میونسپلٹی ٹونک کے ریکارڈ کے مطابق۱؎ ۲۶؍جون ۱۹۲۸ء مطابق ۷؍محرم ۱۳۴۷ھ کو ٹونک میں میری پیدائش ہوئی۔ یہیں تربیت پائی۔ والد صاحب مرحوم اس وقت عدالت شریعت ٹونک میں مفتی تھے، ہوش سنبھالا تو ریاست میں علمی مشاغل اپنے جوبن پر تھے۔ درس وتدریس کاچرچا عام اور گلی گلی گھرگھر علمی ذوق پایاجاتاتھا۔ حکیم برکات احمدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال ہوچکاتھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ صبح سے شام تک آپ کوکوئی فارغ وقت نہیں ملتاتھا۔ کبھی کبھی صبح شام تک کاکھاناباہر آجاتاتھا۔ آپ درس دیتے رہتے اور کھانا نوش فرماتے رہتے تھے۔ کبھی صحاح ستہ کادورہ ہورہاہے تو کبھی مطول اور مختصرالمعانی کی علمی بحثیں۔ کبھی مسائل لطیفہ پر بحث ہورہی ہے تو کبھی فلسفہ کے مسائل سامنے ہیں۔ ابھی شرح چغمنی کاسبق ہورہاہے توکچھ دیربعدفرائض کے مسائل کی مشق ہورہی ہے اور مناسخہ کے اصول سامنے ہیں۔ فقہی مسائل توگویاگھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ غرض اسی درسی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ہرہفتہ آپ کامعمول تھا کہ اپنی آبائی مسجد میں طلباء کوجمع فرمالیتے اور استعداد کے مطابق طلباء سے مختلف مسائل پرتقریریں کراتے۔ ایسی ہی ایک مجلس میں میں بھی بچپن میں حاضرتھا۔ طلباء اپنی اپنی تقریریں کررہے تھے ۔ یہاں کیاسمجھیں عمرہی اتنی کب تھی کہ سمجھنے کی کچھ صلاحیت پیداہوتی۔ آپ نے اس خورد سالی کالحاظ کئے بغیرمجھے بھی کھڑاکردیا اورفرمایا کہ تم ابھی بچے ہو۔ کچھ پڑھانہیں ہے اس لئے حاضرین کے سامنے چھ سمتوں کی تفصیل بیان کرکے حکم کی تعمیل کرو۔ آج اس ماحول کویاد کرکے زمین آسمان گھوم جاتے ہیں۔
بہرحال یہی علمی ماحول تربیت گاہ بنا۔ ابتدائی اردو مولوی امجدعلی صاحب سے پڑھی جوقریب ہی کے ایک مکتب میں مدرس کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ اردو میں کچھ شُدبُد ہوجانے کے بعدمولوی حافظ قاری محمدامین صاحب سے فارسی شروع کی جوصاحبزادہ عباداللہ خاں کی کچہری میں ایک مدرسہ چلارہے تھے۔ منشی الٰہ آباد کے امتحان تک فارسی وغیرہ کی پوری تکمیل آپ ہی کے پاس کی گئی۔
اسی ابتدائی دورمیں خوشنویسی کے لئے استاد سیداصغرعلی آبرو کی خدمت کرنے کا موقع ملا جب کہ موصوف کافی ضعیف ہوچکے تھے اور عمرکے آخری ایام گوشہ نشینی میں گذار رہے تھے تاحیات آپ کی خدمت کرنے او رکتابت کی مشق کرنے کافخرحاصل ہے ۔ خط میں کچھ صفائی، مرحوم ہی کے کرم کانتیجہ ہے ۔ ابتداء سے لکھنے لکھانے اور ہرچیزکوسلیقہ سے کرنے کاشوق اس قدر تھاکہ اسی وقت ایک سادہ بیاض مجلد کرالی تھی۔ استاد جو بھی اصلاح دیتے یامشق کے لئے نیاقطعہ بتاتے، اس سادہ بیاض میں لکھوالیتاتھا۔ بحمداللہ آج تک استادکی وہ بیاض محفوظ ہے جوخطاطی کااچھانمونہ ہے۔
قبلہ والدصاحب مرحوم نے اسی وقت سے لکھنے او رنقل کرنے پرلگادیاتھا۔ چنانچہ اس ابتدائی دو رمیں جب ابتدائی فارسی اردو کے ساتھ جغرافیہ کی ابتدائی اصطلاحات بھی شروع ہوئیں۔ آپ نے ’’اصطلاحات جغرافیہ‘‘ نامی ایک مختصررسالہ کی نقل کرائی اور فرمایا کہ اسی میں پڑھاکرو۔ یہ نقل اب تک میرے پاس محفوظ ہے جس کی تاریخ کتابت …………ہے جب کہ میری عمر ……سال کی تھی۔ آج اس کے ایک ایک لفظ سے بچپن اور خط کاکچاپن نظرآتاہے۔
حافظ محمدامین صاحب کی خدمت میں رہ کر ۱۹۴۲ء میں منشی الٰہ آباد کاامتحان پاس کیا۔ امتحان دینے کے لئے آگرہ جاناہوا۔ میرے لئے یہ امتحان پہلا امتحان تھا مگرنہایت مفید ثابت ہوا۔ یہ امتحان ایک جامع امتحان کی حیثیت رکھتاتھا۔ اردونظم ونثر، فارسی نظم ونثر، تاریخ، جغرافیہ، حساب، الجبرا، اقلیدس اورابتدائی عربی پریہ امتحان مشتمل تھا۔ غرض ابتداء ً جن مضامین کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب ہی اس امتحان میں آجایاکرتے تھے۔
امتحان سے فارغ ہوکرفوراً میں ماہ شعبان میں اپنے چچامولوی حکیم خلیل الرحمٰن صاحب کے پاس کولھاپور چلاگیا۔ جوعرصہ سے وہاں مقیم تھے اور دواخانہ چلارہے تھے۔ رمضان وہاں گذارکرشوال میں واپسی ہوئی۔ امتحان میں کامیابی ہوچکی تھی ۔ والدصاحب نے اب باقاعدہ عربی پڑھانے کا سلسلہ شروع کرادیا۔ مولوی حکیم سیدمحمداحمدصاحب جومیرے پھوپی زاد بھائی ہیں منشی کے امتحان سے ساتھ تھے۔ اس لئے والدصاحب مرحوم نے ہم دونوں کو مولوی فضل الرحمٰن صاحب پنجابی کے حوالہ کردیا جو درس وتدریس کے سلسلہ میں ٹونک میں مقیم تھے او رطلباء کی استعداد بنانے کے سلسلہ میں بے نظیرقابلیت کے مالک تھے۔ حکیم برکات احمدصاحب مرحوم کے پوتے حکیم محمود میاں اور اخترمیاں بھی اونچی کتابیں مولاناسے حاصل کررہے تھے۔ چنانچہ والد صاحب مرحوم نے اپنی موجودگی میں تبرک کے طورپر میزان کاپہلاسبق حکیم صاحب کے پوتے محمودمیاں سے دلایا اور پھر مولوی فضل الرحمٰن صاحب کے سپرد کرآئے۔
مولوی صاحب نے کس شفقت عنایت، محنت اور جانفشانی سے تعلیم دی ہے اس کااندازہ کرنا دوسرے کے لئے مشکل ہے ۔ آج آپ ہی کی اس محنت کانتیجہ ہے کہ اللہ نے کچھ خدمت کرنے کی اہلیت عطا فرمائی۔ میزان سے لے کر فقہ وحدیث کی اونچی کتابیں تک مولوی فضل الرحمٰن صاحب سے حاصل کیں مولوی صاحب بھی نہ صرف تعلیم کی نگرانی فرماتے بلکہ پوری تربیت بھی فرمایاکرتے تھے۔ وہ دور کچھ ایسا ہی دور تھا۔ جس زمانہ میں حدیث وفقہ کی کتابیں شروع ہوگئی ہیں اس زمانہ میں رات کے چار بجے ہم لوگوں کو مولانا کی قیام گاہ پر حاضرہوجاناپڑتاتھا۔ مولانااس سے پہلے بیدار ہوکر ہم لوگوں کے منتظر ہوتے۔ دو ایک کتابوں کے سبق پڑھاتے ۔تب مسجد قافلہ کی نمازکاوقت ہواکرتاتھا۔ جہاں شہرکی مساجد میں سب سے پہلے ’’غَلَس‘‘میں نماز صبح ہواکرتی ہے۔ وہیں مولانا کے ساتھ جاکر ہم نماز صبح اداکرتے۔ پھرواپس آکر اسباق پورے کرتے۔ دن کے اسباق اس کے علاوہ تھے اور یہ ہر روز کامعمول تھا۔