۔ یہ حواشی آج تک میری نظرسے نہیں گذرے۔