تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

تصانیف :

          مولاناکازیادہ مشغلہ درس وتدریس تھا۔ اس لئے تصنیف وتالیف کاموقع آپ کوکم ملا اور مستقل تصانیف کتب ورسائل کی شکل میں ترتیب نہیں دی جاسکیں۔ لیکن پھر بھی چوں کہ آپ کوفن حدیث اور اسماء الرجال پرپوراعبور تھا اس لئے آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام، رفع یدین وغیرہ جیسے مختلف فیہ مسائل سے متعلق آپ کے کچھ رسائل ومسائل محفوظ ہیںجس کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔ اصل مسودات بھی مولاناکے پسران کے پاس محفوظ ہوںگے۔ لیکن اس وقت یہ تفصیلات مولاناکے ایک شاگرد مولوی حکیم احمدحسن خاں ٹونکی حال مقیم جے پور کے مملوکہ نسخوں سے دی جارہی ہیں۔ قیام ٹونک کے آخرزمانہ میں حکیم صاحب، مولاناسے متعلق ہوئے اور خاطرخواہ جس قدر استفادہ کیاجاسکتاتھا، مولاناکی خدمت میں رہ کر استفادہ کرنے کی کوشش کی۔ مولانابھی شاگرد رشید سے بہت خوش تھے اور اکثراپنے رسائل موصوف کونقل کرنے کے لئے مرحمت فرمادیاکرتے تھے۔ اس طرح کے دومجموعے پیش نظرہیں۔ ذیل میں ان مسائل ورسائل کی پوری تفصیل استفادہ کی غرض سے پیش کی جارہی ہے ۔ ان مجموعوں میں بعض اجزاء مستقل رسائل کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض صرف مسائل ہیں جن کے ذریعہ مولانانے اپنی تحقیق کو قرطاس پرمحفوظ کرانے کی کوشش کی ہے ۔

(۱)    المجموعۃ الحیدریۃ المشتملۃ علی المسائل العدیدۃ والرسائل المفیدۃ۔

          یہ مجموعہ ذیل کے مسائل پرمشتمل ہے :

۱۔     مسئلہ المضمضۃ والاستنشاق                                 ۳ صفحات 

۲۔     رسالۃ الصاع  (صاع کی تحقیق میں اچھی بحث ہے۔)         ۲۵ صفحات

۳۔     غسل الرجلین فرض فی الوضوء ام المسح           ۶ صفحات

۴۔     ھل الوضوء فرض علیٰ کل قائم للصلوٰۃ                      ۴ صفحات

۵۔     ھل یجب التسمیۃ فی الوضوء                          ۲صفحات

۶۔     ماجاء اذا استیقظ احدکم من منامہ فلایغمسّن یدہ فی الاناء۳صفحات

۷۔     وقت صلوٰۃ الظہروالعصر                               ۸صفحات

۸۔     ہل الدم ینقض الوضوء ام لا                         ۱۰صفحات

۹۔     مسئلہ النبیذ                                                 ۱۳صفحات

۱۰۔   ولوغ الکلب                                                  ۵صفحات

۱۱۔   مسئلۃ ولوغ الہرۃ                                ۶صفحات

۱۲۔   مااستدل بہ علیٰ ان الکلام  (ای کلام الساہی وکلام من ظن التمام لایبطل الصلوٰۃ )                                        ۳۰صفحات

۱۳۔   رسالہ آداب الدعاء                                       ۴۰ صفحات

          یہ مجموعہ مولوی احمدحسن صاحب مفتی نے طالب علمی کے زمانہ میں شیخ مرحوم کے اصل مسودات سے نقل کرکے تیارکیا۔ بعض دیگررسائل بھی ہیں۔ اس لئے یہ مجموعہ ۱۸۳ صفحات پرمشتمل ہے ۔ تمام رسائل میں حدیث کوپیش نظررکھتے ہوئے مسائل سے بحث کی گئی ہے ۔

          اولہٗ :  مسئلۃ الوضوء والاستنشاق۔ لایجب المضمضۃ والاستنشاق فی الوضوء۔ الخ

(۲)    مجموعۃ الرسائل والمسائل فی الحدیث

          یہ مجموعہ ذیل کے مسائل پرمشتمل ہے  :

۱۔     رسالہ رفع الدین                                 ۱۱صفحات

۲۔     مسئلۃ الرعاف والدم                                    ۳صفحات

۳۔     تحقیق مسئلہ النبیذ ولوغ الکلب والہرۃ                  ۵صفحات

۴۔     المسح علیٰ العمامۃ                                     ۱  صفحہ

۵۔     المسح علیٰ الجوربین                                    ۲صفحات

۶۔     طہارۃ المنی ونجاستہ                                   ۱  صفحہ

۷۔     ہل للجنب أن ینام قبل ان یتوضاء                ۱  صفحہ

۸۔     ہل یتوضاء المعذور لکل صلوٰۃ والصلوٰۃ واحدۃ       ۲ صفحات

۹۔     المستحاضۃ تجمع بین الصلوٰتین                  ۲صفحات

۱۰۔   ماجاء فی الجنب والحائض انہما لاتقرآن القرآن      ۱۰صفحات

۱۱۔   کیفیۃ التیمم وحدہ                                      ۲صفحات

۱۲۔   الوطی فی الدبر                                             ۳صفحات

۱۳۔   ہل التغلیس افضل فی الصبح ام الاسفار                 ۹ صفحات

۱۴۔   مسئلۃ الفرار من الوباء                                 ۱  صفحہ

۱۵۔   رفع طعن الطاغین عن امام المجتہدین فی صاع رسول رب العالمین۔ یہ رسالہ ۶۹ صفحات پر مشتمل ہے ۔’’صاع‘‘پر مستقل رسالہ ہے اور موضوع پر بڑی بہتر بحث کی گئی ہے ۔ مولاناکااصل مسودہ ہے جومولانا ہرروز اپنے کسی شاگرد سے لکھوالیاکرتے تھے۔ اسی وجہ سے مختلف الخط ہے۔

۱۶۔   ہل یصلی علی المیت الغائب                        ۲صفحات

۱۷۔   جواب التردید لرسالۃ الامام البخاری فی اثبات رفع الایدی فی الصلوٰۃ۔۳۸صفحات پرمشتمل ہے ۔ امام بخاری کے قول کونقل کرکے اس کی تردید کی گئی ہے ۔ نادرتحقیق اور بہتر تردید ہے ۔

          یہ مجموعہ بھی مولوی احمدحسن صاحب نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں جمع کیا۔ اکثرمسائل مولاناکے اصل مسودات سے نقل کیے گئے ہیں۔ 

(۳)    رسالۃ فی مسئلۃ ھل یجھر الامام والماموم بالتامین۔

          یہ رسالہ ۴۰صفحات پرمشتمل ہے ۔ مولوی احمدحسن صاحب مفتی نے ۱۳۶۱؁ھ  مطابق ۱۹۴۲؁ء میں مولانا کے فرمانے سے اصل مسودہ سے نقل کیا جومحفوظ ہے۔

          ان رسائل کے علاوہ درس دیتے وقت مولاناکایہ طرز عمل تھاکہ پیش نظر نسخہ پر اسی وقت طالب علم سے برمحل حاشیہ بھی لکھواتے جاتے تھے۔ سنن الترمذی آپ خصوصیت سے پڑھاتے اور اس پرکافی محنت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پرآپ کے حواشی بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں، جوآپ نے مختلف طلباء کووقت درس تحریرکرائے۔ سنن الترمذی کا جونسخہ مولانا کاذاتی نسخہ تھا اور اکثر زیر درس رہاکرتاتھا، اس پر اس طرح کے حواشی زیادہ تھے ۔ مولوی احمدحسن خاںنے یہ تمام حواشی اس نسخہ سے نقل کرکے کتابی شکل میں محفوظ کرلئے ہیں۔ اسی طرح حکیم صاحب موصوف جب مولاناسے درس لیاکرتے تھے تو اس وقت بھی مولانامختلف مسائل پراپنی تحقیق اسی وقت لکھوادیاکرتے تھے۔ یہ حواشی بھی محفوظ ہیں اور ان کااکثرحصہ کتابی شکل میں نقل کرکے محفوظ کرلیاگیاہے۔ اس طرح سنن الترمذی جامع النسائی اور صحیح البخاری کے حواشی محفوظ کیے گئے ہیں۔

          مولانارئیس احمدجعفری نے بھی مولاناکے بعض مختصررسائل کاحوالہ دیا ہے اور مولاناکے طرز تحقیق وتدقیق پر بھی کچھ تبصرہ کیا ہے ۔ اس موقع پر موصوف کے مضمون سے یہ حصہ نقل کردینامناسب معلوم ہوتا ہے ،لکھتے ہیں  :

          ’’بعض اہم مسائل پر مولوی صاحب نے عربی زبان میں چھوٹے چھوٹے رسالے املاء کرائے تھے۔ ان کی تمناتھی کہ یہ عام ہوجائیں پھیل جائیں اور اشاعت پائیں تاکہ لوگ مستفیدہوں۔‘‘موصوف روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹہ تک (قریبی تعلق رکھنے والے طلباء سے) کسی خاص موضوع پر کتب حوالہ سے مواد جمع کراتے۔ صحاح ستہ سے اور دوسری کتب سے اسی موضوع پر ہم معنیٰ حدیثیں جمع کراتے۔ مسئلہ کی موافقت ومخالفت میں حفاظ، اصحاب اخبار اور ارباب رائے کے خیالات جمع کراتے اور پھراپنی تحقیق انیق شروع کرتے تھے ،اتنی چھان بین اور تحقیق کے بعدوہ جورائے قائم کرتے تھے بڑوں بڑوں کے  لئے ان سے اختلاف کرنا ناممکن ہوجاتاتھا۔ ان کاوہی طرز تھاجو’’بدایۃ المجتہد‘‘میں ’’ابن رشد‘‘‘ نے اختیار کیا۔

          حلقۂ درس میں بھی ان کایہی انداز تھا۔ ان کے ڈیسک پر ،شیلف پر،مسندپر، میز پر ،سامنے کی الماری میں درجنوں کتب حوالہ موجود رہتی تھیں۔ جہاں کوئی مختلف فیہ مسئلہ آیا اورانہوںنے زبانی لیکچر دینے کے بجائے انہی کتابوں سے مخالف وموافق مواد طلباء کے سامنے پیش کیا۔ پھراپنی رائے دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کی۔ نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ غیرحنفی طلباء بھی مولوی صاحب کے اخذ کردہ نتائج سے مطمئن ہوجاتے تھے۔‘‘

          افسوس اب تک مولاناکی تصانیف کے طبع ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ صرف ایک رسالہ ’’الحجاب فی الاسلام‘‘ طبع ہواہے۔ اس رسالہ میں آپ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ ’’حجاب شرعی‘‘جواسلام میں شروع کیاگیاہے، کیاہے؟ پھرآیات قرآنیہ واحادیث نبویہ سے دلائل پیش کئے ہیں۔ ۱۶ صفحات کامختصررسالہ ہے جوچھوٹی تختی پر ۱۳۵۸؁ھ مطابق ۱۹۳۹؁ء میں مطبع قیّمہ بمبئی میں طبع ہوا۔

          ان تمام رسائل کی ترتیب اور مسائل کی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ علام کو حدیث پر کس قدر عبور حاصل تھا۔ نظرمیں کیسی وسعت تھی۔ اَدلّہ اس قدرمستحضرتھے کہ موصوف کو مزیدمطالعہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہرمسئلہ کی صحت وسقم سے آپ پوری طرح باخبر تھے۔ یہ مجموعے جن تقاریرپرمشتمل ہیں ان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ پرآپ نے کچھ لکھواناچاہاہے بآسانی اس پرایک مدلل تقریرلکھوادی ہے۔ ادلہ مسائل کے حوالے ہر وقت مستحضر رہتے تھے اس لئے وہ بھی ساتھ دیئے جاتے تھے۔

          اور کیوں یہ مسائل اس طرح مستحضرنہ ہوتے اس لئے کہ آپ نے تقریباً ۶۵ سال حدیث کادرس دیاہے۔ درس بھی اس طرح نہیں کہ دورہ کرادیاہو، بلکہ بحث وتحقیق کے ساتھ ہرباب او رہر فصل کوپڑھایا ہے۔ ہرہربیان پرپوری بحث فرماتے، اس کے رواۃ کی جرح وتعدیل فرماتے نظائروامثال بیان فرماتے اور جب تک خود مطمئن نہ ہوجاتے کہ مسئلہ زیربحث میں حسب ضرورت تقریرفرماچکے ہیں، دوسرے بیان کوشروع نہیں فرماتے تھے۔ جس مسئلہ میں اختلافات زیادہ ہیں ، وہی مسائل آپ کی دلچسپی کاموجب تھے یہ صرف آپ کے تبحر علمی اور عبور مسائل وادلہ کے سبب تھا۔ بڑی ہی دلچسپی اور قلبی لگائو سے ان مسائل پربحث فرماتے اور ان میں اس قدر منہمک ہوجاتے کہ اس کے بعدطلباء کے اسباق تک اس بحث کے نذرہوجاتے۔ بالآخرشامل درس طلباء کایہ معمول ہوگیاکہ جس رو ز انہیں سبق پڑھنانہیں ہوا کسی بھی مختلف فیہ مسئلہ کاذکرچھیڑدیا۔ اب مولاناکہاں تھے۔ ایک مدلل تقریرشروع ہوگئی ہے ۔ اس طرح طلباء کی تدبیرکام آجاتی۔ حدیث جویریہ، رفع یدین، آمین بالجہر، امام ابوحنیفہ پرامام بخاری کی جرح وتنقیدوغیرہ وغیرہ وہ خاص مسائل تھے جن پرخصوصیت سے بحث ہوتی تھی ۔کبھی کبھی ایک ہی مسئلہ پر کئی کئی روز تک بحث ہوتی رہتی اور اسباق کی نوبت نہ آتی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے