(۸) اظہارالیقین لترجمۃ فتح المبین : مترجم نے ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء میں حج کیا ہے ۔ حج سے پہلے آپ بغداد تشریف لے گئے۔ ۷؍رمضان ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء کو وہاں پہنچے۔ حضرت امام الاعظم اور شیخ عبدالقادرجیلانی کے مزارات کی زیارت کی۔ بعدزیارت مولاناعبدالرحمٰن صاحب آفندی سے ملاقات ہوئی جو شیخ صاحب کی اولاد میں سے تھے اور کتاب فتح المبین فیمایتعلق بتریاق المحبین کے مصنف ہیں۔ مولوی فضل حق صاحب نے اپنے تراجم’’اصباغ السالکین‘ ، ’’ترجمہ غنیۃ الطالبین‘‘اور ’’محک ایمانی ترجمہ فتح الربانی‘‘ بغرض ترجمہ آپ کو عطا فرمائی اور جلدترجمہ کرنے کی تاکیدکی۔ قیام بغداد ہی میں آپ نے ترجمہ کاکام شروع کردیا۔ دو ایک جز کاترجمہ کرکے وہیں مصنف کودکھایا۔ اس کے بعدآپ حج کوتشریف لے گئے ۔ حج سے فارغ ہوکر ۳؍ربیع الاول ۱۳۰۹ھ مطابق۱۸۹۲ء کوآپ اس ترجمہ سے فارغ ہوئے اور’’اظہارالیقین‘‘ اس کانام رکھا۔ ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں یہ ترجمہ مطبع دت پرشاد ممبئی میں طبع ہوا۔ تقطیع متوسط اور صفحات ۳۵۱ہیں۔
اولہٗ : الحمدللہ علیٰ نعمائہ الشاملۃ والشکرلہ علیٰ آلائلہ الکاملۃ۔ الخ
(۹) اصباغ السالکین ترجمہ غنیۃ الطالبین : اس ترجمہ کااصل نسخہ موصوف بغداد میں مولوی عبدالرحمٰن صاحب آفندی کودے آئے تھے اس لئے اس کایہاں کوئی نسخہ نظر سے نہیں گذرا۔
(۱۰) محک ایمانی ترجمہ فتح الربانی معروف بہ ستین مجالس : اس ترجمہ کااصل نسخہ بھی غالباً بغداد ہی میں رہا۔ اس لئے کہ اس کااصل نسخہ بھی مترجم نے بغرض طباعت شیخ آفندی مذکور کودے دیاتھا۔
(۱۱) حمائل ریحانی ترجمہ تحفتہ القادریہ ابوالمعالی : ۱۱؍ربیع الثانی ۱۲۹۲ھ کومطابق ۱۸۷۵ء آپ نے اس ترجمہ کی ابتدا کی اور ۸؍ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۲ھ مطابق ۱۸۷۵ء کوبروز دوشنبہ اس سے فراغت ہوئی۔ مترجم کے قلم کالکھاہوا اصل نسخہ محفوظ ہے۔
(۱۲) ترجمۃ السیف الربانی فی عتق المعترض علی الغوث الجیلانی۔ اصل کتاب علامہ سیدمحمدمکی کی مصنفہ ہے جس کامختصرحال اسی ترجمہ کے اول میں شامل ہے۔ یہ کتاب ’’حق ظاہر فی شرح حال الشیخ عبدالقادر‘‘مصنفہ علی بن محمدقرمانی حنفی کی تردیدمیں لکھی گئی ہے اور ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۸۹۱ء کی مصنفہ ہے۔ یہ کتاب مترجم علام کو صاحبزادہ احسان اللہ خاں خلف صاحبزادہ عنایت اللہ خان کی معرفت پہنچی۔ چوں کہ آپ کوشیخ جیلان سے دلی تعلق تھا اس لئے ۲۰؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۹۰۲ء روز دو شنبہ کو اس کتاب کاترجمہ شروع کردیا۔ ۸؍صفر ۱۳۲۱ھ مطابق ۱۹۰۳ء کو بروز پنچشنبہ اس سے فراغت ہوئے۔ آخرمیں ان تقاریظ کاترجمہ بھی شامل ہے جو ’’السیف الربانی‘‘ پرمختلف علماء نے لکھی ہیں۔ یہ تقاریظ تعداد میں ۴۲ ہیں۔ ترجمہ ہٰذا کا اصل نسخہ محفوظ ہے ۔ یہ ترجمہ غالباً صاحب ترجمہ کی آخری تصنیف ہے ۔ اس لئے کہ اسی سال آپ پر فالج کااثرہوگیا اورتین سال مفلوج رہ کر ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۹۰۵ء میں آپ کاانتقال ہوگیا۔
