تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

خاندانی افراد مختلف ادوار میں :

          ریاست ٹونک کو ایک مستقل ریاست کے لحاظ سے عمرکے صرف ایک سو تیس سال مل سکے۔ بانیٔ ریاست نوا ب امیرالدولہ کے دور میں ، ملاعرفان رامپوری کی اولاد میں اگرچہ ہر سہ مذکورہ افراد ٹونک منتقل ہوگئے تھے۔ لیکن پھر بھی ان کی اولادیں رامپور میں قیام پذیرتھیں۔ تاحیات نواب امیرخاںکا رامپور آمدورفت کاسلسلہ جاری رہا۔ اس وقت تک اولاد کاتعلق رامپور سے زیادہ اور ٹونک سے کم تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ان حضرات نے ٹونک میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور بالآخرجمیع اہل وعیال ٹونک منتقل ہوکر یہاں آباد ہوگئے۔ مولانا خلیل الرحمٰن صاحب کو درسی خدمات کے علاوہ خدمت قضاء بھی سپرد تھی اور ہر سہ حضرات باعزت وباوقار زندگی بسرکیاکرتے تھے۔ رؤساء وقت نے پوری عزت افزائی فرمائی اور وہ مناصب جلیلہ عطافرمائے جن کے یہ حضرات واقع میں مستحق تھے۔ مولاناخلیل الرحمٰن صاحب کے لئے سواری میں پالکی مقرر تھی ۔ مولوی محمدصاحب مفتی ہاتھی پرسوار ہوا کرتے تھے ۔ ان کے مکان پختہ واقع محلہ امیرگنج کے گوشہ پر ان کاہاتھی بندھا رہتاتھا۔ اسی طرح مولوی سعداللہ صاحب خطیب کے لئے پالکی مقررتھی اور عیدین وغیرہ کے موقع پر خلوت فاخرہ اور انعامات جلیلہ سے نوازاجاتاتھا۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے جاگیریں علیحدہ سے مقررتھیں۔

          نواب امیرخاں کے انتقال کے بعدنواب وزیرالدولہ تخت نشین ہوئے۔ آپ نے بھی ان حضرات کی پوری قدرومنزلت کی ۔اعزاز میں اضافہ کیا۔ مزیدجاگیریں عطافرمائیں اور خدمات مفوضہ پربدستور باقی رکھتے ہوئے ان حضرات کی اولادوں کی بھی عزت افزائی کی جو خود بھی علم وفضل سے مالامال تھے۔ البتہ مولاناخلیل الرحمٰن صاحب اور نواب وزیرالدولہ کی زیادہ عرصہ نہیں بنی۔ اس کشیدگی کااصل سبب وہ بنیادی نظریاتی اختلاف تھا جودونوں میں اگرچہ پہلے سے پایاجاتا تھا لیکن تخت ریاست پرفائز ہوجانے کے بعد یہ ارتباط زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ یہ وہ دور تھا جب کہ مولاناحیدرعلی صاحب وغیرہ ۱۲۵۲؁ھ مطابق ۱۸۳۶؁ء میں ٹونک منتقل ہوچکے تھے۔ مولاناخلیل الرحمٰن صاحب اور مولانا حیدرعلی صاحب کے درمیان اختلافی مسائل میں پہلے سے مباحثہ جاری تھا۔ نواب وزیرالدولہ اگرچہ رئیس وقت تھے لیکن مولاناخلیل الرحمٰن صاحب بھی سخت ولایتی اور پکے حنفی تھے۔ اس لئے نواب سے زیادہ نبھائو نہیں ہوسکا۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں مولاناخلیل الرحمٰن صاحب ٹونک کی سکونت ترک کرکے چلے گئے اور بالآخرگلشن آباد جاورہ کووطن بنایا۔ موصوف کی اولاد میں کچھ افراد ٹونک میں قیام پذیررہے اور کچھ افراد جاورہ منتقل ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خاندان کے سلسلہ کی ایک شاخ اب تک جاورہ میں آبادہے۔

          مولاناخلیل الرحمٰن صاحب کاانتقال جاورہ میں ہوا۔ ان کی اولادیں بزمانہ نواب وزیرالدولہ حکیم عبدالعلی اور مولوی عبدالحق باعزت زندگی گذارتے تھے ۔ حکیم عبدالعلی صاحب ایک فاضل کی حیثیت سے باوقار تھے۔ مولوی محمدصاحب مفتی کاانتقال بھی نواب وزیرالدولہ کے دورمیں ہوا۔ ان کے انتقال پر نواب نے ان کی اولاد کے نام ایک تعزیت نامہ لکھ کربھیجاجومحفوظ ہے اور اس کی نقل مولوی محمدصاحب کے حالات میں اسی تذکرے میں شامل ہے ۔ مولوی محمدصاحب مفتی تاحیات عدالت شریعت سے متعلق رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے پسرمولوی عبدالکریم صاحب کوجاگیر کے علاوہ نکاح خوانی کی خدمت بھی سپرد کی گئی ۔ نواب صاحب کی کچھ اولاد کی تربیت بھی اسی خاندان کے سپرد تھی ۔ چنانچہ نواب محمدعلی خاں نے اسی خاندان میں تربیت پائی اور مدت تک مولوی محمدصاحب کے مکان واقع محلہ امیرگنج میں اسی تربیت کے سلسلہ میں مقیم رہے۔ مولوی سعداللہ صاحب کاانتقال بھی نواب وزیرالدولہ کے دورمیں ہوا۔ موصوف تاحیات جامع مسجد امیرگنج میں خدمت خطابت انجام دیتے رہے۔ ان کے انتقال پر ان کے پسرمولوی فضل حق صاحب کو جامع مسجد کاخطیب مقررکیاگیا جو نہایت قابل انسان تھے اور متعدد تراجم وکتب کے مصنف ہیں۔

          ۱۲۸۱؁ھ مطابق ۱۸۶۴؁ء میں نواب وزیرالدولہ کاانتقال ہوا تونواب محمدعلی خاں مسند ریاست پر فائز ہوئے موصوف نے ان خاندان کے تمام افراد کومفوضہ خدمات پر باقی رکھتے ہوئے جاگیروں میں مزید اضافہ فرمایا۔ ابھی چارسال کی مدت بھی نہیں گذرنے پائی تھی کہ نواب محمدعلی خاں صاحب معزول ہوکربنارس منتقل ہوگئے اور نواب ابراہیم علی خاں صاحب تخت نشین ہوئے۔ مولوی عبدالکریم صاحب چوں کہ نواب محمدعلی خاں کے استاد زادے تھے اس لئے نواب صاحب ان کا بہت احترام کیاکرتے تھے ۔ مولوی صاحب کوبھی نواب سے بیحدمحبت تھی ۔ اس تعلق کانتیجہ تھاکہ غالباً  ۱۲۹۳؁ھ مطابق ۱۸۷۶؁ء میں مولوی عبدالکریم صاحب نے نواب سے ملاقات کرنے کی غرض سے بنارس کاطویل سفر اختیار کیا اور سفربھی پیدل کیا۔ اس سے ہر دو حضرات کے دلی تعلق کااظہارہوتاہے۔

          نواب ابراہیم علی خاں صاحب اگرچہ بہت کم عمر میں نواب ہوگئے تھے لیکن اس خاندان کے وقار اور خاندانی افراد کی اہلیت وقابلیت سے باخبر تھے اس لئے ان کے دور میں بھی یہ خاندان دینی خدمات انجام دیتارہا۔ خود نواب ابراہیم علی خاں مولوی عبدالکریم صاحب کی اس قدرعزت فرمایاکرتے تھے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ راستہ میں نواب صاحب کی سواری جارہی ہو اور اتفاق سے اسی راہ سے مولوی عبدالکریم صاحب گذررہے ہوں تو نواب صاحب نے آپ کو اپنے ہمراہ سوار نہ کرالیاہو۔ اس طرح خاندان کے دوسرے افراد بھی معزز زندگی گذارتے رہے۔مولوی فضل حق صاحب خدمت امامت وخطابت کے علاوہ ریاست کے کتب خانوں کے نگراں رہے نیزریاست کی دوسری خدمات بھی انجام دیتے رہے ، قاضی عبدالحلیم صاحب مفوضہ خدمات کے علاوہ کامیاب مطب بھی فرمایاکرتے تھے۔ قاضی محمدعرفان صاحب اسی دور میں عدالت شریعت کے مفتی مقررہوئے۔

          نواب سعادت علی خاں صاحب نے اپنے دادا نواب محمدعلی خاں صاحب کی نگرانی میں تربیت پائی تھی اور ابتدائی عمرکااکثرحصہ علماء کی صحبت میں گذاراتھا اس لئے آپ دوسری صلاحیتوں کے ساتھ علم نواز اور علماء کے قدردان بھی تھے۔ اس علمی خاندان کے مراتب اور کارگذاریوں سے پوری طرح باخبرتھے۔ چنانچہ حکیم ظہیرالدین صاحب ناظم شریعت کے سبکدوش ہوجانے کے بعدا س جلیل القدر عہدہ کے لئے نواب کی نظرِ انتخاب اسی خاندان کے فردمولوی حکیم قاضی محمدعرفان خاں صاحب پر پڑ ی اور آپ کو عدالت شریعت کا ناظم مقررفرمایا۔ اسے حسن اتفاق کہہ لیجئے یا اس خاندان کی خوش قسمتی کہ قیام ریاست کے بعدسب سے پہلے عدالت شریعت قائم ہوئی تو اس عدالت کاپہلا ذمہ دار شخص اسی خاندان کے ایک فرد مولوی محمدصاحب مفتی کوبنایاگیا اور ۱۹۴۸؁ء میں تقسیم ہند وانضمام ریاست کے بعد حکومت کی جانب سے اس عدالت کاباضابطہ اختتام کیاگیا ہے۔ تو اس وقت بھی اسی خاندان کے مقبول ترین فرد مولوی قاضی محمدعرفان صاحب ناظم شریعت تھے۔ موصوف کی پینشن ہوگئی اور عدالت شریعت کاسلسلہ ختم ہوگیا۔ لیکن اس کے بعدبھی نکاح وطلاق کے اکثرمعاملات آپ ہی سے متعلق رہاکرتے تھے۔ افتاء کاپورا دارومدار آپ کی ذات گرامی پرتھا۔ صرف ٹونک ہی سے نہیں، بلکہ قرب وجوار کے تمام علاقوں نیز ہندوستان کے اکثرشہروں سے استفتاء جات آتے اور آپ کی مہر ودستخط سے مزین ہوکر واپس جایا کرتے تھے۔ تاحیات یہ سلسلہ جاری رہا ۔ موصوف کاانتقال ہوجانے کے بعد سے اس خادم کو یہ تمام خدمات انجام دیناہوتی ہیں۔

          حالات کی عام تبدیلی اور ماحول کے عمومی تغیر کی وجہ سے اگر چہ اب وہ علمی سلسلے نہیں رہے ہیں پھربھی یہ خاندان اس دور میں بھی تعلیم وتعلم اور دینی ودرسی خدمات سے متعلق ہے۔ تقسیم ملک اور انتقال آبادی کی وجہ سے خاندان ہذاکے متعد د سلسلے منتقل ہوکر پاکستان چلے گئے یااپنے معاشی وسائل کی فراہمی میں ملک کے دوسرے حصوں میں آباد ہیں پھربھی علمی جامعیت اور درس وافتاء کے سلسلہ میں مرکزیت اب بھی اس خاندان میں باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کوقبول فرمائے۔

          یہ تھے وہ مختصر خاندانی حالات جوپیش لفظ کے طورپر میں تحریرکرناچاہتاتھا تذکرہ عرفانیہ جو علیحدہ ترتیب دیاگیاہے اور اسی کتاب کاایک حصہ ہے اس کے دیباچہ میں بھی خاندان کے مختصرحالات لکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے حالات میں کچھ تکرار نظرآتی ہے۔

          بہرحال تاریخِ ہذا اور ان حالات کے فراہمی کے سلسلے میں کوشش کے باوجود کچھ فروگذاشتیں رہی ہیں ان کے لئے میں عذرخواہ ہوں۔ اسباب ووسائل باقی نہ رہنے کی وجہ سے متعدد حالات تشنہ ہیں، جس کی تکمیل کی کوئی صورت نظرنہیں آتی۔ اس لئے انہی حالات میں انہیں شامل کیاگیاہے۔ خاندان کے جن افراد تک کبھی یہ ذخیرہ پہنچے اور ان کے علم کی حد تک اس میں کسی تصحیح یاکسی اضافہ کی ضرورت ہو تو براہ کرم مطلع فرمائیں یااس کی اصلاح کا جوذریعہ بھی ممکن ہو اسے اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ مجھے مسرت ہوگی اور اس میں کسی طرح کاکوئی عذرنہیں ہوتا۔

                                                                    احقرالزمان

                                       حکیم محمدعمران خان

                 ابن مولوی حکیم محمدعرفان خانصاحب مرحوم ناظم عدالت شریعت ٹونک

                             عمرانی دواخانہ ،محلہ امیرگنج، ٹونک راجستھان

                       ۳۰؍ستمبر ۱۹۶۸؁ء مطابق ۶؍ رجب ۱۳۸۸؁ھ روز دوشنبہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے