تعارف، تقریظ وتبصرہ
عرض مصنف
تمہید:
خاندان عرفانی، ریاست ٹونک کے ان قدیم ترین علمی خاندانوں میں سے ایک ہے جس کے افراد، قیام ریاست کے فوراً بعد اس علاقہ میں منتقل ہوئے ،آباد ہوئے،علمی کاوشیں کیں، درسی خدمات انجام دیں اور علمی دنیامیں ہمیشہ کے لئے وہ نام پیدا کیا جس سے ریاست ہذا کافرد فرد باخبر ہے۔ اس خاندان کے مورث اعلیٰ مولانااخوند حافظ محمدعرفان خان جو علمی دنیامیں ملاعرفان رامپوری کے نام سے متعارف ہوئے وہ پہلے فرد ہیں جو علاقہ سوات سے بغرض تکمیل علوم عربیہ، ہندوستان آئے اور سندفراغ حاصل کرلینے کے بعد اسی ملک کے ہولئے۔ متأہل ہوکر سب سے پہلے رامپور کو وطن بنایا اس لئے رامپوری مشہور ہوئے۔ اولاد میں اللہ نے وہ برکت عطا فرمائی کہ تقریباً نصف صدی میں ایک پورا خاندان آباد ہوگیا۔
وجہ تصنیف:
اسی علمی خاندان اور اس خاندان کے افراد کے حالات یکجاکرنے کی غرض سے یہ تاریخ ترتیب دی گئی ہے ۔ اس خادم کو بھی چونکہ اسی خاندان عرفانیہ کاایک حقیر فرد ہونے کا فخرحاصل ہے ۔ اس لئے فطری لگائو کی بناپر اپنے خاندانی حالات جمع کرنے کاشوق پیدا ہوا۔ والدصاحب مرحوم مولاناقاضی حکیم محمدعرفان خانصاحب جو اس خاندان کے آخری معروف ترین انسان تھے۔ خاندانی حالات سے بہت زیادہ باخبر تھے ۔ اس لئے موصوف کی معلومات سے پورا استفادہ کیاگیا اور کوشش کی گئی کہ آپ کے اس معلوماتی ذخیرہ کو صفحۂ قرطاس پر لاکرحتی الامکان محفوظ کیاجائے۔ الحمدللہ اس سلسلہ میں بڑی حدتک کامیابی ہوئی اور آج دس سال کی مسلسل کاوشیں ’’تاریخ عرفانی‘‘کے نام سے کتابی شکل میں آپ حضرات کے سامنے حاضرہیں۔ اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ خاندان ہذا کے فرد اولین وآخرین دونوں ہمنام ہیں اس لئے ’’تاریخ عرفانی‘ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نام اس مجموعہ کاذہن میں نہیں آیا۔
ترتیب:
یہ مجموعہ چار حصوں پرمشتمل ہے ۔ ابتدائی حصہ تذکرہ عرفانیہ کے نام سے موسوم ہے۔ اس حصہ میں قبلہ والدصاحب مرحوم کے تفصیلی حالات جمع کیے گئے ہیں۔ ۷؍ اپریل ۱۹۶۲ء مطابق یکم ذیقعدہ ۱۳۸۱ھ کوآپ کاانتقال ہواتھااور تذکرہ عرفانیہ اس کانام رکھاگیاتھا۔ آج یہی رسالہ تاریخ عرفانی میں حصہ اول کی حیثیت سے شامل کیاجارہاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کوقبول فرمائے۔
تاریخ عرفانی کادوسرا حصہ تاریخ العلماء پرمشتمل ہے۔ اس حصہ میں خاندان ہذا کے علماء حضرات کے مفصل حالات جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان حالات کااکثر حصہ تذکرۃ العلماء ٹونک کے لئے ترتیب دیاگیاتھا۔ اس حصہ کوتاریخ عرفانی میں شامل کرلیاگیا تاکہ خاندانی افراد میں جو حضرات علم وفضل کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں ان کے تفصیلی حالات محفوظ ہوسکیں۔ اسی وجہ سے ان حضرات کی علمی خدمات کوتفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور مختلف ادوار میں خاندانی افراد نے جوکتابیں تصنیف یاتالیف کی ہیں ، جن میں بعض طبع ہوچکی ہیں اور اکثر کتابیں اب تک غیرمطبوع ہیں ان کے ضروری حالات حتی الامکان محفوظ کرنے اور یکجاکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کا تیسرا حصہ سلسلۂ عرفانیہ کے نام سے موسوم ہے۔ اس حصہ میں جدول کے طور پر تمام افراد کے حالات منضبط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بغرض اختصار جدول کی صورت اختیار کی گئی تاکہ اس کے ذریعہ سنینِ ولادت ووفات اور اولاد کی تفصیل نیز خانۂ کیفیت میں مختصرحالات ایک نظر میں معلوم ہوسکیں۔ آخرمیں چوتھا حصہ شجرۂ عرفانیہ کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔ اس حصہ میں مکمل خاندانی شجرہ من اولہٖ الیٰ آخرہٖ ترتیب دیاگیا ہے جس کے ذریعہ خاندانی افراد کے رشتے بسہولت معلوم ہوسکتے ہیں۔ آخر میں خاندان سے متعلق سندات علمی، سندات جاگیر ودیگر قدیم تحریرات کی نقول شامل کی گئی ہیں۔
(شجرۂ عرفانیہ کو فی الحال تاریخ عرفانی میں شامل نہیں کیاگیا۔ اس حصہ کو الگ سے شائع کرنے کا ارادہ ہے۔)
حالات کے اس ذخیرہ کو زیادہ مفید بنانے کی غرض سے متعدد فہرستیں ترتیب دے کر شامل کی گئی ہیں۔ آخرمیں انڈکس وعمومی فہرست ہے جس میں خاندان کے تمام افراد کے نام بھی حروف تہجی کے طرز پر مرتب کیے گئے ہیں۔ اسی طرح علماء حضرات کی فہرست علیحدہ دی گئی ہے ۔مصنف حضرات کی فہرست ان کی تصانیف کے ساتھ علیحدہ ترتیب دی گئی ہے ۔ نیز جملہ تصانیف حروف تہجی کی ترتیب پر علیحدہ لکھی گئی ہیں اور تمام حوالے دیے گئے ہیں تاکہ اس مجموعہ سے پورا استفادہ کیاجاسکے۔
مآخذ :
تاریخ عرفانی کوترتیب دینے اور خاندانی حالات جمع کرنے کے سلسلہ میں بڑی دقتیں پیش آئی ہیں اور بیحد کاوشیں برداشت کرناپڑی ہیں۔ خاندان کا ابتدائی شجرہ مولوی فضلِ حق صاحب مرحوم خطیب جامع مسجدٹونک نے ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں ترتیب دیا تھا۔ یہ شجرہ نامکمل تھا اور ابتدائی مسودہ ہونے کی وجہ سے قابل استفادہ نہیں تھا۔ والد صاحب مرحوم نے اسی شجرہ سے دوسرے طرز پرایک جدیدشجرہ تیار کیاتھا لیکن وہ بھی نامکمل حالت میں رہا۔ انہی دونوں شجروں کوپیش نظر رکھتے ہوئے طرز نو پر شجرہ عرفانیہ میں جوحالات درج کیے گئے ہیں وہ زیادہ تر خاندانی یادداشتوں ، والدصاحب مرحوم کی معلومات، مختلف نوٹ اور اپنی خود کی محنتوں کا نتیجہ ہیں۔ تذکرہ علماء کاحصہ ’’تذکرہ علماء ٹونک‘‘مرتبہ خود سے ماخوذ ہے اور اس کے مآخذ کا ذکر،محولہ تذکرہ میں حسب موقع مذکور ہے۔ اس کی ترتیب میں ٹونک سے متعلق تمام تاریخوں اور تذکروں سے مددلی گئی ہے ۔ تذکرہ عرفانیہ چوں کہ والد صاحب مرحوم کے حالات پرمشتمل ہے اس لئے یہ تمام حصہ موصوف کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا۔ موصوف کے جس قدر حالات مجھے معلوم تھے اورآپ کے جن اوصاف وخصائل کا اندازہ زندگی بھر میں لگاسکتا تھا اسے اس حصہ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
خاندان کے ابتدائی حالات :
مولانامحمدعرفان رامپوری، اخوند ۱؎ محمدعمران کے بیٹے اور اخوندعبدالحلیم کے پوتے تھے۔ سلسلہ انساب میں اس سے اوپر کی نسلوں کے نام اور ان کے حالات کامزید پتہ اب تک نہیں چل سکا۔ یہ ضرور معلوم ہے کہ یہ حضرات خراسانی النسل تھے اور قبیلہ کے لحاظ
سے تاجیکی تھے ۔ مولوی فضل حق صاحب خطیب کے مرتبہ شجرہ سے پتہ چلتا ہے کہ اخوند عبدالحلیم خواجہ اویس بن جہانگیرشاہزادہ حاکم سوات کی اولاد میں تھے۔ اخوند عبدالحلیم اور اخوند محمد عمران کی اولاد پکلئی وتورو وغیرہ علاقہ جات سوات میں رہی۔ شجرہ عرفانیہ میں ان کی کچھ نسلوں کاذکربھی صفحہ ۲۷۲ پر موجود ہے۔ لیکن ان حضرات کے مزید حالات معلوم نہیں ہوسکے اور وہاں کے اعزّہ سے بعد میں رابطہ بھی باقی نہیں رہ سکا۔ ملا عرفان رامپوری کی دختر کانکاح اخوندنعمان سے ہواتھا جو سوات میں رہاکرتے تھے۔ اسی وجہ سے موصوف کی دختر بعد نکاح وداع ہوکر سوات چلی گئی تھیں اور ان کی پوری زندگی وہیں گذری۔ ان کے پسر اخوند محمد اپنے بیٹے سیداحمدکے ساتھ قیام ریاست کے بعداپنے اعزہ سے ملنے دو ایک بار سوات سے ٹونک آئے گئے ہیں۔ اس طرح اخوند نعمان کے دوسرے بیٹے محمدعلی سے ٹونک کے ایک عزیزکی ملاقات ۱۳۰۶ھ مطابق ۱۸۸۹ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی تھی جب کہ دونوں حضرات حج بیت اللہ کے سلسلہ میں وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ان حضرات سے مزیدرابطہ باقی نہیں رہ سکا۔
مورث اعلیٰ مولانامحمدعرفان خان، علوم عربیہ کی تکمیل کے لئے بارہویں صدی ہجری کے آخری عشروں میں وطن مالوف سے ہندوستان تشریف لائے۔ دہلی قیام کیا۔ مولانا بحرالعلوم کاغلغلۂ درس اس وقت ہندوستان بھر میں چھایا ہوا تھا۔ اس لئے لکھنؤ جاکر ان کی شاگردی اختیار کی اور فاتحہ فراغ بھی حاصل کی۔ شیخ کی رفاقت میں لکھنؤ سے رامپور منتقل ہوئے تھے اس لئے وہیں متائل ہوکر مستقل سکونت اختیار کرلی۔ شفیق استاد کے ساتھ مدرس بھی رہے لیکن چوں کہ شادی رامپور میں ہوچکی تھی اس لئے مستقل سکونت رامپور رہی۔ ۱۲۰۳ھ مطابق ۱۷۸۸ء اور ۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۸ء کی درمیانی مدت کے متعدد مخطوطے موصوف کے قلم کے لکھے ہوئے محفوظ ہیںجوموصوف نے اپنی اولاد کو تعلیم دینے کے لئے نقل کرکے دئے۔ آپ نے اولاد کی اچھی تربیت کی اور بحمداللہ تمام اولاد قابل پیداہوئی۔ بڑے بیٹے مولوی محمدمفتی تھے۔ ان کی مسند درس گوئیاتالاب محلہ راجدوارہ میں قائم تھی۔ اسی طرح دوسرے بیٹے مولانا خلیل الرحمٰن رامپور میں درسی خدمات انجام دیاکرتے تھے۔ تیرہویں صدی ہجری کے ابتدائی تین چار عشرے ان حضرات نے رامپور میں گذارے اور علمی ماحول میں اپنا مقام حاصل کرتے رہے۔ تذکرہ کاملان رامپور میں ان حضرات کے تفصیلی حالات ملتے ہیں۔