(۱۳) وسیلۃ الفقیر الیٰ جنابہ الکبیر : مناقب غوثیہ فارسی مصنفہ میرمحمدصادق شہابی سعدی کااردو ترجمہ ہے ۔ ترجمہ کانام تاریخی ہے ۔ شیخ کریم بخش میرسامان کے فرمانے سے آپ نے ۱۳۹۲ھ مطابق ۱۸۷۵ء میں ترجمہ کیا۔ مترجم کے قلم کالکھاہوا اصل نسخہ محفوظ ہے ۔ جس پر ۲۷؍جمادی الاخریٰ ۱۳۹۲ ھ مطابق ۱۸۷۵ء تاریخ کتابت درج ہے ۔
(۱۴) ترجمہ اردو جواہرالنوادرفی مناقب سیدی عبدالقادر۔
(۱۵) ترجمۃ باب الملامۃ از کتاب کشف المحجوب معہ عقدنہم ودہم از سبحۃ الابرار جامی
(۱۶) ترجمہ فتوح الغیب معہ مفتاح الفتوح للشیخ محدث دہلوی۔
(۱۷) تحفۃ الامیر فی بیان السماع والمزامیر۔ یہ کتاب آپ نے نواب ابراہیم علی خاں صاحب کے فرمانے سے تصنیف فرمائی۔ ایک مقدمہ، چار باب اور ایک خاتمہ پرمشتمل ہے ۔ مقدمہ میں سماع کی ماہیت، باب اول میں مفسرین کی تحقیقات، دوم میں محدثین کی تحقیقات، سوم میں فقہاء کی روایات اور چہارم میں صوفیاء کے اقوال ہیں۔ خاتمہ بطور قول فیصل شامل کیاگیاہے۔ نواب محمدعلی خاں کے حکم سے یہ کتاب مطبع مفید عام آگرہ میں طبع ہوئی۔ ۳۰۹ صفحات پرمشتمل ہے ۔
اولہٗ : الحمدللہ الذی بتحمیداتہ یترنم البلابل۔ الخ
(۱۸) رسالہ اخلاق ابراہیم ۔مترجم علام ۔نواب ابراہیم علی خاں صاحب کے والی ریاست ہونے کے بعدسرکاری کتب خانہ واقع قلعہ معلیٰ کی خدمت پرماہور ہوگئے تھے اور کتابوں کی ترتیب اور فہرست کی تیاری جاری تھی۔ اس سلسلہ میں آپ نے ایک فارسی کتاب دیکھی جو پندونصائح اور حکایات سلاطین پرمشتمل تھی۔ کتاب مذکورسلطان ابوالمظفرمحمدقطب شاہ کے کتب خانہ کی تھی۔ ۱۲۸۷ھ مطابق ۱۸۷۰ء میں آپ نے فارسی سے اس کااردو میں ترجمہ کیا اور نواب صاحب کے فرمانے کے مطابق اپنے والدمولوی سعداللہ خطیب کی بیاض اور رسالہ نصائح الملک سے اس میں بعض فوائد کااضافہ کیا۔ ’’رسالہ ا خلاق ابراہیم‘‘(۱۲۸۷ھ) اس کاتاریخی نام ہے ۔ اس رسالہ کاایک نسخہ ہمارے کتب خانہ میں محفوظ ہے جس کے کاتب عبدالغفارخاں ہیں اور ۲۲؍جمادی الاخریٰ ۱۲۸۷ھ مطابق ۱۸۷۰ء تاریخ کتابت ہے۔ ایک نسخہ صاحبزادہ عبدالرحمٰن خاںصاحب کے کتب خانہ سے حاصل ہواتھا وہ بھی محفوظ ہے۔ اس رسالہ کاایک نسخہ قلعہ کے کتب خانہ میں تھا جودہلی منتقل ہوگیا۔
(۱۹) ’’تریاک الخیل‘‘،فرسنامہ ابراہیم۔ یہ کتاب آپ نے ۱۳۰۲ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں نواب ابراہیم علی خاں کے فرمانے سے سالوتر وبیطاری میں تصنیف فرمائی جس میں گھوڑوں کے علاج سے بحث کی گئی ہے ۔’’فرسنامہ ابراہیم‘‘ اس کالقب اور’’تریاک الخیل‘‘ تاریخی نام ہے ۔ اکیس بابوں پرمشتمل ہے ۔ اس کا ایک نسخہ نذرباغ کے کتب خانہ میں بھی موجود ہے جس کے کاتب سید محمدارشادعلی حنفی قادری ہیں۔ یکم شوال ۱۳۰۳ھ مطابق ۱۸۹۲ء تاریخ کتابت درج ہے اور اس کے صفحات ۳۶۱ ہیں۔
(۲۰) نیک زادراہ بغداد (نامہ غریب) ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء میںآپ نے سفرحج کیاہے۔ یہ اسی حج کاسرنامہ ہے جوآپ نے اپنے داماد قاضی عبدالحلیم صاحب معجزؔ اورمولوی احمدحسن خاں صاحب کے اصرار پر ترتیب دیا۔ یہ سفرنامہ دوحصوں پرمرتب ہے ۔ حصہ اول میں سفر کے حالات اور مقامات متبرکہ کی تفصیلات ہیں۔ حصہ دوم میں مناسک ومسائل حج کی تفصیل بیان کی گیء ہے ۔ ۴؍شوال ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۸۹۲ء کوآپ نے اس کتاب کامبیضہ تیار کیاجومحفوظ ہے۔