تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

          ایک روز اتفاق سے آپ کے کسی متعلقہ افسرنے ویسے ہی ایک چابک ماردیا۔ آپ سے ضبط نہ ہو سکا۔ فوراً ہی تلوارنکال لی اور جواباً اس افسر کے ماردی اور اسی وقت ملازمت چھوڑکرٹونک کے لئے روانہ ہوگئے۔ آپ کے ماموں کپتان اختربلندخاں پہلے سے ٹونک میں تھے اور نہایت بااثرتھے۔ ٹونک آکرماموں کے پاس مقیم ہوئے۔ کپتان اختربلند خاںنے آپ کو یہاں صوبہ دار بنادیااور اپنی بیٹی فرخندہ بی سے آپ کانکاح کردیا۔

          کپتان بدرالدین صاحب نواب وزیرالدولہ کے آخری دور میں ٹونک منتقل ہوگئے تھے ۔ لاوہ کی جنگ میں آپ شریک تھے جس کے صلے میں آ پ کو پینشن ملتی رہی ہے اور آپ کے بعدآپ کی اولاد تک کویہ پینشن ملی ہے۔ کپتان اختربلندخاں کے انتقال کے بعد سید بدرالدین صاحب کپتان ہوگئے۔ آپ عابدی پلٹن کے کپتان تھے۔ صاحبزادہ احمد یارخاں صاحب اس زمانہ میں فوج کے جرنل تھے۔ کپتان بدرالدین صاحب کے تعلقات نائب عبیداللہ خاں سے تھے او ربہت زمانہ سے تھے۔ نائب صاحب صاحبزادہ احمدیار خاں صاحب سے رنجیدہ تھے۔ اس لئے کچھ عرصہ بعدنائب صاحب نے کپتان صاحب کونوکری چھوڑ دینے پرمجبورکردیا اور ماہانہ آپ کی پینشن کرادی۔

(یہ پینشن جنگ لاوہ کے صلے کے نام سے ہوئی تھی اور اس تفصیل کے ساتھ ہوئی تھی کہ دس دس روپیہ دو بیٹوں کے نام اور پانچ روپیہ زوجہ ثالث کے نام۔ مدت تک یہ پینشن ملتی رہی۔ بعد میں پینشن زوجہ ثانی کی اولاد سید زین العابدین صاحب وسید سعیدالدین صاحب کوملنے لگی۔ لیکن ہر دو کے جاورہ ومحمدگڑھ منتقل ہوجانے کے بعدیہ پینشن بندہوگئی۔

          ٹونک میں نائب عبیداللہ خاں نے جب کپتان صاحب سے ملازمت ترک کرادی تو آپ کوذخیرہ کا افسربنادیا۔ پھرآپ مودی خانہ کے افسر بنادیے گئے۔ نائب صاحب کے انتقال کے بعدان راجگان و نوابان کی مہمانداری آپ کے سپرد ہوئی جو دن رات ریاست میں آتے جاتے رہتے تھے۔ اسی طرح بیگمات کہیں آیاجایا کرتیں تو ان کی نگرانی کی خدمت بھی آپ کے سپرد رہی۔ قرب وجوار کے راجے، مہاراجے اور والیان ریاست آتے اور یہاں مہمان ہواکرتے توکپتان صاحب کی مہمانداری، میزبانی اور ضیافت سے بڑے محظوظ ہوتے اور سب سے زیادہ آپ کی ظرافت اور حاضرجوابی سے متاثر ہوکرجاتے۔ اسی وجہ سے ان ریاستوں میں آپ کاتعارف زیادہ اور اثرات اچھے تھے۔

          نواب اسمٰعیل علی خاں والی ریاست جاورہ کے بعدنواب افتخار علی خاں کم عمری میں نواب ہوئے یارمحمدخاں نے کپتان بدرالدین صاحب کوبھی جاورہ بلالیا۔ نواب صاحب کی اتالیقی سپرد ہوئے۔ ایک مکان دیاگیا۔ نہایت عزت واحترام کے ساتھ آپ کو رکھاگیا۔ شام کاکھانانواب کے ساتھ کھایاکرتے تھے پسران میں سے سید محمددین اور سید زین العابدین ساتھ تھے۔ غالباً ۱۹۰۴؁ء کے بعدہی آپ جاورہ منتقل ہوگئے تھے اور بقیہ عمرجاورہ ہی میں بسرہوئی۔ ۲۷؍رمضان ۱۳۲۸؁ھ م  ۱۹۱۰؁ء روز دو شنبہ کوجاورہ میں انتقال ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ٹونک میں طاعون پھیلاہواتھا۔ دن رات اموات ہورہی تھیں۔ اسی زمانہ میں آپ کے انتقال کی اطلاع جاورہ سے ٹونک میں ملی۔

          ۱۹۰۰؁ء میں کپتان صاحب نے اعزہ سے ملنے کے لئے رامپور کاسفر کیاتھا۔ ایک سال وہاں قیام بھی رہا۔ سید سعیدالدین صاحب اور سیدزین العابدین صاحب پسران ساتھ تھے۔ ۱۹۰۱؁ء میں رامپور سے واپسی ہوئی۔ کپتان اختر بلندخاں کی دخترسے شادی ہوجانے کے بعدآپ کے فرزند اول سید بشیرالدین پیداہوئے۔ اس وقت اثرات کایہ حال تھا کہ نواب صاحب ٹونک نے اس بچہ کو روز پیدائش سے صوبہ داری کاعہدہ عطا فرمایادیاتھا۔

          آپ کے پسر سیدزین العابدین صاحب غالباً ۱۳۰۴؁ھ میں نیماہیڑہ میں پیداہوئے جب کہ کپتان صاحب وہاں سپہ سالار کی حیثیت سے مقیم تھے۔ جب کپتان صاحب جاورہ منتقل ہوئے تو یہ بھی اپنے والدکے ساتھ جاورہ چلے گئے اور وہاں اہلمد ہوگئے۔ والدصاحب کے انتقال کے بعدآپ بھوپال چلے گئے اور ولی عہد صاحب کے جنگلات کے افسر مقررہوئے۔ پھروہاں انجینئرہوگئے او رایک طویل زمانہ بھوپال میں گذارا۔ پھرآپ ٹونک منتقل ہوگئے اوریہاں کونسل میں اہلمدہوگئے۔ پھرسیشن کورٹ میں تبادلہ ہوگیا اور یہیں سے پینشن حاصل کی جو آخرعمر تک ملتی رہی۔ پھر آپ حج کو تشریف لے گئے ۔ مکہ معظمہ میں آپ پر لقوہ وفالج کااثرہواجس کے اثرات آخرعمر تک باقی رہے۔ آخرمیں آپ بہت کمزور اور معذور ہوگئے تھے ۔ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۶۴؁ء کوٹونک میں آپ نے داعیٔ اجل کولبیک کہا۔ آپ حکیم محمداحمدصاحب کے عم حقیقی تھے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے