اولہٗ : الحمدللہ رب العالمین، الرحمٰن الرحیم، مالک یوم الدین۔ الخ
(۲۱) مولودمسعود ۔ ریاست ٹونک میں عرصہ سے میلادخوانی کی محافل ہواکرتی تھیں۔ اس سلسلہ میں جوطویل وضخیم ’’مولود ‘‘تیارکیاگیاتھا اس کی ترتیب میں بھی آپ شریک تھے۔ اسی وقت سے آپ کاخیال تھاکہ ایک ایسا’’مولود‘ترتیب دیاجائے جوطویل بھی نہ ہواور تمام ضعیف روایات سے پاک ہو۔ ربیع الاول ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں جب محفلِ میلادمنعقد ہوئی اور مولوی احمدعلی صاحب نے درازیٔ کتاب کی وجہ سے ورق گردانی کی تو اس وقت صاحبزادہ اسحاق خاں صاحب نے مولوی فضل حق صاحب سے اصرارکیا کہ آپ ایک مختصر ترتیب دے دیں۔ آپ نے کتاب ’’ماثبت من السنتہ‘‘ سے ولادت کے حالات بطورمولود ترتیب دیئے۔ معراج وغیرہ کے جوواقعات اس میں نہیں تھے ان کاخود اضافہ کیا ۔ مدارج النبوۃ سے حضور کاحلیہ شامل کیا۔ حیات النبی کابیان کتاب’’انتباہ الاذکیاء فی حیات الانبیاء‘‘سے اخذکیا۔ اس طرح یہ مولود مرتب ہوگیا۔ مصنف کے قلم کالکھاہوا نسخہ محفوظ ہے لیکن قدرے ناقص ہے۔
اس کتاب کاایک مزیدنسخہ والدصاحب مرحوم کے پاس تھا جونہایت خوشخط لکھاہواتھا۔ یہ نسخہ آپ نے صاحبزادہ سردارمحمدخاں خلف صاحبزادہ اسحاق خاں صاحب کو دے دیا جو ان کے پاس محفوظ ہوناچاہئے۔
(۲۲) تواریخ جمیل۔ یہ کتاب ایک فارسی رسالہ کاترجمہ ہے جومولوی صبغۃ اللہ ولد مولوی عظمت اللہ ساکن دادری چرخی کلاں کامصنفہ تھا۔ آپ نواب وزیرالدولہ کے استاد تھے ۔ ۱۳۵۱ھ مطابق ۱۸۳۵ء میں آپ حج بیت اللہ سے واپس تشریف لائے اور نواب صاحب کے فرمانے سے فارسی میں یہ رسالہ تصنیف فرمایاجس میں بیت اللہ کی تعمیرات وغیرہ کاذکرہے۔ یہ رسالہ قلعہ کے کتب خانہ میں محفوظ تھا۔ مولوی فضل حق صاحب نے نواب ابراہیم علی خاں صاحب کے فرمانے سے اس کااردو میں ترجمہ کیا اور ’’تواریخ جمیل‘‘ اس کاتاریخی نام رکھا۔ ۴؍صفر ۱۳۰۰ھ مطابق ۱۸۸۳ء کواس ترجمہ سے فارغ ہوئے۔ ۴۴صفحہ کارسالہ ہے جو ۱۳۰۰ھ مطابق ۱۸۸۳ء ہی میں مطبع محمدی ٹونک میں طبع ہوا۔
اولہٗ : الحمدللہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین ۔الخ
(۲۳) رسالہ اکل وشرب: اس رسالہ میں اکل وشرب کے آداب، کتاب مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام او ربستان فقیہ ابواللیث سے اخذ کرکے جمع کئے گئے ہیں۔
(۲۴) رسالہ مسائل عیدین وجنازہ۔ ایک مختصررسالہ ہے ۔ اس کا ایک نسخہ نائب عبیداللہ خاں صاحب کے کتب خانہ میں دیکھنے کااتفاق ہواتھا۔
(۲۵) رسالہ شکار (۲۶) مولودجیلانی
(۲۷) ترجمہ استفتاء وجواب (۲۸) ارشادالانام
(۲۹) رسالہ تراویح
جوکتابیں میری نظرسے گذری ہیں ان پرمختصر نوٹ سا بق میں دے دیاگیاہے۔ باقی کتابیں وہ ہیں جن کاذکردوسری تصانیف میں ہے لیکن میری نظرسے ان کاکوئی نسخہ نہیں گذرا۔ مذکورہ بالا تراجم ورسائل کے علاوہ بھی موصوف کی تصانیف ہیں لیکن ان کے نسخہ منتشر ہوگئے یاضائع ہوچکے۔ ہمارے کتب خانہ میں وہ کتابیں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ صاحب ترجمہ نے خود اپنے مرتبہ شجرہ میں اپنی تصانیف کی تعداد ۴۰ (چالیس) سے زائد لکھی ہے جب کہ مذکورہ شجرہ ۱۳۱۵ھ مطابق ۱۸۹۷ء کا مرتبہ ہے۔
مولوی عبدالکریم خان
مولوی قاضی عبدالکریم بن مولوی محمدخاں مفتی بن ملاعرفان صاحب رامپوری۔ رامپور میں پیداہوئے ،۔وہیں پرور ش پائی اور علوم حاصل کئے۔ پھراپنے والدکے ہمراہ ٹونک آکرسکونت اختیارکی ،کتب درسیہ کی تکمیل اگرچہ اپنے والد اور دیگر اساتذہ سے کی تھی لیکن درس وتدریس یاعلمی مشغلہ میں زیادہ مصروف نہیں رہتے تھے بلکہ اتقاء پرہیزگاری میں اپنی زندگی گذارتے۔ غرباء ومساکین کی خدمت کرتے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آنے کی کوشش کرتے تھے۔ زندگی اس میں صرف ہوتی تھی کہ محلہ کی بڑی بوڑھیوں اور اپاہج ومعذور لوگوں کی خدمت کیاکریں۔ آپ کاہرروز کامعمول تھا کہ گھروں پر جاتے اور معلوم کرتے پھرتے کہ کس کس کو کس چیز کی ضرورت ہے ۔ پھربازار جاکرضرورت کی چیزیں لا دیاکرتے تھے۔
موصوف حد سے زیادہ نیک طبیعت واقع ہوئے تھے اور خدمت خلق کا جذبہ بے انتہاتھا۔ ایک بارمغرب کے قریب کھیپ کے کچھ گٹھے والے اس وجہ سے اپنے گھر واپس جارہے تھے کہ بازار میں ان کامال فروخت نہیں ہواتھا۔ راستہ میں مولوی عبدالکریم صاحب کامیلان ہوگیا گٹھے والے حسرت سے آپس میں کہتے جارہے تھے کہ آج مایوس واپس جارہے ہیں۔ مولوی صاحب کے دل پر ان کی باتوں کا بڑااثر ہوا۔ آپ نے بے ضرورت تمام گٹھے خریدلئے اور گھرمیں لے جاکرڈلوادیئے اور مالکوں کو گٹھوں کی قیمت ادا کرکے روانہ کردیا۔ گھروالے بھی بے ضرورت خریداری پرناراض سے ہوئے اور بات رفع دفع ہوگئی ۔
اتفاق سے اسی رات موصوف کے والد مولوی محمدصاحب تہجد کے وقت نماز کے لئے اٹھے۔ سوء اتفاق سے بالاخانہ سے پائوں پھسلا اور نیچے جاپڑے۔ اتفاق سے وہ گٹھے نیچے پڑے تھے جومولوی عبدالکریم صاحب نے بے ضرورت خریدے تھے۔ اس طرح بحمداللہ کسی طرح کی ضرب نہیں آئی اور محفوظ رہے ، فرمانے لگے ، آج عبدالکریم کی نیکی میرے کام آگئی۔
مولوی محمدصاحب چوںکہ نواب وزیرالدولہ اور ان کی اولادکے استاد تھے اور عدالت شریعت کے مفتی تھے اس لئے ٹونک کے جملہ رؤساء مولوی عبدالکریم صاحب کوبڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نواب محمدعلی خاں جب ۱۲۸۴ھ مطابق ۱۸۶۷ء میں معزول ہوکر بنارس میں قیام پذیرہوگئے تو مولوی صاحب ان سے ملاقات کے لئے بنارس تشریف لے گئے اور پیدل تشریف لے گئے۔ کہاجاتاہے کہ مولوی صاحب کے پاس’’یاحی یاقیوم‘‘ کا کوئی عمل تھا جس کی وجہ سے آپ طویل سفر بھی کم مدت میں بآسانی پیدل کرلیاکرتے تھے۔
بنارس کایہ سفر غالباً ۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶ء میں ہواہے۔ اس لئے کہ ا س وقت آپ نے اپنے دادا ملاعرفان رامپوری کے قلم کالکھاہواایک نسخہ ’’الدررالمنتشرہ فی الاحادیث المشتہرہ‘‘ کانواب محمدعلی خاں کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ یہ نسخہ سعیدیہ لائبریری ٹونک کے شعبۂ قلمی میں محفوظ ہے۔ اس پرنواب صاحب کی طرف سے ایسا ہی نوٹ دیاگیاہے۔ اور ۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶ء اس پر درج ہے۔
جب آپ بنارس تشریف لے گئے تو نواب صاحب کے پاس قیام ہوا۔ دورانِ قیام ایک روز نواب صاحب کواطلاع ملی کہ آج مولوی عبدالکریم صاحب ایک طوائف کے مکان پر تشریف لے گئے تھے اور اسے پانچ روپیہ دے کروعدہ بھی کرآئے ہیں۔ نواب صاحب کوبڑی حیرت ہوئی او ردل میں ارادہ کیا کہ آج مولوی صاحب کی جانچ کرنا ہے۔ نماز عشاء کے بعدنواب صاحب نے حسب معمول اپنے پلنگ پرآرام فرمایامگرخاموشی کے ساتھ جاگتے رہے۔ مولوی صاحب کاپلنگ بھی قریب تھا وہ بھی لیٹ گئے اور سوگئے نواب صاحب اپنے اس خیال میں رات بھر جاگے کہ کب مولوی صاحب تشریف لے جائیں اور ٹوکوں مولوی صاحب رات بھرآرام سے سوتے رہے۔ نواب صاحب کو تعجب ہوا اور خیال ہوا کہ شاید انہیں غلط اطلاع ملی۔ صبح نواب صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت فرمایا تو مولوی صاحب نے اقرارکیااورفرمایا کہ میں گیاتھا اور پانچ روپیہ بھی دے کرآیاتھا۔ میرے اس عمل سے اگرایک ہی روز وہ حرام سے محفوظ رہی تو کیابراہوا۔ نواب صاحب حیران ہوکر خاموش ہوگئے۔
نواب محمدعلی خاں کے بعد نواب ابراہیم علی خاں والی ریاست ہوئے۔وہ بھی مولوی صاحب کی بہت تعظیم وتکریم کیاکرتے تھے اور ان کا بڑا احترام فرماتے۔ مولوی صاحب نواب صاحب کو ہمیشہ ابراہیم علی خاں کہہ کرمخاطب کیاکرتے تھے۔ خاندانی امراء مولوی صاحب کے اس عمل پر برامانتے تھے۔ ایک روز نواب صاحب کے سامنے بھی ایسا ہی ذکرآگیا ۔نواب صاحب مولوی صاحب کے خاندان اور ان کے رتبہ سے واقف تھے اس لئے فوراً سب کو خاموش کردیا۔ نواب صاحب کے دل میں مولوی صاحب کا اس قدر احترام تھا کہ راستہ میں کہیں مولوی صاحب مل جاتے تو سواری روک کرمولوی صاحب کو اپنے ہمراہ بٹھاتے اور ان کے مکان تک پہنچاجاتے۔
مولوی محمدصاحب کے انتقال کے بعدآبائی جاگیرومعافی مولوی عبدالکریم صاحب اور ان کے برادران کے نام منتقل ہوگئی تھی لیکن اس کے علاوہ بھی نواب وزیرالدولہ نے موصوف کوشہر ٹونک کی جدیدآبادی کا قاضی اور نکاح خواں مقررفرمایا اور اس کے صلہ میں ایک گائوں بھی مزید جاگیر میں مرحمت فرمایا۔چنانچہ نکاح خوانی کی خدمت اور مذکورہ جاگیر ومعافی مولوی صاحب کی اولادکے حق میں باقی ہے۔
مولوی عبدالکریم صاحب تیرہویں صدی کے آخری عشرہ میں حج بیت اللہ کو بھی تشریف لے گئے تھے ۔ اس زمانہ میں چوں کہ بادبانی کشتیوں کے ذریعہ سفر ہوتاتھا۔ اس لئے تین سال میں حج سے واپسی ہوئی تھی ۔غالباً ۱۲۹۶ھ مطابق ۱۸۷۹ء میں آپ سفرپر تشریف لے گئے اور ۱۲۹۹ھ مطابق ۱۸۸۲ء میں واپس ہوئے۔ اس لئے کہ میرے دادا قاضی عبدالحلیم صاحب کے ایک قلمی نوٹ کے اعتبار سے انتقال سے ایک سال قبل مولوی صاحب حج بیت اللہ سے واپس تشریف لائے ہیں۔
وفات :
مولوی عبدالکریم صاحب کا انتقال ۱۳۰۰ھ مطابق ۱۸۸۳ء میں بمرض یرقان اسود ٹونک میں ہوا اور گورستان موتی باغ میں اپنے والد مولوی محمدصاحب کے احاطہ میں دفن کیے گئے۔ آپ کی دو مہریں دیکھنے کااتفاق ہوا ہے۔ ان میں آپ کا نام اس طرح کندہ تھا :
۱۔ ’’محمدعبدالکریم ۲۔ ’’عبدالکریم خان‘‘
۱۲۸۳ھ ۱۲۷۹ھ
اولاد :
مولوی عبدالکریم صاحب کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں :
۱۔ مولوی عبدالقیوم خاں صاحب
۲۔ مولوی حکیم عبدالحلیم صاحب معجزؔ جدحقیقی مؤلف تذکرہ ہٰذا
۳۔ مولوی عبدالصمد خاں صاحب عرف منا خاں صاحب
۴۔ حجاب بیگم زوجہ کپتان بدرالدین احمدصاحب
۵۔ زہرہ بیگم زوجہ مولوی عبدالوحیدصاحب پسر مولوی عبدالعزیز صاحب پسر مولاناخلیل الرحمٰن۔ ان حضرات سے متعلق ضروری تفصیلات تذکرہ ہٰذا کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے مواقع پر درج ہیں۔