تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

          والدصاحب کے پاس مطب میں بیٹھنے کاسلسلہ برابرجاری تھا اور تاحیات اس سے استفادہ کاموقع ملتارہا۔افتاء کاکام بھی عدالت شریعت ختم ہوجانے کے بعدسے والد صاحب سے متعلق تھا اس لئے ان کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعدبھی طبابت وافتاء کاکام متعلق رہا اور اب بھی یہ خدمت بحمداللہ خدمت خلق کے جذبہ سے جاری ہے۔

          میرا نکاح ۲۷؍ذی الحجہ ۱۳۶۵؁ھ مطابق ۲۲؍نومبر ۱۹۴۶؁ء کو بشب جمعہ ٹونک میں وحیدہ بیگم دختر منشی محمدخاں صاحب سے ہوا جویک جدی ہیں اور ہمارے ہی خاندان کی ایک شریف خاتون ہیں۔ اب تک ذیل کی اولاد یں ہوئیں جو بحمداللہ حیات ہیں۔ بطور یادداشت ان کے نام اورتاریخ ہائے پیدائش بھی درج ذیل ہیں:

عزیزی محمدعمرخاں سلمہ اللہ   ۱۵؍ذی الحجہ ۱۳۶۶؁ھ م  ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷؁ء روز پنجشنبہ

عزیزہ سعیدۃ النساء سلمہااللہ  ۴؍ذی الحجہ ۱۳۷۰؁ھ م  ۷؍ستمبر ۱۹۵۱؁ء روز جمعہ

عزیزہ مسعودۃ النساء سلمہااللہ (نواب بیگم) ۳۰؍رجب ۱۳۷۲؁ھ م  ۱۹؍مارچ ۱۹۵۳؁ء روز پنجشنبہ

عزیزم حفیظ اللہ عامرسلمہ اللہ         ۲۴؍رجب ۱۳۷۵؁ھ   م ۸؍مارچ ۱۹۵۶؁ء رو پنجشنبہ

عزیزم محمدعارف سلمہ اللہ        ۲؍شعبان ۱۳۷۹؁ھ  م جمعہ  وقت مغرب

عزیزہ عارفہ بی سلمہااللہ ۱۸؍جمادی الاولیٰ ۱۳۸۳؁ھ  م ۸؍اکتوبر ۱۹۶۳؁ء سہ زشنبہ

عزیزہ نعیمہ بی سلمہااللہ          ۳؍رمضان ۱۳۸۸؁ھ  م ۲۵؍نومبر ۱۹۶۸؁ء

برخوردارمحمدعمیرخان               ۱۹۷۱؁ء

برخوردارمحمدعمارخان               ۱۹۷۳؁ء

          برخوردارمحمدعمرندوۃ العلماء لکھنؤ میں زیرتعلیم ہے اور بحمداللہ فضیلت کے آخری سالوں میں ہے۔ انشاء اللہ ایک سال بعدتعلیم سے فراغت کررہاہے۔ برخوردار عامر کو حفظ قرآن کرایاجارہاہے اور ۱۹  پارے حفظ ہوچکے ہیں۔ ۱؎    دوسرے بچے او ربچیاں بھی حسب عمر واستعداد اپنی تعلیم میں مصروف ہیں۔

          ملازمت، مطب اور افتاء کے علاوہ یہاں کے کچھ مدارس کی نگرانی بھی متعلق ہے۔ حتی الامکان مدارس کی دیکھ بھال اور نگرانی کی خدمت انجام دی جاتی ہے ۔ نکاح خوانی کاسلسلہ خاندانی ہے۔ اسی طرح تصدیق طلاق اور معافی حقوق وغیرہ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ الحمدللہ یہ تمام ہی خدمات نہایت تندہی، نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کوقبول فرمائے اور اپنی مزید اطاعت اور کارہائے خیرمیںمزیدحصہ لینے کی توفیق عطافرمائے۔

          عمرمیں امراض کاسلسلہ اگرچہ کبھی کبھی جاری رہا۔ لیکن اپریل ۱۹۶۶؁ء میں موتی جھرہ کاشدیدحملہ ہوا مرض کی پیچیدگی نے کچھ ایسی نوعیت اختیارکرلی کہ مرض لاحقہ سے جانبر ہونامشکل نظرآتاتھا۔ اللہ نے فضل فرمایا۔ الحمدللہ آہستہ آہستہ وہ مرض مغلوب ہوا او ر کمزوری دورہوئی۔

          ۱۹۶۷؁ء میں اللہ نے مزیدفضل فرمایا کہ حج بیت اللہ اور زیارتِ حرمین شریفین کا موقع ملا۔ والدصاحب مرحوم اور ان کے بعدہماری معاشی حالت ایسی نظرنہیں آتی تھی کہ مدت دراز تک یہ شرف حاصل ہوتالیکن شکرہے اس خدا کاجومشکل ترین کام ایک لمحہ میں آسان فرمادیتاہے۔ خدا جزادے ان لوگوں کوجنہوںنے اس سفر کی سہولتیں پیداکرنے میں مددفرمائی اور خدا قبول فرمائے ان نیتوں کو جن کے پیش نظریہ سفر اختیارکیاگیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے