تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

خصائل  :

          مولاناحیدرحسن خان مرحوم جس طرح علم کے لحاظ سے بحرذخار تھے، اسی طرح عمل کے لحاظ سے بھی آپ کادرجہ بہت بلندتھا ۔اتقاء وپرہیزگاری کایہ عالم تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کاصحیح نمونہ معلوم ہوتے تھے۔ نہایت سادہ مزاج متورع اور باعمل بزرگ تھے۔ اتباع سنت کاجذبہ کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔ خانگی زندگی تک میں اس کا پورالحاظ فرماتے تھے۔ موصوف کے شاگردمولانارئیس احمدجعفری نے آپ کے انتقال پرجومضمون سپردقلم فرمایاتھا جس میں موصوف نے آپ کے کردار وعمل کی تعریف کی کوشش کی ہے، اس کی چند جھلکیاں دے دینااس موقع پرمناسب معلوم ہوتاہے  :

          ’’ان کی دلربا شخصیت، ان کایگانہ فضل وکمال، ان کازہدوتقویٰ، ان کی سیرت سے اچھی صورت، اور صورت سے اچھی سیرت ،ان کی شفقت ومحبت، اپنوں سے ان کی والہانہ فریفتگی ، بیگانوں سے ان کا مخلصانہ برتائو، اس طرح کے واقعات ایک ایک کرکے دماغ کے پردہ پر (انتقال کی خبرسن کر) یوں اجاگر ہوتے چلے گئے جیسے پردہ سیمین پر تصاویر متحرکہ ۔‘‘

          ’’میانہ قد ،دبلابدن، دودھ کی طرح سفیدڈاڑھی، سرخ وسفید چہرہ جیسے کاشمیرکاسیب، سرپرایک پگڑی ہاتھ میں ایک چھڑی، آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک، نیچاکرتا، اونچاپائجامہ۔‘‘

          ’’ان کی دھج ایسی ہوتی تھی کہ دیکھنے والوں پررعب بھی پڑتاتھا او راثربھی۔ ان کی سادگی پرہزاروں بناوٹیں قربان، پائوں میں نری کاجوتا، دبلابدن، میانہ قد، بڑی بڑی مخمور آنکھیں ، ریش مبارک سفید، سرپرایک پگڑی، اونچاپائجامہ، نیچاکرتہ ،چلتے اس طرح کہ جیسے ڈھلواں جگہ سے کوئی اتررہاہو‘‘۔

          مولاناروساء، امراء اور ان کے درباروں سے ہمیشہ متنفر رہے۔ ٹونک کاباشندہ ہونے کے باوجود کبھی نواب کے دربار میں نہیں گئے۔ ان محفلوں سے ان کی طبیعت کسی طرح میل نہیں کھاتی تھی۔ اکثرنواب صاحب کی طرف سے مختلف فیہ مسائل او رمقدمات شرعیہ کے سلسلہ میں علماء کاجلسہ طلب کیاجاتاتھا جس میں ریاست کے ملازم علماء کے علاوہ شہر کے دیگرعلماء وفضلاء کوبھی دعوت دی جاتی تھی اور کھلے دل سے اختلافی مسائل پربحثیں ہواکرتی تھیں ۔ ایک بار ایسا ہی موقع آگیا۔ مولانااس زمانہ میں ٹونک میں مقیم تھے۔ مولاناکے بڑے بھائی مولانامحمودحسن خاں، نواب صاحب کے اصرار سے اقرار کرآئے کہ وہ اپنے بھائی(مولاناحیدرحسن خاں)کوبھی اس مسئلہ پرگفتگو کرنے کے لئے ساتھ لائیں گے۔ شام آپ نے مولاناسے کہہ دیاکہ صبح باغ(نواب صاحب کی قیام گاہ) چلیں گے، فلاں مسئلہ پر گفتگوکرنا ہے ، آپ سن کرخاموش ہوگئے اور دوسرے روز اس سے پہلے کہ مقررہ وقت آتا ، خاموشی سے لکھنؤ کے لئے روانہ ہوگئے اور ایسا موقع نہیں آنے دیا کہ بھائی ساتھ لے جانے پراصرارکرتے۔

          علوم متداولہ کے درس دینے میں آپ کومہارت تامہ حاصل تھی۔ عمربھرپڑھا ، پڑھایا، بے شمار علماء آپ کے دریائے علم سے سیراب ہوئے۔ فنِ حدیث او راسماء الرجال میں خاص طور سے آپ کوبڑاعبور اور ملکہ تھا اور ان علوم میں اپنانظیرنہیں رکھتے تھے۔ رئیس احمدجعفری نے آپ کے حلقۂ درس پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے او رصحیح لکھاہے :

          ’’جن لوگوں نے ان کے حلقۂ درس میں شرکت کی ہے…ان کاطرز تحقیق دیکھا ہے ۔ ان کی حاضردماغی کامشاہدہ کیاہے، ان کے حسن استدلال کوپرکھاہے، ان کی وسعت نظرکوجانچا ہے اور ساتھ ہی دوسری درسگاہوں کے حلقۂ درس میں شرکت کی ہے دوسرے شیوخ کاطرز تعلیم بھی دیکھا ہے ان کا تویہ عقیدہ ہے کہ مولوی صاحب اپنے علم وفضل کی بناء پر نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بلاد اسلامیہ میں بھی یگانہ تھے۔ فردفرید تھے۔ لاشریک لہ تھے، ان کے زمانہ میں بھی ہم نے علماء وشیوخ کودیکھا، اب بھی دیکھتے ہیں، لیکن حیدرحسن خاں کی سی بات نہیں پاتے۔

ع

وہ بات کوہ کن کی گئی کوہ کن کے ساتھ ‘‘

          حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی سے مولانارشدوہدایت میں متعلق تھے اور ان کی طرف سے مجا زبھی تھے۔ یہ تعلق کب قائم ہوا، اس کی صراحت اب تک نہیں مل سکی ہے ۔ ۱۳۰۱؁ھ مطابق ۱۸۸۴؁ء میں مولانامحمود حسن خاں صاحب نے پہلاحج کیا ہے ۔ اس موقع پر آپ نے طویل مدت تک حرمین شریفین میں قیام فرمایااور حاجی صاحب سے بھی اس وقت سے مخلصانہ تعلقات قائم ہوئے۔ غالباً مولاناحیدرحسن خاں بھی ان کے ساتھ تشریف لے گئے ہوں گے اور حاجی صاحب سے اسی وقت سے متعلق ہوگئے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے