اپنے زمانہ میں علماء کامرجع تھے۔ جب کسی مسئلہ میں اشتباہ پیداہوتا توآپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتاتھا اورآپ اطمینان بخش جواب دیتے۔ اتقاء کمال درجہ کاہونے کے باوجود ظرافت کایہ حال تھا کہ آپ کی مجلس میں کبھی کوئی بددل نہیں ہوتاتھا۔ ہرجملہ ظریفانہ، ہربات معنیٰ خیز اور ہرگفتگو حق وصداقت پرمشتمل ہواکرتی تھی۔ پھربڑی خصوصیت یہ تھی کہ عمر میں کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔
چوں کہ کافی عمرکااکثرحصہ تصنیف وتالیف میں گذرا ہے اس لئے حیدرآباد سے واپسی کے بعدبھی ضعیف ہوجانے کے بعدیہ عالم تھا کہ ضروریات سے فارغ وقت تصنیف میں گذارتے اور اکثرلکھتے رہتے تھے۔ قیام حیدرآباد کے زمانہ میں جس رئیس ۱؎ کے بنگلہ پر قیام پذیرتھے اور جس کی اعانت سے مولاناکاتعلق پیداہواتھا وہ عقیدۃً قادیانی تھے ۔ مولانانے دورانِ قیام میں جب یہ حالت دیکھی تو قادیانیوں کے خلاف رسائل لکھناشروع کردیئے۔ تصدیق السنۃ اومعیارالسنۃ وغیرہ اسی دور کی تالیفات ہیں۔ رئیس موصوف قدرشناس اور علم نواز تھے اس لئے کبھی آپ سے کبیدہ خاطر نہیں ہوئے اور اسی طرح آپ کے ساتھ حسن عقیدت سے پیش آتے رہے۔ ٹونک واپس تشریف لے آنے کے بعدبھی تردیدات لکھنے کایہ سلسلہ جاری رہا۔ جب کبھی مولانا کی خدمت میں حاضرہونے کاموقع ملا ہے تو آپ کودیکھاہے کہ مرزا غلام احمدخاں کی کتابیں ’’ازالۃ الاوہام‘‘ وغیرہ سامنے رکھی ہیں اور تردید لکھنے کاسلسلہ جاری ہے ۔آج بھی ازالۃ الاوہام وغیرہ کے وہ نسخے میرے پاس محفوظ ہیںجومولاناکے پیش نظررہتے تھے۔ مولاناکے قلمی حواشی، نوٹس اور یادداشتوں سے لِسے ہوئے ہیں۔ افسوس مولاناکے وہ مسودات میرے علم کی حد تک محفوظ نہیں رہ سکے اور ان کی ترتیب کا بھی موقع نہیں آیا۔
وفات :
مولاناچوں کہ اپنی عمرکے چوراسی سال گذارچکے تھے اس لئے مضمحل ہوگئے تھے۔ ہر کبھی کمزوری کی وجہ سے طبیعت ناساز ہوجاتی۔ اسی وقت مولانایادفرمالیتے میں بھی حاضر ہوجاتاتھا۔ ایک روز اسی طرح کاقلبی دورہ پڑا اور معمولی علالت کے بعد ۱۷؍شوال ۱۳۶۶ھ مطابق ۴؍ستمبر ۱۹۴۷ء روز پنجشنبہ کومولاناہمیشہ کے لئے جداہوگئے۔ گورستان موتی باغ میں مولاناخلیل الرحمٰن کے مدرسہ میں جانب جنوب دفن کیاگیا۔
اولاد :
مولاناکانکاح زہرہ بیگم دخترعبدالجبار خاں ساکن بہیرسے ہواتھا۔ اہلیہ کاانتقال مولاناسے ۶ ماہ قبل ہوگیاتھا۔ دودختر اور دوپسران یادگار رہے۔ ایک دختر کا نکاح اپنے بھانجے مولوی وحیدحسن خاں بن عنایت حسین خاں سے کردیاتھا اور مولاناکی حیات ہی میں دختر کاانتقال بھی ہوگیاتھا۔
بڑے بیٹے مولوی احمدحسین خاں نظام کالج حیدرآباد میں عربی کے پروفیسر تھے۔ اب پینشن حاصل کرکے حیدرآباد ہی میں مقیم ہیں۔ دوسرے بیٹے حکیم مظفرحسین خان ہیں۔ آپ بھی حیدرآباددکن میں تھے۔ پھرمنتقل ہوکرجے پور میں دواخانہ کھول لیا۔ پھر مولانا کی وجہ سے ٹونک تشریف لے آئے۔ تقسیم ہند کے بعدآپ پاکستان منتقل ہوگئے اور سلیمی دواخانہ حیدرآباد میں طبابت کاکام انجام دے رہے ہیں۔
قیام حیدرآباد کے زمانہ میں جب مولانا کوفارغ البالی نصیب ہوئی تو اپنے آبائی مکانات میں ایک پختہ مکان علیحدہ تعمیرکرالیاتھا جومحلہ امیرگنج میں گھیرکپتان نور الدین کے متصل واقع ہے ۔ انقلاب زمانہ کی وجہ سے اب یہ مکان کسٹوڈین۱؎ کے قبضہ میں ہے۔
مولانااپنی عمر میں تین بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ پہلی بارآپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں حج کیا۔ اس کے بعد۱۳۲۹ھ مطابق ۱۹۱۱ء میں آپ صاحبزادہ عبدالرحیم خاں کے ساتھ حج کوتشریف لے گئے ۔ رسالۃ الصید اسی سفر میں آپ نے بیروت میں طبع کرانے کے لئے دیا۔ اس کے چندسال بعدہی آپ نے غالباً ۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۴ء یا ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء میں معجم المصنفین طبع کرانے کی غرض سے سفر کیا اور اسی سلسلہ میں حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوکر واپس تشریف لائے۔
تصانیف :
معجم المصنیفن : مولاناکی عمرکاپوراکارنامہ دراصل یہی کتاب ہے جودوسری ہزار کتابوں سے بہتر ہے ۔ مصنفین ومؤلفین کاسب سے بڑا تذکرہ عربی زبان میں یہی کتاب ہے ۔ ۱۳۵۰ھمطابق ۱۹۳۱ء تک جس قدر مصنفین عالم اسلام میں گذرے ہیں جس نے عربی زبان میں کوئی کتاب بھی تصنیف کی ہے اس کاذکر اس کتاب میں موجود ہے کتاب کی جامعیت کااندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ اس میں صرف ’’احمد‘‘ نام کے مصنفین تقریباً تین ہزار ہیں ۔’’محمد’’نام والے مصنفین تقریباً اس سے دو گنے ہیں۔ اس کتاب کی اب تک صرف چارجلدیں بیروت میں طبع ہوئی ہیں اورمولاناعبدالقدوس ہاشمی کے تحریرفرمانے کے مطابق باقی ۲۸جلدوں کے مکمل مسودات سررشتہ تالیف وترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں محفوظ ہیں۔ مولاناعبدالقدوس صاحب حیدرآباد میں معاون کی حیثیت سے مولاناکے ساتھ رہے ہیں۔ موصوف نے مولاناپرایک مفصل مضمون بھی لکھا ہے جو ’’فاران‘‘کراچی بابت اپریل ۱۹۶۴ء میں شائع ہواہے۔ اس مضمون میں موصوف نے معجم المصنفین اس کی تالیف وترتیب اور اس کی جامعیت پرمفصل تبصرہ کیاہے۔ اسی وجہ سے اس کویہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مگریہ ایک حقیقت ہے کہ قیام ٹونک کے ابتدائی زمانہ میں مولاناکو اس جامع کتاب کے ترتیب دینے کاخیال پیداہوا۔ یہی صاحبزادہ عبدالرحیم خاں کاکتب خانہ اس ترتیب کی ابتدائی منزل بنا۔مسودات کااکثرحصہ ترتیب دیئے جانے اور عرب وعجم کاسفر کرنے کے بعدجب ٹونک میںاس کی اشاعت اور بقیہ ترتیب کے وسائل باقی نہ رہے توآپ حیدرآباد منتقل ہوگئے او رمسلسل جدوجہد اورلگاتار کوششوں کے بعد اس کتاب کی تکمیل ہوسکی۔
رسالۃ الصید : عربی۔ یہ رسالہ آپ نے امام شوکانی اور علامہ ابن تیمیہ کی تردید میں اس مسئلہ پرتصنیف فرمایا ہے کہ بندوق سے ماراہوا جانور بغیرذبح کے حرام ہے یاحلال۔ موصوفین کاخیال ۱؎ یہ ہے کہ اس طرح شکارکیاہوا جانور حلال ہے ۔ مولانامرحوم نے اس رسالہ میں دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ایسے جانور کی حرمت ثابت کی ہے ۔ اس رسالہ کے مطالعہ سے علم فقہ وحدیث میں مولاناکے مرتبہ کااندازہ ہوتاہے۔ ۱۱۴ صفحات پرمشتمل ایک جامع رسالہ ہے جوسات فصلوں پرترتیب دیاگیاہے۔ ۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۴ء مطابق ۱۹۱۳ئمیں یہ رسالہ بیروت میں طبع ہوا۔
اصول توارث : اردو۔ اپنے موضوع پرعجیب علمی تصنیف ہے۔ اس رسالہ میں عقائد واعمال کے اس توارث سے بحث کی گئی ہے جو قوموں میں نسلاً بعدنسلٍ باقی رہتا ہے۔ جس کے لئے نہ کسی روایت کی ضرورت ہے اورنہ ہدایت کی۔ ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۶ء میں یہ رسالہ حیدرآباد سے طبع ہوا۔ صفحات ۱۱۶ ہیں ۔غالباً ایک بار اور طبع ہوا ہے اورمولاناعبدالقدوس نے اس کاپیش لفظ بھی لکھاتھا۔ یہ رسالہ چار بابوں پرمرتب ہے۔
معیارالسنۃ: اردو۔ یہ رسالہ ۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ئمیں مکتبہ ابراہیمیہ حیدرآباد دکن کی جانب سے طبع ہوا۔ ۹۵ صفحات پرمشتمل ہے۔ مولاناعبدالقدوس نے اس رسالہ کابھی ایک مختصر پیش لفظ لکھاہے رسالہ ہٰذا میں ختم نبوت پرعلمی بحث کی گئی ہے اور اسے اصول متوارثہ میں ثابت کیاگیاہے۔
تصدیق السنۃ : اردو۔ ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۴۱ئمیں یہ رسالہ حیدرآباد میں طبع ہوا۔ ۴۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رسالہ میں اصولی طورپر ان تمام دعاوی کی تردیدکی گئی ہے جو نبی موعود ہونے کے سلسلہ میں سابق صدیوں میں کئے جاتے رہے ہیں۔ چوں کہ یہ رسالہ قادیانی مدعی کی تردید میں لکھاگیاہے جس نے دولت برطانیہ کواپنی تلوار قراردیاتھا اس لئے رسالہ میں اسے ’’برطانوی مسیح‘‘ کے لقب سے یادکیاگیاہے ۔