مضمون نگاری: اہمیت و افادیت، مضمون نگاری کیا ہے؟

مضمون نگاری: اہمیت و افادیت

خالد سیف اللہ صدیقی
فاضل دارالعلوم دیوبند

مضمون نگاری کیا ہے؟

اپنے احساسات و خیالات اور اپنے جذبات و تاثرات کے مرتب، مدلل اور مؤثر تحریری اظہار کا نام ’’مضمون نگاری‘‘ ہے۔

’’مضمون‘‘ یوں تو بہت سے لوگ لکھتے ہیں؛ لیکن صحیح معنوں میں ’’مضمون‘‘ اسی کو کہا جائے گا، جس میں اس کی خوبیاں بھی پائی جاتی ہوں۔ غیر مرتب، غیر مدلل اور پیچیدہ خیالیوں پر مشتمل تحریریں بہت کچھ ہو سکتی ہیں؛ مگر ’’مضمون‘‘ نہیں۔

ہم بات کرنا چاہتے ہیں مضمون نگاری کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے۔ مضمون نگاری کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس کی بڑی اہمیت و افادیت ہے۔ فی الحال اس حوالے سے صرف یہ چند مختصر باتیں پیش ہیں:

۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مضمون نگاری اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ایک نہایت اہم اور مؤثر ترین ذریعہ ہے۔

۲۔ دوسری بات یہ کہ مضمون نگاری کی وجہ سے انسان کا نام صدیوں اور زمانوں تک زندہ اور پائندہ رہ سکتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ اس چیز کی ہوس بری ہے۔) علامہ راشد الخیری، ڈپٹی نذیر احمد، سر سید احمد، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ابو الاعلی مودودی، خواجہ حسن نظامی، مولانا عبد الماجد دریا بادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، آغا شورش کاشمیری، مولانا عامر عثمانی، ابن صفی مرحوم اور مرحوم ماہر القادری وغیرہ کے نام جو آج بھی دنیا میں زندہ اور تابندہ ہیں، اس کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ یہ حضرات اپنے دور کے بہترین قلم کار، اچھے مضمون نگار اور زبر دست انشا پرداز تھے۔

۳۔ تیسری بات یہ کہ مضمون نگاری مال و دولت کے حصول کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ جب کسی کو اچھی مضمون نگاری آ جائے، تو وہ مختلف اداروں، تعلیم گاہوں اور اکیڈمیوں وغیرہ میں اپنی تحریری اور تصنیفی خدمات انجام دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے بہتر سے بہتر اور معقول سے معقول معاوضہ اور تنخواہ حاصل ہو سکتی ہے۔ اخبار و رسائل اور صحافتی میدانوں میں بھی وہ اتر کر اپنی قسمت آزمائی کر سکتا ہے۔ اس مناسبت سے ایک مختصر سا واقعہ بھی سنتے چلیے:

دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث میں دوران درس دارالعلوم کے ہی ایک معروف و مقبول استاذ گرامی اور مربی و مرشد (جن کا ابھی ہم نام نہیں لینا چاہتے) نے بیان کیا کہ دارالعلوم میں بعض ایسے بھی طلبہ ہوتے ہیں، جو اپنی مضمون نگاری اور قلم کاری کے ذریعے ماہانہ بیس بیس ہزار روپے تک کماتے ہیں۔ وہ شان دار اردو لکھتے ہیں۔ انہیں زبان و قلم پر ماہرانہ دست رس اور فن کارانہ دست گاہ حاصل ہوتی ہے۔

۴۔ چوتھی بات یہ کہ مضمون نگاری کے ذریعے انسان اپنے معاشرے میں اپنا ایک ممتاز اور بلند مقام بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کو اس کے ذریعے عزت و شہرت اور نام و نام وری بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ (ہر چند کہ ان چیزوں کی طلب و خواہش اچھی نہیں)

۵۔ پانچویں بات یہ کہ جس طرح ایک ماہر کلام و طلیق اللسان شخص اپنی مہارت کلامی اور طلاقت لسانی کے ذریعے اپنے مد مقابل اور فریق مخالف کو لاجواب کر دیتا ہے، اسی طرح ایک اچھا قلم کار اور ایک با کمال مضمون نگار بھی اپنی تحریر کے ذریعے بہ آسانی کسی بھی حریف و مخالف کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

۶۔ چھٹی بات یہ کہ اگر بالفرض کسی کے پاس علم بہت ہو؛ لیکن اسے لکھنا اور بولنا نہ آتا ہو، خصوصاً وہ لکھنے سے قاصر ہو، تو وہ اپنے علم کی اشاعت نہیں کر سکتا۔ ہوگا یہ کہ جب اس کی موت آئے گی، اور اسے قبر میں اتار دیا جائے گا، تو اس کے ساتھ ساتھ اس کا سارا علم بھی قبر میں دفن ہو جائے گا۔

۷۔ ساتویں بات یہ کہ دینی اور اسلامی کتابوں میں جہاں جہاد کی اقسام کے تحت ’’جہاد بالسیف‘‘ اور ’’جہاد باللسان‘‘ وغیرہ کا ذکر ملتا ہے، وہیں نمایاں طور پر ’’جہاد بالقلم‘‘ کا بھی ذکر ملتا ہے۔

امید ہے، ہماری ان مختصر سی باتوں سے آپ کو مضمون نگاری کی کچھ اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ (ختم شد)


یہ بھی پڑھیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے