تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مولوی عبدالرّب مفتی

          مولاناعبدالرب صاحب مفتی پسرکلان مولاناخلیل الرحمٰن صاحب یوسفی گلشن آبادی رامپور میں پیداہوئے۔ اپنے والدسے علوم متداولہ حاصل کئے۔زبردست عالم اور فاضل طبیب تھے۔ نواب یوسف علی خاں والیٔ رامپور کے عہدمیں عدالت دیوانی رامپور میں کچھ عرصے مفتی رہے۔ عبدالمجیدخاں وکیل رامپور ان کے داماد تھے۔

          مولاناخلیل الرحمٰن صاحب کے ٹونک سے جاورہ تشریف لے جانے کے بعدآپ بھی جاورہ تشریف لے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی اور عزت وشرف کے ساتھ ریاست میں زندگی گذاری۔

          جس وقت نوا ب غوث محمدخاں والی جاورہ کاانتقال ہوا اور نواب محمداسمٰعیل خاں دس سال کی عمر میں والی ریاست مقررہوئے اس وقت نواب غوث محمدخاں کی اہلیہ نواب بیگم جونواب محمدعلی صاحب والی ریاست ٹونک کی بہن تھیں ، ٹونک میں تھیں۔ موصوفہ اپنے بھتیجے صاحبزادہ احمدخاں کوہمراہ لے کرٹونک سے روانہ ہوئیں اور نیماہیڑہ پرگنہ ٹونک جوجاورہ سے کچھ قریب ہے، تشریف لے گئیں جاورہ سے موصوفہ کویہ اطلاع دی گئی کہ اگربارادۂ فساد یہاں آنے کاارادہ ہے توسرکار انگریزی کی طرف سے آپ کوممانعت ہے اور اگر نیک نیتی کے ساتھ تشریف لائیں توان کاگھر ہے۔ نواب بیگم وہیں سے ٹونک واپس ہوگئیں۔ نواب محمدعلی خاں نے اپنی بہن کی طرف سے محکمہ ریزیڈنسی اندور میں نالش پیش کردی اور ’’مہرنامہ‘‘ کی تحریرکے بموجب متبنیٰ نواب بیگم کادعویٰ ’’صدرنشینی‘بموجب ملکہ معظمہ پیش ہوا۔ تحقیقات کے لئے یہ مقدمہ کرنل ہیوز صاحب (پولیٹکل ایجنٹ مغرب مالوہ) کے سپرد ہوا۔ اس مقدمہ کی جوابدہی کے واسطے ریاست جاورہ کی طرف سے یہی مولانا عبدالرب صاحب معہ حکیم محمدعثمان خاں بھیجے گئے۔ ۱؎

          علم وفضل کے ساتھ ساتھ مولاناعبدالرب صاحب نے طبابت کامشغلہ بھی جاری رکھا اور آخرعمرتک یہ مشغلہ جاری رہا۔ جاورہ میں کمانی دروازہ پر آپ کے مکانات تھے۔ مکانات سے متصل مولاناکامدرسہ تھا۔ یہ مدرسہ اب تک ایک مکتب کی شکل میں باقی ہے اور اب تک مولاناکے مدرسہ کے نام سے معروف ہے ۔

          حافظ احمدعلی خاں شوق نے اپنے تذکرہ میں لکھاہے کہ مولوی عبدالرب صاحب مولوی سید عبدالصمدصاحب کے مشہور شاگردتھے۔ نیزمولوی عبدالغنی صاحب کومولانا عبدالرب صاحب کاشاگردلکھاہے۔

تصانیف  :

          مولوی عبدالرب صاحب کی کوئی تصنیف ٹونک یاجاورہ میں کبھی نظر سے نہیں گذری ۔البتہ رامپور کے کتب خانہ میں آپ کامصنفہ ایک رسالہ ’’البیان الکامل فی تنبیہ الجاہل‘‘ موجود ہے جو وہاں کی مطبوعہ قدیم فہرست جلداول کے صفحہ ۲۸۴ پر درج ہے۔

وفات  :

          مولوی عبدالرب صاحب کاانتقال جاورہ میں ہوا۔ اپنے والد مولاناخلیل الرحمٰن کے متصل احاطۂ نواب عبدالغفور خاں میں دفن کیے گئے۔ تاریخ وفات معلوم نہیں ہوسکی۔

اولاد  :

          مولاناعبدالرب صاحب کے دوبیٹے اور دوبیٹیاں تھیں۔ چھوٹے بیٹے مولوی عبدالبرتھے۔ ان کاانتقال جوانی ہی میں رامپور میں ہوگیاتھا۔ بڑے بیٹے مولوی عبدالحی صاحب تھے۔ یہ اپنے والد کے ساتھ رہے او رپورے عالم تھے چنانچہ فتاویٰ مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محلی میں ان ہی مولوی عبدالحی صاحب کاایک فتویٰ شامل ہے جس کی تصحیح مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محلی نے کی ہے۔ مولوی عبدالحی صاحب والدکے انتقال کے بعد بھی جاورہ رہے اور وہیں ۱۹۱۸؁ء میں وبائی بخار میں ان کاانتقال ہوا۔ ان کی اولاد میں صرف مولوی غفران صاحب کوعلم سے لگائوتھا۔ موصوف جاورہ میں نہایت خوشحالی کے ساتھ عزت کی زندگی بسرکیاکرتے تھے۔ ۲۰؍شوال ۱۲۷۹؁ھ کوبروز جمعہ جاورہ میں پیداہوئے اور وہیں ۱۴؍رجب ۱۳۴۴؁ھ مطابق ۹؍فروری ۱۹۲۵؁ء کوانتقال ہوا۔ باقی اولاد کی تفصیلات شجرہ منسلکہ سے ظاہرہے۔

          مولاناعبدالرب صاحب چوں کہ اپنے پسرمولوی عبدالحی صاحب سے سخت ناراض تھے اس لئے آپ نے اپنے پروردہ نومسلم میاں عبداللہ کواپنی جائداد کامالک بنادیاتھا۔ میاں عبداللہ کی اولاد بھی جاورہ میں موجود ہے جوآج تک مولاناکے خاندان کی نہایت عزت کرتی ہے ۔ ان کے پاس مولاناکی کچھ کتابیں بھی تھیں۔ والدصاحب مرحوم کے ساتھ جاورہ جانا ہواتھا تو اس وقت کچھ کتابیں دیکھنے کااتفاق ہواتھا۔

          مولاناکاخاندان اب تک جاورہ میں آباد ہے لیکن علمی مشاغل باقی نہیں رہے۔

مولوی حکیم عبدالعلی

          مولوی حکیم عبدالعلی بن مولاناخلیل الرحمٰن گلشن آباد ی یوسفی رامپور میں پیدا ہوئے۔ وہیں تربیت پائی۔ اپنے والد اور دیگر مقامی علماء سے علوم متداولہ حاصل کئے ۔ زبردست عالم اور حاذق طبیب تھے ۔ مولاناخلیل الرحمٰن ٹونک تشریف لائے تو آپ بھی ٹونک آگئے تھے ۔ ٹونک میں آپ کی طبابت نہایت مقبول تھی۔ اس وقت تک حکیم برکات احمد صاحب خیرآباد سے تعلیم حاصل کرکے واپس ٹونک تشریف نہیں لائے تھے۔

          مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی نزہۃ الخواطر میں آپ کے لئے لکھتے ہیں :

          ’’احدالعلماء المبرزین فی العلوم الحکمیۃ ولدونشأ برامپور و قرأ العلم علی والدہ ولازمہ ملازمۃ طویلۃ۔‘‘

          مولاناخلیل الرحمٰن صاحب کے جاورہ تشریف لے جانے کے بعدحکیم عبدالعلی صاحب ٹونک ہی میں رہے۔ طبی مشغلہ زیادہ تھا۔ آپ کی متعدد بیاضیں ہمارے کتب خانہ میں محفوظ ہیں جن میں طبی اور فقہی مسائل کی بے شمار یادداشتیں ہیں۔

          آپ کاایک مصنفہ رسالہ ‘‘فتح الرحمٰن فی مس مصحف العثمان‘‘عربی بھی محفوظ ہے۔ یہ رسالہ موصوف نے نواب وزیرالدولہ کے فرمانے سے اس وقت تصنیف فرمایاتھا جب کہ نواب صاحب کے دربار میں ایک موقع پر یہ مسئلہ پیش ہواکہ پانی کی موجودگی میں قرآن مجیدکوہاتھ لگانے کے لئے تیمم کرنادرست ہے یا نہیں۔ مولوی سیدمحمدعلی صاحب اس مسئلہ کے سائل تھے۔ درباری علماء میں سے مختلف حضرات نے اس مسئلہ کامختلف جواب دیا۔ لیکن جواب شافی کوئی نہ دے سکا۔ حکیم عبدالعلی صاحب کی تحریک پرنواب وزیرالدولہ نے تمام حضرات کو اس مسئلہ کاتحریری جواب لکھنے کاحکم دیا۔ اس سلسلہ میں حکیم صاحب نے یہ رسالہ تصنیف فرمایا۔ رسالہ ہٰذا کی تصنیف کے وقت موصوف کے والدمولاناخلیل الرحمٰن (المتوفی ۱۲۷۳؁ھ) زندہ تھے۔ اس رسالہ میں آپ نے یہ ثابت فرمایاہے کہ پانی کی موجودگی میں مس مصحف کے لئے تیمم کرنادرست نہیں۔ ۹ ورق پرمشتمل، مختصررسالہ ہے ۔ مصنف کے قلم کالکھاہوااصل نسخہ محفوظ ہے جس میں تاریخ کتابت درج نہیں ۔ والدصاحب مرحوم نے بھی اس رسالہ کی نقل کی تھی جومحفوظ ہے۔

اولہٗ  :  ’’الحمدللہ علی ماانعم وعلّم من البیان مالم یعلم‘‘

          حکیم عبدالعلی صاحب کاانتقال ۱۱؍شعبان ۱۳۰۸؁ھ کوٹونک میں ہوا اور گورستان موتی باغ میں دفن کیے گئے۔ اولاد میں آپ کے دوپسران مولوی احمدعلی او رمولوی عبدالباقی تھے۔ آپ کی دودختران بھی تھیں جوقاضی عبدالغنی اور عبدالرحیم خاں کومنسوب تھیں۔ اولاد کی تفصیل شجرہ سے ظاہرہے۔

         

مولوی عبدالعزیز

          مولوی عبدالعزیز بن مولاناخلیل الرحمٰن یوسفی۔ رامپور میں پیداہوئے۔

           اپنے والد سے یہیں علم پڑھا او ران کے ہمراہ رامپور سے ٹونک تشریف لے آئے اور پھرٹونک ہی میں رہے ۔ یہیں مطب کیاکرتے تھے۔ اپنے آبائی مکان میں قیام تھا۔

          مولاناخلیل الرحمٰن نے آپ ہی کے لئے مائۃ عامل کونظم کیاتھا جس کاذکرمولاناکی تصانیف میں ہے۔

          مولوی عبدالعزیز صاحب کاانتقال ٹونک میں ہوا اوریہیں گورستان موتی باغ میں دفن کیے گئے ، انتقال غالباً ۱۳۲۸؁ھ مطابق ۱۹۰۱؁ء میں ہوا ہے ۔۱؎

          مولوی عبدالعزیز صاحب کانکاح عمدہ بیگم دخترمولوی محمدصاحب مفتی سے ہواتھا۔ ان سے تین پسران مولوی عبدالوحید،محمدزکریا خاں او رمحمدیوسف خاں اور دو دختران تھیں۔

          مولوی عبدالوحید صاحب اندرون نذر باغ کی مسجدمیں امام تھے۔ اور آخرعمر تک آپ نے یہ خدمت انجام دی ۔ باقی اولاد کی تفصیل شجرہ سے ظاہر ہے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے