تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

رامپور سے ٹونک :

  ۱۲۳۴؁ھ  مطابق  ۱۸۱۷؁ء  میں ریاست ٹونک وجود میں آئی اور نواب امیر خاں نے شب وروز کے جنگ وجدل کو ترک کرکے انگریزوں سے صلح کرلی اور ایک رئیس کی حیثیت سے اس علاقہ میں قیام اختیار کیا۔ جوں ہی یہ ریاست ایک اسٹیٹ کی حیثیت سے قائم ہوئی نواب میرخاں کے علمی ذوق کے نتیجہ میں تیزی سے علمی خاندان ٹونک منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ نواب کی شادی اخوندمحمدایاز خاں کی دخترسے ہوئی تھی ۔ اس لئے وہ اپنے پورے اعزہ کے ساتھ نواب کے ساتھ تھے۔ اخوندمحمدایاز خاں اورخاندان عرفانیہ کے مورث اعلیٰ مولانامحمدعرفان خان سوات سے ہندوستان آنے میں رفیق سفر تھے اور دونوں کی غرض تحصیل علم تھی۔ یہ تعلق ایسا تعلق نہیں تھا جوکبھی منقطع ہوجاتا۔ قیام ریاست کے وقت اگرچہ ملاعرفان رامپوری کاانتقال ہوچکاتھا لیکن ان کی اولاد علمی دنیا میں نام پیدا کرچکی تھی۔ اس لئے اخوندمحمدایاز خاں کے اس تعلق کی بناپر اس خاندان کے افراد بھی قیام ریاست کے بعدابتدائی دور میں رامپور سے ٹونک منتقل ہوگئے۔ مختار الدولہ ۱؎  محمود خاں بھی اس کے محرک ہوئے۔ چنانچہ سب سے پہلے مولاناخلیل الرحمٰن اس طرف سے گذرتے ہوئے یہاں مقیم ہوئے اور نواب کے بیٹوں کی تعلیم موصوف کے سپردہوئی۔ اس کے بعد جلد ہی مولوی محمدصاحب مفتی اور مولوی سعداللہ صاحب کوبھی رامپور سے ٹونک منتقل ہونا پڑا۔ مولوی محمدصاحب مفتی کے عدالت شریعت سپرد ہوئی اور مولوی سعداللہ صاحب کو جامع مسجد امیرگنج کااولین خطیب مقررکیاگیا جو اسی وقت تعمیرہوئی تھی۔

ان حضرات کی منتقلی اگرچہ قیام ریاست کے بعدابتدائی دور میں ہوگئی تھی لیکن اس منتقلی کی صحیح تاریخیں معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق  ۱۲۴۰؁ھ مطابق ۱۸۲۴؁ء سے پہلے یہ حضرات ٹونک منتقل ہوچکے تھے۔ مولاناخلیل الرحمٰن صاحب کے کچھ عربی خطوط ۱۲۴۰؁ھ مطابق ۱۸۲۴؁ء کے بعد کے محفوظ ہیں۔ ان کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت یہ حضرات یہاں آباد ہوکر رچ بس گئے تھے ۔ مولوی سعداللہ کو خدمت خطابت کے سلسلہ میں جاگیریں تک مل چکی تھیں اور وہ اس سلسلہ میں نواب امیرخاں کے ساتھ سرونج وغیرہ کا دورہ کررہے تھے۔

          قیام ریاست کے بعدجدیدآبادی میں سب سے پہلے محلہ امیرگنج کی آبادی شروع ہوئی۔ قلعہ کے محلات کے ساتھ نذرباغ آباد ہوا۔ جامع مسجد تعمیرہوئی اور اس کے حوالی میں مکانات وحویلیوں کی تعمیر شروع ہوگئی۔ چنانچہ اس دور میں جوحضرات ٹونک منتقل ہوکر آبادہورہے تھے ان کاقیام بھی اسی محلہ اور انہی جدیدمکانات میں ہوا جو اس وقت تیزی سے تعمیرہورہے تھے ۔ ملاعرفان رامپوری کی اولاد میں مذکورہ ہرسہ حضرات رامپور سے ٹونک منتقل ہوئے تو ان کاقیام بھی اسی محلے میں ہوا۔ نذرباغ سے لے کرجامع مسجد تک جس قدر مکانات تھے ان میں سے اکثر ان حضرات کے آباد کردہ ہیں۔ چنانچہ مولانا خلیل الرحمٰن کاقیام نذر باغ سے جانب شرق ان مکانات میں ہوا جو لب سڑک واقع ہیں اور بعد میں ان کی اولاد کے قبضے میں رہے۔ مولانا سعداللہ خطیب کاقیام مذکورہ مکانات سے  جانب جنوب شاگردپیشہ کی اندرونی آبادی میں ہوا چنانچہ ان کاپختہ مکان اب تک نل کے متصل آباد ہے اور ان کی اولاد کے قبضے میں ہے۔ مولوی محمدصاحب مفتی کاقیام بھی ابتدائً اسی محلہ اور انہی مکانات میں ہواتھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد آپ امیرگنج کی دوسری آبادی میں منتقل ہوگئے جہاں رئیس وقت نے آپ کے لئے دوسرا مکان تعمیر کرادیاتھا۔ یہاں آپ نے ایک مسجد تعمیرکرائی او راس کے متصل ایک چاہ کندہ کرایا۔ یہ مسجد ہماری آبائی مسجد ہے اور بحمداللہ آباد ہے اور اب والدصاحب مرحوم کی طرف منسوب اور اسی نام سے معروف ہے۔ قریب ہی میں خاندانی اعزہ کے دوسرے مکانات ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے