یہ تھیں وہ مختصر معلومات جو مولاناکے سلسلہ میں اس وقت میں پیش کرنا ضروری سمجھتاتھا۔ مولانا میرے دادا صاحب کے برادر عمہ زاد تھے اس لئے میرے بھی دادا تھے۔ خاندانی روابط کے علاوہ والد صاحب مرحوم سے خصوصی محبت فرمایاکرتے تھے۔ والد صاحب کی درسی خدمات اورہمہ وقت تدریس میں مشغول رہنا مولاناکی مزیدحسرت وخوشنودی کاسبب تھا۔ اللہ اکبرٹونک کاوہ مرحوم علمی ودرسی ماحول۔آج وہ باتیں تصور تک میں نہیں آتیں جواس وقت پوری طرح عام اور دن رات کے معمولات میں سے تھیں۔ یہی مولاناکامحلہ جوہمیشہ سے علماء وفضلاء کامرکز رہا اس میں درس وتدریس کاایک جال بچھا ہواتھا۔ چندچندگز کے فاصلہ پر درس کی مسندیں جمی تھیں۔ مسجد میں مولانادرس دے رہے ہیں تو مسجد سے باہرکھلے حصہ میں والدصاحب۱؎ مرحوم اپنے مکان پر درس دینے میں مصروف ہیں ۔ ایک ہی دیوار حائل ہے کہ مولوی محمدیوسف خاں صاحب کادرس جاری ہے ۔ قریب ہی میں مولوی محمودحسن خانصاحب اپنے علمی مشاغل میں مصروف ہیں۔ غرض علم کے چشمے تھے جوکوچہ کوچہ اور گلی گلی بہہ رہے تھے اور پورے شہر کایہی حال تھا مگرآج اس کے سوا کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
ع
آں قدح بشکست وآں باقی نماند
ع
آج ہیں افسانہ گوئے دیگراں
کل خود ہی ہوجائیں گے افسانہ ہم
ع
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
آخرمیں یہ عرض کرنابھی ضروری سمجھتاہوں کہ مولاناکی تصانیف کے سلسلہ میں اس وقت جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں وہ اپنی معلومات کی حدتک ہیں۔ جن حضرات کو مولاناسے مزید قرب رہا ہے یاجوصاحبان مولاناکی تصانیف سے مزیدباخبرہیں ان سے توقع ہے کہ وہ ضرور اس کی تفصیل شائع کرنے کی تکلیف فرمائیں گے یا کم از کم مجھے مطلع کرنے کی زحمت فرمائیں گے تاکہ وہ جدیدمعلومات مولاناکے تذکرے میں شامل کی جاسکیں۔
مولوی قاضی محمدایوب صاحب
آپ کے ضروری حالات سلسلہ عرفانیہ میں درج ہیں۔ علماء کی فہرست میں آپ کانام کاشمارکیاجاناضروری تھا۔ اس لئے یہاں آپ کانام درج کیاگیا۔
آپ کی پیدائش ٹونک میں ہوئی۔ یہیں تربیت پائی۔ مولوی محمدسعید صاحب اور اس دو رکے دوسرے علماء سے علوم کی تکمیل کی۔ درس وتدریس کاسلسلہ عمربھرجاری رکھا۔ خاندانی جاگیرملی ہوئی تھی۔ اس کی نگرانی بھی فرمایاکرتے تھے ۔ ۱۹۲۱ء میں آپ کااہلمد تعمیل کی حیثیت سے عدالت شریعت میں تقررہوگیا۔ عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ درمیان میں ملازمت کاسلسلہ ختم ہوگیا۔ صاحبزادہ عبدالرشیدخاں عرف بھورا میاں اور دوسرے رئیس زادگان کے ساتھ بھی رہے اور معزززندگی گذاری۔ نواب سعادت علی خاں صاحب کے آخری دور میں جبکہ والدصاحب عدالت شریعت کے ناظم تھے ۔مفتی کی حیثیت سے آپ کاتقررہوگیا ۔ ۱۹۴۸ء تک تابقاء عدالت یہ تعلق باقی رہا۔
شعر وشاعری اور درس وتدریس کاسلسلہ تاحیات جاری رہا۔ نہایت ظریف الطبع واقع ہوئے تھے۔ اس لئے ہمیشہ خوش رہتے اور دوسروں کوبھی خوش رکھتے تھے۔ ممکن نہیں کہ آپ کی محفل میں کوئی شخص غمگین واداس نظرآئے۔ اپنے چٹکلوں اور ظریفانہ گفتگو سے سب کوہنساتے رہتے تھے ۔اسی ظرافت کے ذریعہ آپ کی شاعری ہواکرتی تھی۔ کوئی مشاعرہ اورکوئی محفل شعر ایسی نہیں جہاں آپ کاکلام پسند نہ کیاجاتاہو۔ افسوس یہ سلسلہ صرف آپ کی حیات تک باقی رہا۔ اولاد چوں کہ نہیں ہوئی اس لئے نسبی سلسلہ بھی نہ چل سکا۔
۱۱؍نومبر۱۹۵۵ء مطابق ۲۵؍ربیع الاول ۱۳۷۵ھ کو بروز جمعہ ٹونک میں آپ کاانتقال ہوا۔ گورستان موتی باغ میں دفن کیاگیا۔ آپ والدصاحب مرحوم سے تقریباً چار سال بڑے تھے اس لئے غالباً آپ کی پیدائش ۱۳۰۴ھ مطابق ۱۸۸۶ء کی ہوگی۔
مولوی قاضی محمدعرفان خاں
مولوی محمدعرفان خان ابن قاضی عبدالحلیم صاحب، ابن مولوی قاضی عبدالکریم صاحب۔ آپ کے مفصل حالات اگرچہ ’’تذکرہ عرفانیہ‘‘میں بیان کیے گئے ہیں۔ علماء کی فہرست میں بھی چوں کہ آپ کانام تھا اس لئے اس تفصیل کاخلاصہ یہاں درج کیاجارہاہے۔
آپ ۱۴؍رمضان ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۰ء کوٹونک میں پیداہوئے۔ یہیں تربیت پائی۔ ابتدائی صرف ونحو مدرسہ ناصریہ میں مولوی محمدسعید صاحب سے پڑھی۔ پھرمدرسہ خلیلیہ منتقل ہوگئے۔ اس وقت مولوی خلیل الرحمٰن صاحب وہاں مدرس تھے۔ ہدایہ آپ نے مولوی مفتی نورالحق صاحب خستہ سے پڑھی۔ پھرحکیم برکات احمدصاحب کی خدمت میں حاضرہوگئے او رتمام کتب منقولہ ومعقولہ کی تکمیل حکیم صاحب کے پاس ہوئی ، کتب طبیہ او ر عمل مطب کی تکمیل حاصل کرنے کاشرف بھی حکیم صاحب کے پاس حاصل ہوا۔ ذی الحجہ ۱۳۳۶ھ مطابق ۱۹۱۸ء میں حکیم صاحب نے علوم کی سند عطافرمائی او ررمضان ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۷ء میں تکمیل طب کی سنددی جب کہ آپ عدالت شریعت چھبڑہ کے مفتی تھے۔ اسی سال آپ چھبڑہ کے بجائے عدالت شریعت ٹونک کے مفتی مقررہوئے اور سترہ سال تک ٹونک میں افتاء کی خدمت انجام دی۔ ۲۲؍جمادی الاخریٰ ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹؍جولائی ۱۹۴۱ء کوآپ عدالت شریعت کے ناظم مقررہوئے۔تاآنکہ تقسیم ہندکے بعد اس عدالت کا سلسلہ ختم ہوا اور ۳؍شوال ۱۳۶۷ھ مطابق ۹؍اگست ۱۹۴۸ء کوآپ کی پینشن ہوگئی جو تاحیات جاری رہی۔