تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

          ۱۹۴۷؁ء تک مولاناکے پاس یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس درمیان میں متعدد امتحان بھی دیئے۔ لیکن کبھی کسی خاص امتحان کو پیش نظررکھ کر اس کی تیاری نہیں کی بلکہ درس نظامیہ کی تعلیم جاری تھی جس امتحان کے قابل اپنی استعداد دیکھی اسی کافارم بھر دیا۔ چنانچہ مولوی پنجاب، مولوی الٰہ آباد او رعالم وغیرہ کے امتحانات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔

          اس موقع پر ذیل میں ان تمام امتحانات کی تفصیل بیان کی جارہی ہے جو اب تک پاس کیے گئے ہیں :

          منشی الٰہ آباد                  ۱۹۴۲؁ء              تھرڈ ڈویژن

          مولوی پنجاب                 ۱۹۴۴؁ء              سیکنڈڈویژن

          مولوی الٰہ آباد                 ۱۹۴۵؁ء              فرسٹ ڈویژن

          عالم الٰہ آباد          ۱۹۴۹؁ء              فرسٹ ڈویژن

          فاضل الطب الٰہ آباد                 ۱۹۵۱؁ء              سیکنڈ ڈویژن

          میڈیکل ڈپلوما                ۱۹۴۷؁ء              فرسٹ ڈویژن

          پریچے ہندی راشٹریہ پرچارسمیتی وردھا        ۱۹۶۱؁ء    سیکنڈڈویژن

          ہائی اسکول (میٹرک)                 ۱۹۵۶؁ء    صرف انگریزی

          انٹر(ایف-اے)                          ۱۹۶۲؁ء    صرف انگریزی

          بی-اے                                      ۱۹۶۵؁ء    ایضاً

          یہ تعجب کی با ت ہے کہ والدصاحب مرحوم جودرس وتدریس کے سلسلہ میں اس وقت مرکزی حیثیت رکھتے تھے، لیکن اس وقت تک ہمیں آپ کے پاس کچھ پڑھنے کاموقع نہیں ملاتھا۔ آپ نے بھی مصلحت اس میں دیکھی اور ہمیں مولوی فضل الرحمٰن صاحب کے سپرد فرمایا۔ اس لئے کہ وہ مولانا کی استعداد اور قابلیت سے واقف تھے۔ آخری ایام میں جب مولانا عبدالرحمٰن صاحب چشتی ٹونک تشریف لے آئے او رمدرسہ خلیلیہ میں مدرس کی حیثیت سے کام کرنے لگے تو مولوی صاحب نے بغرض حصول برکت ایک دوسبق مولانا چشتی صاحب کے پاس بھی شروع کرادیے، ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ مولانا چشتی صاحب مشہور قابل مدرس تھے اور خود مولانافضل الرحمٰن صاحب کے استاد تھے ۔ کچھ مدت تک یہ اسباق جاری رہے۔

          اس کے بعدہماری تعلیم کی تکمیل کے لئے طے پایاکہ دارالعلوم دیوبندجاکر فراغت حاصل کی جائے ۔۱۹۴۷؁ء میں مصمم ارادہ کرکے سامان سفرتیارکیا۔ تقسیم ہندہوچکی تھی۔جس روز ہم لوگ روانہ ہونے والے تھے اسی روز سے ہندوستان میں فسادات کی اطلاع ملناشروع ہوئی اور یہ سلسلہ غیرمعمولی طورپرجاری رہا۔ اس لئے ارادہ ملتوی کیاگیا اور ہفتوں بعد وہ سامان جو سفر کے لئے تیارکیاگیاتھا، کھولا گیا۔ اس کے فوراًبعد یہیں تکمیل علوم کی ٹھان لی۔ ۱۹۴۹؁ء میں عالم الٰہ آباد کاامتحان دیاگیا۔ حدیث کادورہ والدصاحب مرحوم نے اپنے پاس کرایا۔ اسی مدت میں طب کی تکمیل شروع کرادی۔ ۱۹۵۱؁ء میں فاضل الطب الٰہ آباد کاامتحان پاس کیا۔ طبی مشق کاسلسلہ جاری رہااور مطب میں بھی برابر حاضری ہوتی رہی۔ علوم کی سند اور تکمیل طب کی سند والدصاحب نے علیحدہ سے بھی عطا فرمائی۔

          یہ وہ دور تھا جب کہ مولاناغلام رسول مہر کے اصرارپر، مولاناابوالکلام آزاد وزیر تعلیم حکومت ہندنے ،حکومت راجستھان کی معرفت، سیداحمدشہیدرحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کاتاریخی مواد ،ٹونک کے کتب خانہ سے طلب فرمایاتھا اور حکومت راجستھان کی توجہ دلائی تھی کہ ٹونک کے اس تاریخی کتب خانہ کی مفصل فہرست تیار کرائی جائے۔ فہرست کا ایک نمونہ بھی خود تیار کرکے بھیجا۔اللہ کو خدمت لیناتھی اس لئے اکتوبر ۱۹۵۱؁ء میں اس فہرست کی تیاری کے سلسلہ میں میرا تقرر کتب خانہ سعیدیہ میں ہوا اور الحمدللہ اس وقت سے اب تک اس کتب خانہ کی خدمت کرنے کا موقع مل رہاہے۔ چھ سال کی مسلسل کوشش او رجدوجہد کے بعد اس کتب خانہ کے قلمی ومطبوعہ ذخیرہ کی علیحدہ علیحدہ مفصل فہرستیں تیار کی گئیں اور انہیں حروف تہجی کی ترتیب پرفن وارزبان وار مرتب کیاگیا۔جدیدنمبر نگ کرکے ان کتابوں کو سلیقہ سے رکھاگیا۔ فہرست چوں کہ نہایت مفصل تیارکی گئی تھی اس لئے یہ کتب خانہ میرے لئے تربیت گاہ ثابت ہوا او ریہ خدمت میرے لئے بہت مفید رہی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے