تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مقدمہ

جناب مولاناسیدابوالحسن علی ندوی

ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

بر

تاریخ عرفانی

الحمدللہ وکفیٰ وسلام ٌ علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ

یوں تومسلمانوں کے عہداقبال اور زمانۂ اقتدار میں ہندوستان کاہرشہر اور ہر بڑاقصبہ شیرازِ یمن کاہمسر بناہواتھااور بڑی بڑی باکمال ہستیاں کثیرتعداد میں پیدا ہورہی تھیں جنہوں نے درس وتدریس ،ارشاد وتربیت کی شمعیں روشن اور افادہ وافاضہ کی مجلسیں آراستہ کررکھی تھیں۔لیکن جب خزاں کادور دورہ ہوا اور مسلمانوں کی آزاد سلطنت کا چراغ گُل ہوا توہندوستان کے مختلف حصوں میں حوصلہ مند، عالی خاندان اور شاہین صفت پٹھانوں ، روہیلوں اور ترکمانوں نے ریاستیں قائم کرلیں، جوان خانماں برباد اور ستم رسیدہ خاندانوں کاملجا وماویٰ بن گئیں جو ان کو ان مقامات پرحاصل تھا۔

پھرچوں کہ یہ بانیانِ ریاست اور ان کے اخلاف جوہرشناس شریف پرور اور علم وہنر کے سچے قدردان تھے اوراپنی ریاست کااستحکام اس کی شہرت وعظمت کاراز اور برکت ورحمت کاذریعہ یہی سمجھتے تھے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ تعداد میں اہل قلوب، صاحبان کمال، خادمانِ دین وعلم اور نامور علماء واساتذہ جمع ہوں ۔ اس لئے وہ دور دور سے ان ہستیوں کو بلاتے اور اگر کوئی صاحب کمال ان کی ریاست کاقصد کرتا تو اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے، سر پر بٹھاتے اور دل وآنکھوں میں جگہ دیتے اور ان کے لئے اسباب راحت وفراغت اور علم ودین کی خدمت واشاعت کے مواقع مہیاکرتے۔

انہیں ریاستوں میں ’’محمدآباد ٹونک‘‘بھی ایک ریاست ہے جو اگر چہ ریگزار راجپوتانہ میں واقع ہوئی تھی لیکن وہ اپنے بانیٔ ریاست نواب امیرخاں کی دیندار ی وجوہرشناسی کی وجہ سے اس ریگستان میں ایک نخلستان کی حیثیت رکھتی تھی جو علمی ودینی حیثیت سے ایک نہایت شاداب وزرخیزخطہ تھا۔ بانیٔ ریاست کے ایک شریف ونجیب پٹھان اور افغانی النسل ہونے کی وجہ سے قدرۃً سب سے زیادہ کشش افغانستان وصوبۂ سرحد کے افغانی النسل علماء واہل کمال کو تھی، جن کے اور نواب مرحوم کے درمیان نسل ونسب، معاشرت وعادات اور زبان کااشتراک تھا۔ چنانچہ کابل وقندھار پشاورو کوہاٹ، سوات وبنیر، نجیب آباد ورامپور سے متعدد علماء فضلاء، صاحب صلاحیت وباہنرشرفاء ونجباء تشریف لائے۔ انہیں باکمال افراد میں ملا عرفان صاحب رامپوری کاخاندان بھی تھا۔ جس کے افراد نواب مرحوم کے دور میں ٹونک تشریف لائے او رنواب نے ان کی شرافت خاندانی اور ان کی فضیلت علمی کی بناپر ان کی شایان شان پذیرائی کی اور انہوں نے نوزائیدہ ریاست میں طرحِ اقامت ڈال دی اور انہوں نے اور ان کی اولاد نے ریاست کے دینی مناصب سنبھالے اور ریاست کے انضمام تک اہم ترین دینی عہدے، ذمہ داریاں، قضاء ، افتاء ، فصل خصومات واجراء احکام شرعی، جامع مسجد کی امامت وخطابت وغیرہ اسی خاندان میں رہیں۔

 یہ حسن اتفاق ہے کہ اس ریاست کے اعلیٰ ترین دینی منصب کاآغاز بھی ملا عرفانی رامپوری کی اولاد سے ہوا اور اس ریاست کے آخری آزاد شرعی حیثیت کااختتام بھی اسی خاندان کے چشم وچراغ قاضی عرفان صاحب ٹونکی پر ہوا جو شرعی محکمہ کے آخری ذمہ دار اور ٹونک کے آخری قاضی و مفتی تھے۔ اس خاندان میں بکثرت علماء اساتذہ وصاحب علم وفضل پیداہوئے۔ میرے محسن ومحبوب استاد حضرت مولانا حیدرحسن خاں صاحب شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ جن سے میں نے اول سے آخر تک حدیث پڑھی اور بڑے بڑے ندوی فضلاء کو ان سے شرف تلمذ ہوا، اسی خاندان کے نواسے تھے۔ آخر میں اس خاندان کی یادگار مولاناقاضی محمدعرفان خاں صاحب ہی رہ گئے تھے، جن کی زیارت سے میں بارہا مشرف ہوا ہوں۔

 بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ مولاناقاضی عرفان صاحب کے صاحبزادے مولانا محمد عمران خاں صاحب نے اپنے خاندان والاشان اور اپنے اجداد کرام کے حالات منضبط کئے جو ذرا سی غفلت وتاخیرسے تلف ہوجاتے۔ یہ ہندوستان کی علمی تاریخ کاایک گمشدہ ورق ہے جو اس ریاست کے ایک گوشہ میں ہونے اور تذکرہ نگاروں اور تاریخ نویسوں کی کوتاہ نظری وکم ہمتی کی وجہ سے نگاہوں سے اوجھل رہاتھا۔ مولانا محمد عمران خاں صاحب کوخدا نے بہت اچھا تاریخی ذوق عطا کیاہے اور ان کو تاریخی واقعات وسنین معلوم کرنے اور محفوظ رکھنے کابڑاسلیقہ ہے۔ ان کے متعدد مضامین، علماء ٹونک کے حالات اور ٹونک کے کتب خانوں کی نادر کتابوں کے تعارف میں ہندوستان کے بلندپایہ علمی رسالہ معارف میں شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے بھی نزہۃ الخواطر جلد ہشتم کی تکمیل کے سلسلہ میں ان کی معلومات سے استفادہ کیا ہے اور وقتاً فوقتاً ان کوتکلیف دیتارہاہوں۔

اب یہ مستقل مجموعہ جس کا ان سے بہتر مرتب کرنے والاشایدہی کوئی ہو۔ کیوں کہ صاحب البیت ادریٰ بما فیہٖ  نگاہوں کے سامنے آرہاہے۔ امید ہے کہ شوق ودلچسپی سے پـڑھاجائے گا اور اس سے ہندوستان کی جامع علمی تاریخ اور تذکرہ کے مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے مرتب کرنے کاشاید کبھی کسی کوخیال آئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو کامیاب وقبول فرمائے۔ آمین

مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۹۷۰؁ء  م  ۱۳؍محرم  ۱۳۹۰؁ھ 

روز یک شنبہ ، بوقت ۳ بجے

دستخط حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی ؒ

دائرہ شاہ علم اللہ صاحبؒ      

رائے بریلی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے