تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مولوی حیدرحسن خاں

          مولاناحیدرحسن خاں ٹونکی ۱؎  شیخ الحدیث ومہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ سرزمین ہند کے مانے ہوئے علماء اور محبوب ترین اساتذہ میں سے تھے۔ درس حدیث اور کردار وعمل کے لحاظ سے طبقۂ علماء میں آپ کوجواعلیٰ مقام حاصل ہے وہ آپ کے تبحر علمی اور عالم باعمل ہونے کی بیّن اور واضح دلیل ہے ۔

          موصوف کے علم وعمل کے تذکرے اگرچہ مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ خودمولاناکے شاگرد رئیس احمدجعفری ندوی نے مولاناکی وفات پراپنے ایک مضمون۲؎ کے ذریعہ مولانامحترم کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کواجاگرکرنے کی کوشش کی ہے اور آپ کے کردار وعمل کی مختلف جھلکیاں واقعات کی شکل میں نمایاں کی ہیں لیکن موصوف کے خاندانی حالات او رآپ کی تصنیفات تفصیلی طورسے اب تک منظرعام پر نہیں آسکیں۔آج قارئین کرام کے لئے ایسی ہی چیزیں پیش کرنے کافخرحاصل کررہاہوں۔

          سلسلۂ نسب۳؎  :  آپ کاسلسلہ ٔ  نسب اس طرح ہے :

          مولوی حیدرحسن خان ابن مولوی احمدحسن خان ذکائی دلیربخت ابن مولانا غلام حسین خان ابن اکبرحسین خاں یاغستانی۔

          مولانااکبرحسین خان بزمانۂ نواب نجیب الدولہ یاغستان سے نجیب آباد ضلع بجنور میں منتقل ہوکرآباد ہوئے اور درس وتدریس کاسلسلہ جاری کردیا۔ ان کے پسر مولوی غلام حسین خاں اپنے والدکے صحیح جانشین اور آبائی مسند درس کوباقی رکھے ہوئے تھے۔ ان کے بیٹے مولوی احمدحسن خاں نہایت بہادر جری اور باصلاحیت افراد میں سے تھے اور غیرمعمولی انتظامی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔

          ریاست ٹونک کے قیام کے بعد مولوی احمدحسن خاں دلیربخت نجیب آباد سے ٹونک منتقل ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جب کہ نواب میرخاں نے ایک رئیس کی حیثیت سے اپنی بقیہ زندگی ٹونک میں گذارنے کافیصلہ کرلیاتھا او رنواب کی علمی قدردانی اور اہلِ علم کی بے پناہ ہمت افزائی کاشہرہ سن کرعلماء کی کثیرتعداد جوق در جوق اس نومولود ریاست کی طرف منتقل ہورہی تھی اور یہ چھوٹا سا قصبہ آہستہ آہستہ علماء فضلاء اور صاحبان علم وفن کی نئی بستی بنا جاتا تھا۔ مولوی احمدحسن خاں بھی اسی طرح نجیب آباد سے منتقل ہوکر ٹونک آبادہوئے او رمحلہ امیرگنج میں قیام کیا۔ موصوف نے اپنے علم وتجربہ اور انتظامی صلاحیتوں کے پیش نظرریاست میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کیااور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔

          مولانااحمدحسن خاں اگرچہ درس وتدریس سے زیادہ متعلق نہیں رہے بلکہ آپ کی عمر کااکثرحصہ انتظامی امور میں گذرا۔ لیکن چوں کہ صاحب علم تھے اور علم کی اہمیت سے واقف تھے اس لئے اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف پوری توجہ مبذول فرمائی او راولاد کو ہمیشہ ریاست اور اس کے متعلق امور سے دور رکھا اور ایسے مشاغل سے متعلق ہونے کاموقع نہیںدیا جس کی وجہ سے کسی وقت بھی اولاد علم سے محروم ہوجائے یا اس کی توجہات علم وفضل کے علاوہ کسی اور طرف مبذول ہوسکیں۔

          ایک بار رئیس کی جانب سے مولانا احمدحسن خاں کوان کی خدمات کے صلہ میں جاگیر عطاہوئی اور اس کی سندباضابطہ مولاناکے نام جاری ہوئی۔ مولانانے سندکوچاک  کردیا او رجاگیرقبول نہیں فرمائی اور فرمایاکہ اس جاگیرداری میں پھنس کر اولا د کاشت کار بن کر رہ جاتی ہے اس لئے میرا اس سے دور رہناہی اچھاہے اللہ نے اس نیک نیتی کاجوصلہ مولاناکوعطافرمایا، دنیامیں کسی بڑے سے بڑے خوش نصیب انسان ہی کو عطا ہوسکتا ہے۔ خوشانصیب وزہے قسمت۔ اللہ نے ا س  نیک نیت اورپرخلوص انسان کوچھ بیٹے عطا فرمائے اور سب کے سب چاند تارے بن کر افق علم پر چمکے اور اپنے کردار وعمل کے لحاظ سے وہ مثال قائم کرگئے جس کی نظیرمشکل ہی سے کہیں نظرآتی ہے۔

          ان ہی میں سے ایک مہرعالمتاب مولاناحیدرحسن خاں صاحب مرحوم کی شخصیت تھی جس کا نمواسی سرزمین ٹونک کی خشک وبنجرزمین سے ہوا۔ تھوڑی سی مدت میں یہ نونہال اپنی شاخیں پھیلاتاہوا ایک تنومنددرخت بن گیا اور قلیل مدت میں بارآور ہوکر دور دور تک تلامذہ کاجال بچھا گیا۔ آج علمی دنیامیں آپ کے تلامذہ، مولاناکی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئے فخرمحسوس کرتے ہیں۔ ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء ۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

          مولوی احمدحسن کانکاح ہمارے جدامجدمولوی محمدصاحب مفتی کی دختر سے ہوا تھا جوریاست ٹونک قائم ہونے کے بعدنواب میرخاں کی خواہش پررامپور سے ٹونک طلب کیے گئے تھے اور عدالت شریعت کانظم ان کے سپردکیاگیاتھا۔ جس خاندان میں آپ کارشتہ ہوا وہ پہلے سے ریاست کامقبول ترین خاندان تھا۔ اس طرح مولاناکی تمام اولاد کو مادر وپدر دونوں کی جانب سے ایسا ماحول ملا جو علم وفضل میں مزید پختگی پیداکرنے کے لئے ممد ومعاون ثابت ہوا۔

ولادت  :

          مولاناحیدرحسن خاں اپنے برادرکلاں مولانامحمودحسن خاں سے تین چار سال چھوٹے تھے اور ان کی پیدائش مولاناعبدالقدوس ہاشمی کے تحریرفرمانے کے مطابق ۱۲۷۶؁ھ م ۱۸۵۸؁ء ہے۔ اس اعتبار سے مولاناحیدرحسن خان ۱۲۸۰؁ھ م ۱۸۶۲؁ء میں ٹونک میں پیدا ہوئے ،یہیں تربیت پائی۔ اپنے برادرکلاں مولوی محمدحسن خاں مفتی او رمولوی محمودحسن خاں، نیزدیگر علماء عصر، مولوی محمدحسن خاں اورمولوی عبدالکریم صاحب عسکری وغیرہ سے علوم متداولہ حاصل فرماتے رہے۔ پھرمدرسہ نعمانیہ میں مولوی غلام احمدصاحب نعمانی سے لاہورجاکر علوم معقولہ حاصل کئے۔ شیخ حسین بن محسن الانصاری الیمانی سے حدیث پڑھی۔ مولانا سیدنذیرحسین صاحب دہلوی سے بھی تلمذ حاصل ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے