تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

درسی خدمات  :

          تحصیل علوم سے فارغ ہوکر آپ ٹونک تشریف لے آئے اور اپنے نانامولوی محمد صاحب کی مسجد میں درس دیناشروع کردیا۔ یہ دور چوں کہ مدارس کادور نہیں تھا اس لئے تمام ہی علماء اپنی اپنی قیام گاہوں پر درس دیاکرتے تھے۔مولاناکاآبائی مکان بھی اس مسجدکے قریب تھا۔ اس لئے اس مسجدکومولاناکی ابتدائی درسگاہ ہونے کافخرحاصل ہوا۔ مسجد سے متصل ناناکاایک قدیم مدرسہ تھاجو ناناکے انتقال کے بعدسے غیرآباد تھا اس طرح مولانا نے اس قدیم درسگاہ کوپھرسے آباد کیا اورعرصہ تک وہاں درس وتدریس کاسلسلہ جاری رہا۔

          غالباً ۱۳۱۷؁ھ مطابق ۱۸۹۹؁ء میں ٹونک میں مدارس ۱؎ کاقیام عمل میں آیا اورمولاناسیف الرحمٰن صاحب کے ساتھ مولاناکی درسی خدمات بھی مدرسہ ناصریہ ٹونک واقع مسجد قافلہ میں حاصل کرلی گئیں۔ صاحبزادہ عبدالرحیم خاں اس مدرسہ کے سرپرست تھے اورمولاناکے خاندان پر بڑی شفقت فرمایاکرتے تھے ۔ موصوف کی حیات میں تقریباً بیس سال تک مولانا اسی مدرسہ میں درس دیتے رہے۔ مولاناکے علم وفضل، تقویٰ وطہارت اور درس وتدریس کاشہرہ دور دور تک ہوچکاتھا۔ اس لئے اس مدت میں متعدد بارندوۃ العلماء لکھنؤ کی طرف سے آپ کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وطن کی محبت اور آپ کی قانع وسادہ زندگی نے ٹونک سے باہرجانے کے لئے آمادہ نہیں کیا۔

          مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی بھی نزہۃ الخواطر میں تحریرفرماتے ہیں :

          ’’طلبتہ غیرمرۃ الی لکھنؤ للتدریس فی دارالعلوم فلم یرض بہ وقنع علی ماتحصل لہ فی بلدتہ۔‘‘

          نیزمولاناپرتبصرہ کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :

          لہ مشارکۃ جیدۃ فی الفقہ والاصول والکلام والحدیث یدرس ویفید مع عفاف وعزۃ نفس واشتغال محاسبۃ النفس وتفویض الامور وتوکل علی اللہ سبحانہ وقناعۃ بالیسیر۔‘‘

          ۱۳۳۹؁ھ  ۲؎  میں جب صاحبزادہ عبدالرحیم خاں صاحب کاانتقال ہوگیا تو ان کے انتقال کے بعد مولانالکھنؤ تشریف لے گئے اور ندوۃ العلماء میں شیخ الحدیث بنادیے گئے ۔ نیزدارالعلوم کے مہتمم بھی رہے اس طرح تقریباً بیس سال تک آپ دارالعلوم میں درسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس درمیان میں ٹونک برابر آمدورفت رہی۔

          ندوۃ العلماء سے تعلق قائم ہوجانے کے بعدلکھنؤ میں آپ نے مدرسہ فرقانیہ کا رنگ دیکھا۔ ٹونک میں تجویدقرآن کی تعلیم کاعام رواج نہ ہونے کااحساس مولاناکو پہلے سے تھا۔ اس لئے آپ نے اس کمی کو جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کی اور ۱۹۲۵؁ء مطابق ۱۳۴۴؁ھ میں مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ کے نام پر ٹونک میں مدرسہ فرقانیہ کی بنیاد رکھی جو اب تک بحمداللہ آباد ہے۔ اس مدرسہ کی سرپرستی تاحیات مولانا نے خود فرمائی۔مولانا کی وفات کے بعد والدصاحب مرحوم (مولوی قاضی محمدعرفان خاں صاحب) خلوص ومحبت کے ساتھ اس مدرسہ کی خدمت اور سرپرستی فرماتے رہے اور اب ان کے انتقال کے بعد مجھے بھی اس مدرسہ کی کچھ خدمات کرنے کافخرحاصل ہے ۔

          ۵۸۔ ۱۳۵۷؁ھ مطابق ۴۰۔۱۹۳۹؁ء میں مولانالکھنؤ سے مستقلاً ٹونک منتقل ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ نواب سعادت علی خاں والی ریاست تھے اور مدرسہ امیریہ ٹونک کی توسیع وترقی کے سلسلہ میں اقدام فرماناچاہتے تھے۔ چنانچہ جامع مسجد ٹونک کے جدیدغربی حصہ میں اس مدرسہ کومنتقل کیاگیا او رباصرار مولاناکو اس مدرسہ کامدرس اول اور والدصاحب مرحوم کومدرس دوم مقررکیاگیا۔ افتتاح کے موقع پرخود نواب صاحب تشریف لائے او رمولاناسے بخاری شریف کادرس لے کرمدرسہ کاافتتاح کیا۔

          لکھنؤ سے ٹونک منتقل ہوجانے کے بعد مولاناکافی مضمحل ہوگئے تھے اس لئے دو تین سال سے زائد زندہ نہ رہ سکے۔ یہاں حدت وگرمی کی شکایت زیادہ ہوگئی تھی ۔ علاج میں بے تدبیری ہوئی۔ نارنگیاں اور دوسری بارد چیزیں کثرت سے دی گئیں جس کے نتیجہ میں مولاناپرفالج کااثرہوگیا او رچند روز اس مرض میں مبتلا رہ کر ۱۵؍جمادی الاولیٰ ۱۳۶۱؁ھ مطابق ۳۱؍مئی۱۹۴۲؁ء روز یک شنبہ کوٹونک میں مولانا کاانتقال ہوگیا ۔گورستان موتی باغ میں اپنے نانا مولوی محمدصاحب کے احاطہ میں اپنے والدکی قبرکے قریب دفن کیے گئے۔

اولاد  :

          مولانامرحوم کاپہلانکاح ماموں زاد بہن کافیہ خاتون دخترحافظ فضل الرحمٰن پسر مولوی محمدصاحب مفتی سے ہواتھا۔ ان سے تین بیٹے ہوئے۔

(۱)    مولوی سعیدحسن خان۔  ٹونک میں پیداہوئے۔ اپنے والدکی نگرانی میں تربیت پائی ۔ندوۃ العلماء لکھنؤ اور آگرہ میں تعلیم حاصل کی ۔ بعدفراغت ٹونک میں نوجوان فوت ہوئے۔

(۲)    مولوی سعدحسن خان۔ آپ نے بھی مولاناکی نگرانی میں تعلیم پائی۔ پھرعلوم جدیدہ بھی حاصل کئے ۔ عرصہ تک دربار ہائی اسکول ٹونک میںہیڈمولوی رہے۔ تقسیم ہندکے بعدپاکستان تشریف لے گئے ۔ حیدرآباد میں مقیم ہیں۔ وہیں سندھ یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اب بھی وہیں درس وتدریس اور ترجمہ وتالیف میں مشغول ہیں۔ 

(۳)    قاری اسعدحسن خان۔ مولاناکے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ میں قاری عبدالمالک صاحب سے تجویدقرآن کی سند حاصل کی ۔ عرصہ تک موصوف مدرسہ فرقانیہ ٹونک میں درجہ قرأت کے مدرس رہے۔ تقسیم ہندکے بعدپاکستان تشریف لے گئے اور وہاں بھی لاڑکانہ کے ایک مدرسہ میں یہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانانے اس کے بعددونکاح کئے لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے