تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مولوی محمودحسن خاں

          مولوی محمودحسن خاں بن خاں صاحب احمدحسن خاں ذکائی دلیربخت ابن مولانا غلام حسین خان بن مولانااکبرحسین خاں صاحب۔

          مولانا اکبرحسین خاں صاحب اپنے وقت کے بڑے فقیہ اورپرہیزگارعالم تھے۔ یاغستان کے رہنے والے تھے۔ اس کوہستانی علاقہ میں ’’شان‘‘نامی ایک قصبہ میں پٹھانوں کاایک قبیلہ آباد تھا جومتنی قبیلہ کہاجاتاتھا۔ موصوف اس قبیلہ کے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔

          جب نواب نجیب الدولہ نے جس کاانتقال ۱۱۸۴؁ھ مطابق ۱۷۷۰؁ء میں ہوا ہے۔ ’’نجیب آباد‘‘ آباد کیا تو اس نے مولانااکبرحسین خاں کوبھی یاغستان سے بلایا او رنجیب آباد میں آباد کیا۔ درس وتدریس کی خدمت آپ کے سپردکی گئی چنانچہ آپ نے اپنی عمرکاباقی حصہ نجیب آباد میں گذارا۔

          ان کے بیٹے مولاناغلام حسین خاں اپنے والدکے صحیح جانشین تھے۔ والدہی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اپنی سلامت روی، اصابت رائے اور تفقہ میں شہرت کاملہ کے مالک تھے۔ درس وتدریس کاسلسلہ برابرجاری تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ غلام قادرخاں روہیلہ کے بھائی معین الدین خاں عرف بھمبو خاں نجیب آبادپرقابض تھے اور نجیب الدولہ کے بیٹے ضابطہ خاں کاانتقال ۱۷۸۵؁ء میں ہوچکا تھا۔ بھمبو خاں نے چوں کہ مولاناغلام حسین خاں سے تعلیم حاصل کی تھی اس لئے وہ مولاناکی بڑی قدرومنزلت کیاکرتے تھے۔ مولانا کی پوری زندگی بھی نجیب آباد میں گذری۔

          مولانااحمدحسن خاں ذکائی دلیربخت بھی اپنے والدکے صحیح جانشین تھے ۔ صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی طورپرانتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے بلکہ ملکی مہمات میں ایک کامیاب سپہ سالار کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ریاست ٹونک  وجود میں آچکی تھی اور دور دور سے علماء وفضلاء اور اہلِ کمال کھنچ کرٹونک میں آباد ہورہے تھے۔ مولانااحمدحسن خاں بھی نواب میرخاں کے دورمیں نجیب آباد سے ٹونک منتقل ہوئے اور محلہ امیرگنج میں قیام کیا جو اس وقت نیانیاآباد ہورہاتھا مالگذاری کادفتر یہاں مولاناکے سپردکیاگیا۔۱؎

          ٹونک منتقل ہوجانے کے بعد مولانااحمدحسن خاں کی شادی ٹونک میں مولوی محمدخاں صاحب مفتی کی دخترحسینی بیگم سے ہوئی۔ مولوی محمدصاحب اس سے پہلے رامپور سے ٹونک منتقل ہوکر آبادہوچکے تھے اور اسی محلہ امیرگنج میں قیام تھا۔ اس طرح یہ دونوں علمی خانوادے ایک ہی محلہ میں آباد تھے او رعلم وفضل سے سیراب کررہے تھے۔

          مولانامحمودحسن خاں اپنے والدکے دوسرے فرزندتھے اور اپنے بھائیوں میں منجھلاہونے کی وجہ سے خاندان کے عزیز اور پرانے لوگ ’’منجھلے بھیا‘‘ کہاکرتے تھے اور اسی نام سے یہاں آپ معروف تھے۔ ۱۲۷۶؁ھ مطابق ۱۸۵۹؁ء میں موصوف ٹونک میں پیداہوئے۔ یہیں تربیت پائی۔ ابتدائی تعلیم سے لے کردرس نظامیہ کی تکمیل کی حدتک تعلیم ٹونک میں حاصل کی۔ چنانچہ اپنے برادرکلاں مولوی محمدحسن خاں مفتی، مولوی عبدالغفور صاحب بنگالی، مولوی محمدحسن خاں جلال آبادی ،شمس العلماء مولوی امام الدین خاں ناظم شریعت اور دوسرے علماء ٹونک سے علوم کی تکمیل کی۔ فراغت کے بعد ابتداء ً کچھ دنوں صیغہ مالگذاری میں کام کیا۔ مگرحصول علم کی تمنا نے گھرچھوڑنے پرمجبور کردیا۔ یہاں سے آپ بھوپال گئے ۔ وہاں الشیخ محمد الیمانی کی مسند درس بچھی ہوئی تھی جنہیں نواب صدیق حسن خاں نے یمن سے بلاکربھوپال رکھاتھا۔ موصوف کے علم واتقاء کاشہرہ دور دور پہنچ رہاتھا۔ علم وفضل او ر اتباع سنت میں اپنی مثال آپ تھے۔ امام شوکانی صاحب نیل الاوطار سے بیک واسطہ روایت کرتے تھے۔ بہرحال مولانامحمودحسن خاں انہی شیخ یمانی کی خدمت میں حاضرہوگئے او رایک مدت تک صبح وشام خدمت میں حاضر رہ کر علم حدیث کی تکمیل کی۔ بھوپال میں طویل مدت قیام کے بعددہلی لکھنؤ اور رامپور اسی سلسلہ میں تشریف لے گئے اور تھوڑی تھوڑی مدت قیام کرنے کے بعدواپس ٹونک تشریف لے آئے اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا مولاناعبدالقدوس ہاشمی کے تحریرفرمانے کے مطابق بڑی مدت تک عدالت عہدہ دار کی خدمت بھی انجام دی اور کئی بار دربار ٹونک اور دوسرے والیان ریاست کے باہمی تعلقات میں وکیل ریاست اور سرکاری نمائندہ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔۱؎

          ۱۳۰۱؁ھ مطابق ۱۸۸۴؁ء میں مولانانے پہلاسفرحج کیا اور ایک مدت تک حرمین میں قیام پذیررہے۔ وہیں حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی المتوفی ۱۳۱۷؁ھ مطابق ۱۸۹۹؁ء سے ملاقات ہوئی اور مخلصانہ تعلقات قائم ہوگئے۔ قیام حرمین کے زمانہ میں دیگر علماء حرم سے علمی مذاکروں کاسلسلہ جاری رہا۔

          مولاناکوعلوم ریاضیہ میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ معقولات میں بے مثال مہارت کے مالک تھے اسی طرح علوم شرعیہ، حدیث، فقہ ،اصول حدیث او ر اصول فقہ وغیرہ میں بھی کلی عبور حاصل تھا۔ علم فقہ وجزئیات مسائل میں امام فن تھے۔ اللہ نے ایسا حافظہ عطافرمایاتھا کہ جزئیات تک پوری طرح ازبرتھے۔ تاریخ اسماء الرجال اور مصنفین وروات کے احوال پر اس قدر عبور تھا کہ محسود زمانہ تھے۔ آپ نے اس سلسلہ میں عرب وعجم کاسفر کیا۔ شام ومصر کے کتب خانے چھانے۔ ہندوستان کے مشہور کتب خانوں کودیکھا۔ ٹونک کاپورا ذخیرہ آپ کاچھاناہواتھا۔ صاحبزادہ عبدالرحیم خاں کامشہور تاریخی کتب خانہ (سعیدیہ ڈسٹرکٹ لائبریری) پوری طرح آپ کی نگرانی میں تھا۔ معجم المصنفین کی ترتیب کی ابتداء اسی کتب خانہ سے ہوئی۔آج بھی اس لائبریری کی کوئی ایسی کتاب نہیں جس میں کسی مؤلف مصنف یاتصنیف کاذکرہو اور اس کے حاشیہ پرمولاناکے قلم سے نوٹ دیاہوانہ ہو۔

          مولانانے کبھی مدرس کی حیثیت سے کہیں ملازمت نہیں کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعدسے درس وتدریس کاسلسلہ شروع کردیا۔ لیکن آپ کی عمرکااکثرحصہ تصنیف وتالیف میں گذرا۔ معجم المصنفین کی ترتیب شروع کردی۔ صاحبزادہ عبدالرحیم خاں مولاناکی انتہائی تعظیم وتکریم فرمایاکرتے تھے اور ان کے مصارف کے خود کفیل تھے۔

          معجم المصنفین کی تکمیل جب ٹونک میں نہ ہوسکی تو آپ حیدرآباد تشریف لے گئے اور وہاں کئی سال کی مسلسل کوشش او رمحنت کے بعد ۱۹۴۳؁ء میں کتاب مکمل ہوئی۔ حکومت حیدرآباد کی جانب سے آپ کاتاحیات وظیفہ مقررہوگیا اورآپ واپس ٹونک تشریف لے آئے۔ چوں کہ کافی ضعیف ونحیف ہوچکے تھے اس لئے آپ نے عمر کاباقی حصہ گوشہ نشینی میں گذارا۔

          حیدرآباد سے واپس ٹونک تشریف لانے کے بعدمجھے بھی موصوف کی خدمت کرنے کافخرحاصل ہواہے۔ وہ زمانہ اگرچہ میرا ابتدائی زمانہ تھا لیکن موصوف چوں کہ دادا صاحب کے پھوپھی زادبھائی اور برابر کے تھے اس لئے بڑی محبت فرمایاکرتے تھے جب بھی ضرورت ہوتی بلاتکلف طلب فرمالیتے تھے۔ اس طرح مجھے خدمت میں رہنے اور مستفیض ہونے کاموقع مل جایاکرتاتھا۔

          واپسی پر اگرچہ کافی نحیف اور ضعیف العمر ہوچکے تھے مگر قویٰ ماشاء اللہ خوب کام کرتے۔ اپنے نانا مولوی محمدصاحب کی مسجد میں جورہائشی مکان سے قریب ہی واقع ہے۔ نماز کے لئے پنچ وقتہ پابندی سے تشریف لاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے تھے ۔ رمضان میں اسی مسجد میں معتکف ہوتے۔ کسی موسم میں بھی آپ سے جماعت نہیں چھوٹتی تھی۔ متعدد بار دیکھاگیا ہے کہ بارش خوب ہورہی ہے اور آپ لالٹین لیے نمازکے لئے تشریف لارہے ہیں۔

          اتقاء پرہیزگار ی اور اتباع سنت میں آپ اپنے بھائی مولاناحیدرحسن خاں شیخ الحدیث کی طرح صحابہ کے نمونہ تھے اور زندگی کے ہرپہلومیں اس کالحاظ فرماتے۔ نماز میں خشوع وخضوع اور تعدیل ارکان کایہ حال تھا کہ کافی وقت ایک نماز میں صرف ہوجاتا ۔ رکوع وسجود میں بھی سنت کے مطابق قرأت کے انداز سے توقف فرمایاکرتے تھے ۔ نہایت سادہ مزاج، خوش خلق بذلہ سنج اور بامذاق انسان تھے ۔ظرافت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ۔ ہربات ظریفانہ انداز میں فرمایاکرتے۔ ٹونک میں بے شمار واقعات آپ کی ظرافت کے زباں زد خاص وعام ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے