خدمت درس وتدریس کاسلسلہ آپ کی زندگی کاجزو لاینفک تھا۔ طالب علمی کے ابتدائی زمانہ سے پڑھاناشروع کردیاتھا۔ ملازمت کی ذمہ داریوں کے باوجود کبھی اس خدمت سے اپنے کوسبکدوش نہیںسمجھا۔عمربھرپڑھایا او رنہایت دلچسپی او رلگن سے پڑھایا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ مطب کاسلسلہ بھی جاری تھا۔ حکیم برکات احمد صاحب کی زندگی میں ان کے مطب میں بیٹھے۔ ان کاانتقال ہوجانے کے بعد حکیم ظہیرالدین صاحب کے مطب میں بیٹھتے رہے۔ ۱۹۳۹ء میں ان کابھی انتقال ہوگیاتواپنے گھرپر مستقل مطب شروع کردیا۔ پینشن ہوجانے کے بعدمختصردواخانہ بھی کھول لیاتھا۔ یہ دواخانہ بحمداللہ اب تک قائم اور جاری ہے۔
آپ سوداویت کے دائمی مریض تھے۔ نوعمری سے اس کاغلبہ تھا۔ اسی وقت سے پیر میں ناصور ہوگیاتھا جس کاسلسلہ موت تک چلتارہا۔ نومبر ۱۹۵۳ء میں آپ پر فالج کاپہلا حملہ ہوا۔ جنوری ۱۹۶۰ء میں دوسراحملہ ہوا جس کے ساتھ لقوہ کااثربھی شامل تھا۔ ایک بارپھر اس حملہ کااثرہوا۔ تاآنکہ ۷؍اپریل ۱۹۶۲ء مطابق یکم ذیقعدہ ۱۳۸۱ھ روز شنبہ کوٹونک میں آپ کاانتقال ہوا اور گورستان موتی باغ میں دفن کیاگیا۔ مفصل حالات ’’تذکرہ عرفانیہ‘‘ نامی حصہ میں شامل ہیں۔
صوفی خلیل الرحمٰن حکیم
مولوی حکیم خلیل الرحمٰن صاحب ابن حکیم قاضی عبدالحلیم صاحب ابن مولوی قاضی عبدالکریم صاحب ۔آپ میرے چچا ہوتے ہیں۔ ٹونک میں پیداہوئے۔ والدصاحب مرحوم سے بہت چھوٹے ہیں۔ ابتدائی تعلیم ٹونک میں حاصل کی۔ ان کے والدکاانتقال چوں کہ بالکل نوعمری میںہوگیاتھا۔ اس لئے اپنے بڑے بھائی یعنی والد صاحب مرحوم کی نگرانی میں تربیت پائی۔ یہیں ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی۔ طبیعت میں کچھ جلدبازی تھی اور امنگیں جوان تھیں اس لئے جلدہی ٹونک چھوڑکرباہرتشریف لے گئے۔ احمدآباد، سورت اور بمبئی اور اسی طرف کے دوسرے علاقوں میں زندگی گذاری۔ زمانۂ دراز کے بعدٹونک تشریف لائے تو رنگ بدلاہواتھا۔ نہایت مشرع اور سنجیدہ بن کر ٹونک واپسی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعدپھرواپس تشریف لے گئے اور بمبئی وغیرہ میں کچھ وقت گذارکرریاست کولھاپور میں دواخانہ کھول لیا۔اسی طرح اناج وکپڑے وغیرہ کی دوسری تجارت بھی وہاں شروع کردی۔ گواکے علاقہ میں شادی کرلی تھی۔ عرصہ دراز تک اہل وعیال کے ساتھ کولھاپور میں سکونت پذیررہے۔
پندرہ بیس سال کی طویل مدت کے بعدآپ واپس ٹونک تشریف لائے تو اس وقت والد صاحب مرحوم عدالت شریعت میں ناظم تھے۔ اور زمانۂ ریاست میں معزز زندگی گذاررہے تھے۔ اس طرح ٹونک برابرآمدورفت رہی۔ تقسیم ہندہوجانے کے فوراً بعد آپ حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اہل وعیال کے ساتھ ٹونک تشریف لے آئے۔ آبائی مکانات میں قیام پذیررہے۔ پھراہل وعیال کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے۔ عرصہ درراز تک کوٹری علاقہ حیدرآباد سندھ میں مقیم رہے۔ دواخانہ کھول لیا اور دوسری تجارت بھی جاری رکھی۔ پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ اب بھی وہیں مقیم ہیں۔ میری ویدر ٹاور کے پاس دواخانہ کھول لیا ہے۔اب چوں کہ ضعیف ہوگئے ہیں او رنظرسے بھی معذور ہوتے جاتے ہیں اس لئے مشاغل کا سلسلہ کم کردیا ہے۔ اولاد نے خاطرخواہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اس لئے علمی میدان میں اب تک زیادہ ترقی نہیں کرسکے۔ اولاد کی تفصیل ’’شجرہ عرفانیہ‘‘ سے ظاہرہے۔
آپ ابتداء سے نہایت ذہین، جری او رجدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ہرمیدان میں ترقی کی اور ہمیشہ معزز زندگی گذاری۔ اللہ تعالیٰ آپ کوخیروعافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔ انقلاب زمانہ نے ایسا دور کردیا ہے کہ آج ایک دوسرے سے ملاقات آسان نظرنہیں آتی۔
حکیم محمدعمران خاں
(مرتب تاریخِ ہٰذا)
’’تاریخ عرفانی‘‘ جومرتب کی حقیرکوشش اور ذاتی جدوجہدکے نتیجہ میں کتابی حیثیت سے سامنے آرہی ہے ۔ مرتب کا تذکرہ بھی بطور یادگار اس میں شامل ہونا ضروری تھا اس لئے اپنے حالات بھی ترتیب دے کر اس میں شامل کئے جارہے ہیں ۔
میرا سلسلہ نسب اس طرح ہے :
محمدعمران خاں ابن مولوی حکیم قاضی محمدعرفان خاں ابن مولوی قاضی عبدالحلیم صاحب ابن مولوی قاضی عبدالکریم صاحب ابن مولوی محمدخاں صاحب مفتی ابن ملا عرفان رامپوری ابن اخوند عمران بن اخوند عبدالحلیم رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