خطاب جمعہ برائے 6 جنوری 2023ء (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)
عورتوں سے حسن سلوک
الحمد للّٰه رب العالمين و الصلٰوة و السلام علٰى رسوله الكريم أما بعد! قال اللّٰه تعالٰى في القرآن المجيد، أعوذ باللّٰه من الشيطان الرجيم، يٰٓأيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا، وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَا اٰتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ (النساء: ۱۹)
اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کرکے اس مہر کا کچھ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو؛ ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کی مرتکب ہوں۔ اور ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔
انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ کی بنیاد مرد و عورت کے پاکیزہ تعلقات پر ہے، اگر یہ تعلقات خوش گوار ہیں تو خاندان میں نظم و ضبط اور استحکام ہے اور اگر ان تعلقات میں ناخوش گواری اور کھینچ تان ہے تو خاندان پریشان اور برباد ہے، تعمیر و ترقی سے محروم اور اللہ کی رحمت سے دور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو یکساں اہمیت دی ہے اور دونوں کو مناسب ذمہ داریوں کا متحمل بنایا ہے، مرد کو بال بچوں کے نان نفقہ اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار بنایا ہے اور عورت کو گھر کی حفاظت اور بچوں کی نگہداشت اور پرورش کا ذمہ دار بنایا ہے، یہ دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔ رسول پاک فرماتے ہیں: الرجل راع على أهل بيته و المراة راعية على أهل بيت زوجها و ولده، فكلكم راع و كلكم مسئول عن رعيته. (بخاری، کتاب الأحکام، باب قول اللّٰه أطیعوا اللّٰه و أطیعوا الرسول و أولی الأمر منکم۔) مرد اپنے اہل خانہ کا نگراں ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی نگراں ہے، تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اپنی نگرانی کے سلسلہ میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کی تکمیل و تسکین کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور دونوں کے حقوق ایک دوسرے پر مقرر کیے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ. (البقرۃ–۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔
میاں بیوی دونوں کو برابر کے حقوق اور فرائض کا ذمہ دار قرار دینے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے شوہر کو بیوی پر معمولی فضیلت عطا کی ہے اور اس کی وجہ بھی دوسری آیت میں واضح کی ہے کہ مرد پر بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ہے اور فطری بات ہے کہ کفیل اور ذمہ دار کو زیر کفالت افراد پر برتری ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: الرَّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَ بِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِهِمْ (النساء–۳۴) مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔
شوہر اگر گھر کا نگراں اور منیجر ہے تو اسے گھر کے مسائل کو اہل خانہ کے مشورہ سے حل کرنا چاہیے، ڈکٹیٹر بن کر حکم نہیں چلانا چاہیے، گھر کے لوگوں کی عزت و احترام کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات کی پابندی کے کرنی چاہیے۔
اسلام سے پہلے عرب کے سماج میں بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں عورتوں کو عزت و احترام کا مستحق نہیں سمجھا جا تا تھا، ان سے بدسلوکی کی جاتی تھی، ان پر ظلم کیا جاتا تھا اور ان کے مال و جان پر ناجائز قبضہ جمایا جاتا تھا، اسلام نے جاہلیت کے اس غیر انسانی عمل کو ختم کر دیا، اور عورتوں کو یکساں عزت و احترام کا مستحق قرار دیا، خاص طور پر بیوی کی عزت و اکرام کو بہت پاکیزہ اور بلند مرتبہ تک پہنچا دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید کی۔
رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے حسن سلوک کرنے اور ان کی عزت و تکریم کو مردوں کی شرافت کا معیار بنایا ہے۔ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: خيركم خيركم لأهله و أنا خيركم لأهلي (ترمذی، أبواب المناقب) تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنی فیملی کے لیے بہتر ہو اور میں تم لوگوں میں اپنی فیملی کے لیے سب سے زیادہ بہتر ہوں۔
ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا: إن من أكمل المومنين إيماناً أحسنهم خلقاً و خياركم خياركم لنساءهم۔ (ترمذی، أبواب الإیمان، باب ما جاء في استکمال الإیمان) مومنوں میں سب سے کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہو اور تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے سلسلہ میں بہتر ہیں۔
آپ نے دیکھا اور سنا ہوگا کہ بہت سے لوگ جو باہر کی دنیا میں، مجلسوں میں، دفتروں میں بہت مہذب شریف اور باوقار نظر آتے ہیں، جب اپنے گھر میں جاتے ہیں تو بیوی بچوں پر ظلم ڈھاتے ہیں، ان کے حق میں ظالم اور سفاک ہو جاتے ہیں، بہت سے بظاہر دیندار بھی یہی حرکت کرتے ہیں یہ سب جاہلیت کی عادتیں ہیں جن کو اسلام ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔
حضرت ایاس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو یہ کہہ کر بیوی کو مارنے سے منع فرمایا: ’’لا تضربوا إماء اللّٰه‘‘ اللہ کی بندیوں کو نہ مارو، چنانچہ صحابۂ کرام نے اس پر عمل کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عمر حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے عورتیں اپنے شوہروں پر جری ہوگئی ہیں اور ان کی تادیب کی اجازت چاہی، حضور نے اجازت دے دی، پھر تو بہت سی عورتیں حضور اللہ کے گھر آئیں اور اپنے شوہروں کی بدسلوکی کا شکوہ کرنے لگیں، تب نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا: لقد طاف بآل بيت محمد نساء كثير يشكون أزواجهن ليس اولئک بخیارکم۔ (أبوداؤد، کتاب النکاح، باب في ضرب النساء)
بہت سی عورتوں نے محمد ﷺ کے گھر کا چکر لگایا، یہ عورتیں اپنے شوہروں کی بدسلوکی کا شکوہ کر رہی تھیں، ان سے بدسلوکی کرنے والے تم میں سے اچھے لوگ نہیں ہیں۔
حضور ﷺ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں بھی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی تھی، آپ نے فرمایا تھا: اتقوا الله في النساء فإنهن عوان في أيديكم أخذتموهن بأمانة الله و استحللتم فروجهن بكلمة الله. (مسلم، کتاب الحج) عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اس لیے کہ وہ تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور ان کی شرمگاہیں تم پر اللہ کے کلمہ کی وجہ سے حلال ہوئی ہیں۔
دینی تعلیم اور شرافت کی کمی کی وجہ سے آج بھی بہت سے مسلمان اپنی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کر رہے ہیں، بہت سے شوہر اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتے اور گناہ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، بہت سے شوہر اپنی بیوی کا نان و نفقہ نہیں دیتے، بہت سے شوہر بیوی کو میکے چھوڑ آتے ہیں، بہت سے شوہر مدتوں ان سے نہیں ملتے، نہ ان کو رکھتے ہیں اور نہ آزاد کرتے ہیں بلکہ معلقہ بناکر چھوڑ دیتے ہیں، بہت سے شوہر جوانی میں ان سے استفادہ کرتے ہیں اور جب ان کی عمر ڈھلتی ہے یا وہ بیمار ہوتی ہیں تو ان سے بےتوجہی برتتے ہیں، یہ سب حرکتیں انسانیت سے گری ہوئی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ ایک ساتھ رہنے سہنے سے بعض تکلیفیں بھی ہوتی ہیں، بعض باتیں نا موافق بھی ہوتی ہیں اور بعض عادتیں ناپسندیدہ بھی ہوسکتی ہیں۔
اللہ کا حکم یہ ہے کہ ان چیزوں پر صبر کرو اور حکمت سے ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرو، جہاں تک اصلاح کی گنجائش ہو، ایسا نہ ہو کہ ان سے نفرت کرنے لگو اور وہ سلوک اپناؤ جو تمہاری غیرت اور شرافت کو داغ دار کردے۔
رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: لا يفرك مومن مومنة ان كره منها خلقا رضى منها آخر. (مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء) کوئی مومن مرد کسی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے اگر وہ اس کی بعض عادتوں کو ناپسند کرتا ہے تو اس کی دوسری عادتوں سے وہ خوش بھی ہوتا ہے۔
بیویوں کی کمزوری کو نظر انداز کرنا اور ان پر سختی نہ کرنا بلکہ مہربانی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا مہذب انسان اور مہذب معاشرہ کی پہچان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا لباس قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ أَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ۔ (البقره–۱۸۷) عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔
لباس کی تین اہم خوبیاں ہیں: (۱)انسان کے جسم کی حفاظت کرتا ہے۔ (۲)پردہ پوشی کرتا ہے۔ (۳)زینت اور راحت ہے۔
ٹھیک اسی طرح مرد و عورت ایک دوسرے کے محافظ ہیں، پردہ پوش ہیں اور زینت و راحت ہیں۔
بہت سے مرد ایسے ہیں جو وراثت میں عورتوں کو ان کا جائز حق نہیں دیتے۔ عورتوں کی یہ حق تلفی شوہروں کے بجائے ان کے والدین اور بھائیوں کی طرف سے ہوتی ہے، بہت سے والدین اپنی زندگی ہی میں اپنی دولت بیٹوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور بیٹیوں کو برائے نام کچھ دیتے ہیں یا جہیز میں سامان دینے کا بہانہ بناکر اسے محروم کر دیتے ہیں، بہت سے بھائی ایسے ہیں جو ماں باپ کا ترکہ خود ہڑپ کر لیتے ہیں اور بہنوں کو کچھ نہیں دیتے۔
حالاں کہ وراثت میں عورتوں کا حصہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ انسانوں کو اختیار نہیں ہے کہ وہ ان سے چھین لیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوْضًا. (النساء: ۷) مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ مقرر ہے۔
جو لوگ عورتوں کا حق وراثت چھین لیتے ہیں، ان کو مال و جائیداد میں حصہ نہیں دیتے، اس حصہ سے ان کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی دوسرے کی زمین جائیداد پر قبضہ کر لیا جائے، جس طرح اس کی آمدنی حلال نہیں ہوتی اس طرح اس کی آمدنی بھی درست نہیں ہوگی۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ خواتین کی عزت و تکریم کریں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اسلامی احکام کا پاس و لحاظ کریں اور اسلامی معاشرہ کو بدنامی اور ذلت سے بچائیں، اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ (آمین)
و آخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
ہر ہفتہ خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے اپنا نام، پتہ اور وہاٹس ایپ نمبر ارسال کریں: