آخرمیں ان مضامین یاکتب ورسائل کی تفصیل بیان کردینا بھی غیرمناسب نہیں جو اپنی ذاتی دلچسپی یاتحقیق کے پیش ترتیب دیے گئے۔ شائع شدہ مضامین کے حوالے بھی درج ہیں :
کتب ورسائل مرتبۂ خود :
۱۔تذکرہ علماء ٹونک ۲۔خطبات المسائل ۳۔قافلۂ مجاہدین ۴۔سفرالحرمین
۵۔تاریخ خاندانِ عرفانی ۶۔مرادالمفتی ترجمہ ۷۔ فہرست مؤلفات السیوطی
تحقیقی مضامین :
۱۔ عوارف المعارف کاایک قدیم نسخہ معارف اعظم گڑھ جون ۱۹۶۶ء جلد ۹۷ ، عدد ۶
۲۔ ٹونک کے قدیم مدارس او رکتب خانے (۳ قسط)
’’ ’’ اگست تااکتوبر ۱۹۶۶ء ،جلد۹۹، عدد ۳
۳۔ معین بن محمودکشمیری اور ان کی تصانیف ’’ ’’مارچ ۱۹۶۷ء جلد ۹۹، عدد ۳
۴۔ کتب خانہ عرفانیہ کے نادرمخطوطات (۳ قسط)
’’ ’’ مارچ مئی ودسمبر ۱۹۶۸ء ،جلد۱۰۱، عدد۳ و ۵، جلد ۱۰۲، عدد۶
۵۔ مولاناحیدرعلی ٹونکی برہان دہلی، جلد۵۷، شمارہ ۶
۶۔ فنِ سیرت اور نواب محمدعلی خاں
برہان دہلی، فروری مارچ ۱۹۶۸ء(۲قسط) جلد۶۰، شمارہ ۲و۳
۷۔ مولاناحیدرحسن خاں او ران کی تصانیف (۳قسط)
تعمیرحیات لکھنؤ ۲۵؍اکتوبر، ۱۰؍نومبر، ۲۵؍نومبر ۱۹۶۷ء ،جلد۴، شمارہ ۲۲، جلد۵، شمارہ ۱ و ۳
۸۔ ہنگامۂ غدر اور ٹونک رسالہ آج کل اردو دہلی، جلد۲۶، عدد۱۰، مئی ۱۹۶۸ء
۹۔ ٹونک میں کتابت او رفنِ خوش نویسی زیرترتیب
۱۰۔ شخصیات، نقشہائے خاتم کے آئینہ میں زیرترتیب
دینی واصلاحی مضامین :
۱۔ ڈاڑھی کی مقدار۔سہ روز ہ ’’الانصاف‘‘ ۵؍جنوری ۱۹۶۲ء م ۶؍ربیع الآخر ۱۳۷۱ھ
۲۔ عشرہ محرم کی شرعی حیثیت ’’ ’’۲۱؍اکتوبر۱۹۵۲ء م یکم صفر ۱۳۷۲ھ
۳۔ گرہن اسلامی نقطۂ نظرسے ’’ ’’۲۸؍جنوری ۱۹۵۳ء م ۱۱؍ربیع الآخر ۱۳۷۲ھ
۴۔ خطبہ نکاح کی حقیقت( ۲ قسط) ’’ ’’
۵۔ شب براء ت کی حقیقت ’’ ’’
۶۔ عیدالفطر (ہندی) دھرتی کی آواز جے پور جنوری ۱۹۶۶ء
نیازو بھائی قلاقند والے کے بڑے صاحبزادے نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ پکے بندے گوٹ کرنے گئے ہوئے تھے سبھی علماء بھی تھے کہ کسی نے مدھومکھی کاچھتہ اڑادیا اور ہمیں مدھومکھی نے کاٹ لیا۔ اسی وقت مولانا عمران صاحبؒ نے ایک بوٹی توڑی اور جس جس کے کاٹاتھا، ان کے لگادی ، فوری طورپر اس کا اثر ختم ہوگیا۔
(از مرتب)
حکیم سیدمحمداحمدصاحب
حکیم سیدمحمداحمدبن حافظ سیدسعیدالدین احمدصاحب بن کپتان سیدبدرالدین صاحب بن سیدمحفوظ الدین بن سیدنورالدین صاحب۔
آپ کے اجداد ولایت کے رہنے والے تھے۔ پیرزادوں کی اولاد میں ہیں۔ شریف النسب خالص سیدہیں۔ جدامجدسیدنورالدین ولایت سے آکررامپور میں مقیم ہوئے اور ملا اَیرَم کے تالاب میں آبادہوئے ،بمن پوری میں بھی اس خاندان کے افرادآباد رہے ہیں۔ سیدنورالدین کے بعدسیدمحفوظ الدین کازمانہ بھی رامپور میں گذرا۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ سیدبدرالدین اور سیدعلی سید۔ ایک بیٹی بھی تھی۔ دختر کی اولاد اور سید علی سید رامپور رہے۔ سیدبدرالدین صاحب ٹونک منتقل ہوگئے۔ آپ کی اولاد ٹونک او ربھوپال میں آباد ہے۔ تفصیلی شجرہ بھی ان حالات کے بعدآخرمیں شامل ہے۔
حکیم سیدمحمداحمدصاحب کاحال بیان کرنے سے پہلے کپتان بدرالدین صاحب اور ان کی اولاد کے ضروری حالات بطور یادگار درج کئے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ کپتان صاحب ٹونک میں اچھی شہرت کے مالک تھے۔ کپتان سیدبدرالدین صاحب رامپور میں پیداہوئے۔ وہیں تربیت پائی۔بچپن ہی سے نہایت جری، بہادر اور من چلے تھے۔ مزاج میں خودداری تھی اس لئے پندرہ بیس سال کی عمرہی میں کسی وجہ سے رامپور چھوڑ کرگوالیار چلے گئے اور وہاں مہاراجہ کے باڈی گارڈ کے سواروں میں ملازم ہوگئے اور عزت کے ساتھ ملازمت کی خدمات انجام دیتے رہے۔
ایک بارمہاراجہ گوالیار نے کہیں سے لال مرچ خصوصیت سے ذریعہ پارسل منگوائی۔ مرچ نہایت تیزتھی۔ پارسل وصول ہوا تو راجہ نے بطور تذکرہ مرچ کی تعریف کی اور کہاجو شخص یہ مرچ کھاسکتاہو اور شُو تک نہ کرے اسے انعام دیاجائے گا۔ کپتان صاحب سے نہیں رہاگیا اور فوراً اپنے آپ کوپیش کردیا اورکہاکہ میں یہ مرچ کھاسکتاہوں۔ چنانچہ راجہ کے سامنے آپ نے وہ مرچ کھائی او ر اس کی تیزی کو اس طرح ضبط کیاکہ کسی طرح اس کا اظہارنہیں ہوسکا۔ مہاراج کو تعجب ہوا اور حسب وعدہ آپ کوسواروں کا افسربنادیا۔