قاضی عبدالحلیم معجزؔ
مولوی قاضی حافظ عبدالحلیم صاحب معجزؔپسرمولوی قاضی عبدالکریم صاحب ابن مولوی محمدصاحب مفتی ٹونک میں تیرہویں صدی کے ساتویں عشرہ میں پیدا ہوئے اور یہیں تربیت پائی۔ ابتداء ً کتب درسیہ فارسی پڑھیں پھر علوم عربیہ حاصل کئے۔ صرف ونحو کی کتابیں مولوی عبدالغفور صاحب بنگالی سے،منطق کی کتابیں مولوی تراب علی لکھنوی سے، منقولات میں فقہ وغیرہ کی کتابیں مولوی دوست محمد صاحب ناظم عدالت شریعت سے پڑھیں۔ پھرطب کاشوق ہوا۔ مولوی احمدعلی صاحب سیماب اور دائم علی خاں صاحب سے اوائل کتب حاصل کیں۔ پھرحکیم علی حسن صاحب امروہوی کادامن پکڑا جو ٹونک کے مشہور اور حاذق طبیب تھے اور یہاں ان کاکامیاب مطب چل رہاتھا۔ چنانچہ ان سے علم طب کی پوری تکمیل کی۔ سالہاسال مطب میں بیٹھے اور استفادہ کرتے رہے اور کامیاب طبیب ہوئے۔ کبھی اپنے استاد کے مطب میں بیٹھ کر مریضوں کے امراض کی تشخیص کرتے او ر اسباب وعلامات کے لحاظ سے نسخہ تجویزکیاکرتے تھے۔ کبھی اس کوضبط تحریرکرتے جاتے تھے۔ چنانچہ رسالہ موسومہ ’’مطب ہفت روزہ‘‘اسی طرح ترتیب دیاگیا جس کا ذکرتصانیف میں آرہاہے۔
موصوف ٹونک میں مطب کیاکرتے تھے اور دن رات علماء کی محافل او رعلمی مجالس میں مصروف رہتے۔ آخرعمرمیںجوناگڑھ وغیرہ جاکر بھی مطب کیا ہے۔ جوناگڑھ میں حکیم عبدالرزاق صاحب رامپوری مطب کیاکرتے تھے۔ وہ آپ کے خاندانی وقار اور بزرگوں سے واقف تھے ۔ اس لئے آپ کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے او رخاطر تواضع کی۔
حکیم عبدالحلیم صاحب نے پھراجمیرجاکر مطب کیا۔ اجمیرمیں بابو عثمان نامی ایک بزرگ صفت انسان تھے۔ بڑے مہمان نواز اور مسافر پرور۔ علماء وبزرگان دین کی بڑی خدمت کیاکرتے تھے۔ بابوصاحب اگرچہ انگریزی علوم میں ماہرتھے مگر دینی غلبہ موصوف پر بہت تھا۔ اس لئے حکیم صاحب کے ساتھ بھی بڑے احترام سے پیش آئے۔ آپ نے بابو صاحب موصوف ہی کے فرمانے سے مدرسہ عثمانیہ معینیہ کے ابتدائی طلباء کے لئے نماز کے احکام نظم کئے او راس رسالہ کانام ’’احکام الصلوٰۃ ‘‘رکھا۔ذیل کے اشعار میں اس بات کا ذکرکیاگیاہے :
مدرسہ اسلامیہ ہے ایک یہاں
اس کے افسرہیں مرے ایک مہربان
مدرسہ کے وہ پریسیڈنٹ ہیں
دین کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ ہیں
رغبت ان کی موجب تصنیف ہے
الفت ان کی باعث تالیف ہے
اجمیرسے ٹونک تشریف لانے کے بعد اسی رسالہ احکام الصلوٰۃ کی آپ نے مفصل شرح لکھی جس کانام ’’کاشف الروایات‘‘ ہے۔
حکیم صاحب موصوف کو شاعری میں کافی شغف تھا۔ معجزؔ تخلص تھا۔ نواب محمد سلیمان خاں اسدؔلکھنوی کے شاگرد تھے اور ان سے کافی روابط تھے۔ قطعات تاریخ کے علاوہ آپ کافارسی واردو دیوان بھی تھا جو بد قسمتی سے اب محفوظ نہ رہ سکا۔‘‘ استاد اصغر علی آبرو نے ’’حدیقۂ راجستھان ٹونک‘‘ (تاریخ ٹونک اردو) میں ’’بزم خلیل‘‘ کے نام سے ایک مشاعرہ لکھا ہے جو ۱۳۱۴ھ مطابق ۱۷۹۹ء میں صاحبزادہ شیرعلی خاں کے مکان پرہواتھا۔ اس مشاعرہ کے سلسلہ میں قاضی عبدالحلیم صاحب کی ایک فارسی غزل بھی نقل کی گئی ہے جو اس مشاعرہ میں پڑھی گئی تھی۔ ہر شاعر کی غزل کے ساتھ شعراء کے مختصرحالات بھی درج کیے گئے ہیں۔ چنانچہ قاضی صاحب کی عمراس وقت ۴۶ سال لکھی گئی ہے اس اعتبار سے قاضی صاحب کی پیدائش ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۸۵۱ء میں ہوئی۔
تاریخ ٹونک میں مذکورہ غزل کے علاوہ معجزؔٹونکی کے دو تاریخی قطعے بھی درج کیے گئے ہیں ایک قطعہ مسجد حکیم سرور شاہ سے متعلق ہے جو مسجد علی گنج کے نام سے مشہور ہے ۔ اس مسجد کی ترمیم ۱۲۹۸ھ مطابق ۱۸۸۰ء میں صاحبزادہ عبدالرحیم خاں صاحب نے کرائی تھی ۔ اسی پر یہ قطعہ لکھاگیاہے۔ دوسرا قطعہ صاحبزادہ محمودخاں صاحب کی حویلی واقع محلہ موتی باغ سے متعلق ہے جو ۱۲۹۶ھ مطابق ۱۸۷۹ء میں تعمیرہوئی۔
حکیم صاحب موصوف حافظ قرآن بھی تھے او رصرف چھ ماہ کی مدت میں آپ نے قرآن مجید اس زمانہ میں حفظ کرلیاتھا جب کہ آپ کے والد مولوی عبدالکریم صاحب حج کو تشریف لے گئے تھے۔
وفات :
۲۱؍رمضان ۱۳۲۸ھ مطابق ۱۹۱۰ء کوبمرض طاعون ٹونک میں قاضی صاحب کاانتقال ہوا اور گورستان موتی باغ میں اپنے والدصاحب کی قبر کے جانب غرب دفن کیے گئے ،یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اس علاقہ میں مرض طاعون وبائی شکل میں پھیلاہواتھا اور اموات کثرت سے ہورہی تھیں اور گھر کے گھر صاف ہورہے تھے۔ چنانچہ قاضی عبدالحلیم صاحب ان کی اہلیہ قمرجہاں بیگم خوشدامن، دونوبیٹاںبوٹابیگم اوربشریٰ بیگم کاانتقال اسی مرض میں چند روز کی مدت میں ہوگیا۔
قاضی صاحب مرحوم کی دومہریں دیکھی گئیں۔ ایک ۱۲۹۱ھ مطابق ۱۸۷۴ء کی ہے اور اس میں ’’عبدالحلیم ۱۲۹۱ درج ہے ۔ دوسری مہر ۱۳۰۲ھ کی ہے اور اس میں ’’قاضی عبدالحلیم‘‘ ۱۳۰۲ھ مطاق ۱۸۸۴ء کندہ ہے۔
اولاد :
قاضی عبدالحلیم صاحب نے دو نکاح کئے اور دونوں بیویوں سے اولاد ہوئی پہلا نکاح خدیجہ بیگم دختر مولوی فضل حق صاحب خطیب جامع مسجد سے ہوا۔ اوران کے بطن سے محمدابراہیم، نظام الحق پسران اور زبیدہ خاتون دختر کی پیدائش ہوئی۔ دوسرا نکاح آپ نے قمرجہاں بیگم دختر بخت بلندخاں صاحب سے اس زمانہ میں کیاجب کہ آپ کے والد حج کوتشریف لے گئے تھے۔ ان کے بطن سے حافظ محمداسماعیل ،قاضی محمدعرفان صاحب حکیم خلیل الرحمٰن صاحب پسران اور بوٹابیگم وبشریٰ بیگم دختران پیداہوئیں۔ ایک بیٹے حسن مثنیٰ تھے۔ ان کاانتقال نوعمری میں ہوگیاتھا۔ اسی طرح محمدابراہیم،نظام الحق نوجوان فوت ہوئے۔
تصانیف :
۱۔ تدبیرالحوامل والصبیان ۔فارسی۔ اس رسالہ میں حاملہ عورتوں اور بچوں کے امراض واسباب وعلامات اور ان کے علاج سے بالتفصیل بحث کی گئی ہے ۔ اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے ۔ آخرکتاب میں مرض موتی جھرہ سے بحث کی گئی ہے ۔ ۱۳۱۸ھ مطابق۱۹۰۰ء میں آپ نے یہ رسالہ تصنیف فرمایا۔ چنانچہ موصوف کاقلمی اصل نسخہ محفوظ ہے جس پر ۱۵؍ذیقعدہ ۱۳۱۸ھ مطابق ۱۹۰۱ء تاریخ کتابت درج ہے ۔ تقطیع متوسط ہے اور صفحات ۹۸ ہیں۔
اولہٗ :حکیم برحق حمدیست بے ضد کہ بحدذاتش خواندن کافی است قل ہو اللہ احد۔ الخ
اس رسالہ کی متعدد نقول حاصل کی جاتی رہی ہیں۔ میں نے بھی اس رسالہ کی ایک نقل کی ہے جو محفوظ ہے ۔
۲۔ رسالہ موتی جھرہ۔ فارسی۔ تدبیرالحوامل مذکور میں مصنف نے مرض موتی جھرہ سے قدرے بحث کی تھی ۔لیکن یہ مرض چوں کہ اس وقت نوپیداشدہ او ر دن بدن ترقی پذیر تھا اور اس مرض کی تشخیص اور دواکی تجویز میں اطباء تک سے لغزش ہورہی تھی اس لئے ۱۳۱۸ھ مطابق ۱۹۰۰ء میں آپ نے اس موضوع پرمستقل رسالہ لکھناشروع کیا اور اس میں اس مرض کے اسباب، علامات اور اس کے علاج سے بالتفصیل بحث کی ،آخرمیں جدری وحصہ کاعلاج بھی لکھا ہے ۔ ۹؍ذی الحجہ ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۹۰۵ء کوموصوف اجمیرمیں اس رسالہ کی تصنیف سے فارغ ہوئے۔ مصنف کااصل نسخہ محفوظ ہے۔ تقطیع متوسط اور صفحات ۲۵ ہیں۔ اس رسالہ کی بھی متعددنقول ہوچکی ہیں۔ اول کی عبارت اس طرح ہے :
’’ربناحمدک سبحانک لاعلم لنا……بعدحمدوصلوٰۃ میگوید۔‘‘الخ
۳۔ مطب ہفت روزہ۔ فارسی۔ یہ وہ مطب ہے جس میں موصوف نے حکیم علی حسن صاحب امروہوی کے مطب میں بیٹھ کر ہر روز کے حاضرہونے والے مریضوں کی کیفیت مرض، معہ صراحت نام مریض وعمر ضبط تحریرکی تھی۔ تشخیص وتجویز بھی ساتھ ساتھ ہے۔ اس طرح موصوف صرف سات روز کے حالات لکھ سکے اس لئے اس مطب کانام ’’مطب ہفت روزہ‘‘ رکھا۔ یکم جمادی الاولیٰ ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۸۹۴ء سے آپ نے یہ مطب لکھنا شروع کیا۔ مؤلف کے قلم کالکھاہوا اصل نسخہ محفوظ ہے جس پر ۷؍جمادی الاولیٰ ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۸۹۴ء تاریخ کتابت درج ہے ۔ صفحات ۸۶ ہیں۔ اس مطب کی بھی متعددنقول ہوچکی ہیں۔