تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت و ضرورت، مضمون نگاری

تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت و ضرورت

از قلم: محمد اطہر قاسمی

اگر آپ کو مضمون نگاری سیکھنی ہے اور ایک اچھا مضمون نگار و مقالہ نگار بننا ہے تو اس مضمون کو اخیر تک ضرور پڑھیں۔

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے کہ کسی بھی زبان میں وقف کی کیا اہمیت ہوتی ہے؛ کیونکہ بولتے ہوئے اگر درست جگہ وقف نہ کیا جائے تو مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ بولتے ہوئے وقف کا خیال رکھنا آسان ہوتا ہے؛ کیونکہ متکلم اپنی مراد کو بخوبی سمجھتا ہے اور اسی اعتبار سے وہ وقف کرتا ہے۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کوئی بات لکھتے ہیں۔ کسی تحریر کو پڑھتے ہوئے قاری کس جگہ وقف کرے کہ محرر کی مراد بالکل درست رہے؟ اس کے لیے تحریر میں علامات وقف کا استعمال کیا جاتا ہے، جسے رموزِ اوقاف بھی کہتے ہیں۔ محرر ان نشانات کے ذریعے قاری کو بتا سکتا ہے کہ تحریر کو پڑھتے ہوئے کہاں، کس طرح اور کتنا وقف کرنا ہے کہ محرر کی مراد درست رہے اور قاری آسانی سے محرر کی مراد سمجھ سکے۔

کوئی مضمون یا مقالہ نقل کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسی عبارتوں کو جن کے مجموعہ سے کوئی خاص مقصد متعلق ہو، ان عبارتوں سے علیحدہ کر دیں جن کا مقصد دوسرا ہو۔

علیحدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سطر بدل دیں یعنی پیراگراف تبدیل کردیں۔ ہر پیراگراف کی ابتدا ایک انگلی یا ایک لفظ یا پانچ نقطے کے برابر جگہ چھوڑ کر کریں۔ اگر آپ کمپیوٹر میں لکھ رہے ہیں تو یہ کام Tab بٹن دبا کر آسانی سے کر سکتے ہیں۔

کمپیوٹر میں لکھنا ہاتھ سے لکھنے سے کچھ مختلف ہے۔ لہذا کمپیوٹر میں لکھتے وقت الفاظ کے درمیان space (فاصلہ) دینے کا خاص خیال رکھیں۔ دو لفظ کے درمیان اگر آپ اسپیس نہیں دیں گے (اسپیس بٹن ایک بار نہیں دبائیں گے) تو کمپیوٹر، سرچ انجن اور براؤزر اسے ایک لفظ سمجھیں گے۔

مذکورہ علامات کو لکھتے وقت ان کے اور لفظ کے درمیان کے تعلق کو سمجھیں پھر اسی اعتبار سے اسپیس بٹن دبائیں۔ جیسے اگر کاما، سوالیہ نشان، ندائیہ/ فجائیہ، رابطہ، وقفہ (، ؟ ! : ؛) یہ علامات ہوں تو لفظ کے فوراً بعد اسپیس دیے بغیر اسے لکھیں گے پھر اسپیس بٹن دبائیں گے۔

واوین اور قوسین (’’ ‘‘) لکھتے ہوئے جیسے ہی ان علامات کو شروع کریں تو ان کے اور لفظ کے درمیان اسپیس نہ دیں، اسی طرح جب ان علامات کو بند کریں تو لفظ اور ان علامات کے درمیان اسپیس نہ دیں۔

مثال: ایشیا میں (جو سب سے بڑا بر اعظم ہے) ہندوستان، پاکستان، افغانستان، ایران وغیرہ ہیں۔

ص

منھ کے بل گرکے’’ھُوَ اللّٰهُ أَحَد‘‘کہتے تھے

تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت و ضرورت

رموز اوقاف اور ان کے استعمال کے طریقے

نقشہ

1 سکتہ (چھوٹا ٹھہراؤ) Comma ،
2 وقفہ (ٹھہراؤ) Semi colon ؛
3 رابطہ Colon :
4 ختمہ (وقف تام) Full Stop ۔
5 سوالیہ نشان Question Mark ؟
6 ندائیہ/فجائیہ Exclamation Mark !
7 خط Dash
8 واوین Quotation Mark ’’ ‘‘
9 قوسین Brackets ()

10

علامت حذف  

علامات کی تفصیل

آئیے اب ہم ان علامات کو تھوڑی تفصیل سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

(۱) سکتہ/ کاما (،)

یہ مختصر ترین وقفہ کی علامت ہے؛ متکلم اس جگہ اپن سانس توڑتا ہے؛ لیکن ٹھہرتا نہیں۔ اس علامت کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے، قدم قدم پر اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ درج ذیل مثالیں دیکھیں:

(الف) خصوصاً الفاظ معطوفہ کے درمیان۔ جیسے: محبت، اخلاق، نرم خوئی اور دل جوئی کے ذریعے، مشکل سے مشکل کام آسان ہوجاتا ہے۔

(ب) مختلف جملہ ہائے معطوفہ کے درمیان بھی کاما کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: قرآن پاک خدا کی آخری کتاب ہے، محمد ﷺ خدا کے آخری نبی ہیں، اسلام خدا کا آخری دین ہے، حدیث رسول شریعت کی تفسیر ہے اور عربی زبان پر عبور، کتاب و سنت کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنے کی کلید ہے۔

(ج) شرط اور جزا کے درمیان بھی کاما آتا ہے۔ جیسے: اگر ہم جانتے داغِ جدائی، نہ کرتے اتنی الفت تم سے بھائی

(د) کسی طویل جملے کے مختلف اجزاء کے درمیان بھی کاما کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: میں گھر سے بازار گیا، بازار سے بس اڈے گیا، وہاں سے اسٹیشن گیا، اب اسٹیشن سے گھر واپس جارہا ہوں۔

دوسری مثال: ایک قادر الکلام واعظ نے، رات کو ایک بڑے جلسے میں، ایسی ایمان افروز تقریر کی کہ بہت سے سامعین آبدیدہ ہوگئے، در و دیوار سے نعرہ ہائے تحسین بلند ہوئے اور غیر مسلموں پر بھی اچھا خاصا اثر ہوا۔

(ھ) کسی عبارت اور شعر میں، طوالت یا الفاظ کے الٹ پھیر سے پیدا ہونے والی پیچیدگی کو دور کرنے کے لیے بھی کاما کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:

نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو، بہار تو ہے

طراوتِ چمن و خوبیٔ ہوا، کہیے

تار ریشم کا نہیں، ہے یہ رگِ ابر بہار

(۲) وقفہ (؛) Semi colon

یہ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں متکلم یا قاری کے لیے سکوت کے ساتھ، سانس لینے کی بھی جائز ہو۔

(الف) متعدد لفظوں کے درمیان جب سکتے کی علامت (،) لگی ہو، تو جملے کے آخری جز سے پہلے وقفے کی علامت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے: دہلی، بمبئی، کلکتہ، مدراس؛ یہ سبھی ہندوستان کے بڑے شہر ہیں۔

(ب) اگر جملہ کے مختلف اجزاء پر زیادہ زور دینا ہو تو وہاں بھی وقفہ (؛) استعمال کرتے ہیں۔ جیسے:

آنا، تو خفا آنا؛ جانا، تو رلا جانا

آنا ہے، تو کیا آنا؛ جانا ہے، تو کیا جانا

جو جاگے گا، سو پائے گا؛ جو سوئے گا، وہ کھوئے گا

(ج) جب جملوں کے ایسے دو حصوں کو ایک دوسرے سے علاحدہ کرنا ہو جن میں اندرونی طور پر سکتہ (،) موجود ہو۔ یعنی دونوں جملوں میں سکتے کی علامت کے ذریعے ایک ہی نوعیت کی، دو یا دو سے زائد باتیں کہی گئی ہوں؛ ان کے دریان وقفے کی علامت استعمال ہوتی ہے۔ جیسے: ابن المقفع کی الأدب الکبیر، الأدب الصغیر، کلیلہ و دمنہ؛ جاحظ کی البیان و التبیین، کتاب البخلاء؛ عربی زبان و ادب کی بہترین کتابیں ہیں۔

گنگا، جمنا، گھاگھرا اور گومتی شمالی ہند کی؛ مہاندی، گوداوری، کرشنا اور کاویر؛ جنوبی ہند کی بڑی ندیاں ہیں۔

(۳) ختمہ (۔) Full stop

اس علامت کا استعمال، جملے کے مکمل ہونے کے وقت کیا جاتا ہے، جہں قاری کے لیے بھرپور ٹھہراؤ کی گنجائش ہوتی ہے۔

یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ انگریزی اور عربی زبانوں میں، جملے کی تکمیل کی علامت؛ یعنی ختمہ یا فل اسٹاپ کو بتانے کے لیے نقطہ (.) استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کے لیے چھوٹا سا ڈیش (۔) استعمال کیا جاتا ہے۔

مثال: کسی کمال کے حصول کے لیے پیہم محنت ضروری ہے۔ ایک انسان اسی وقت ترقی کرتا ہے، جب وہ آرام و راحت کو تج دیتا ہے۔ آرام پسند اور عافیت طلب آدمی کسی کام کا نہیں ہوتا۔

(۴) رابطہ (:) Colon

اس علامت کا استعمال، کسی کے قول یا کہاوت کی نقل، نیز جملے کی تفصیل سے پہلے یا مفصل کے اجمال سے پہلے ہوا کرتا ہے۔ جیسے: بزرگوں کا قول ہے: ’’صبح کا بھولا شام کو گھر آئے، تو بھولا نہیں کہتے۔‘‘

کیا خوب سودا نقد ہے: اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے (نظیر اکبر آبادی)

(۵) سوالیہ نشان (؟)

یہ علامت سوالیہ جملوں کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ جیسے: کیا آپ حج کو جا رہے ہیں؟ کیا کل مدرسے میں چھٹی ہے؟

(۶) ندائیہ/ فجائیہ (!)

(الف) یہ علامت، منادیٰ –یعنی جس کو پکارا جائے- کے بعد لگائی جاتی ہے۔ جیسے: حضرات!، سامعین کرام!، دوستو!

(ب) اسی علامت کو ان الفاظ اور جملوں کے بعد بھی استعمال کرتے ہیں، جن سے کسی جذبے کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ جیسے: ناراضگی، حقارت، استعجاب، خوف یا نفرت وغیرہ۔ اس صورت میں اس علامت کو فجائیہ کہا جاتا ہے۔ جیسے:

’’میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں!‘‘

سبحان اللہ!، بہت خوب!، معاذ اللہ!، افوہ!، وہ اور رحم! اس کی امید فضول ہے۔

جذبے کی شدت کے وقت حسب ضرورت ایک سے زیادہ علامتیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ جیسے: سناہے کہ درندے، اب انسان کی جانوں کی حفاظت کا کام کریں گے!!

(۷) خط (-)

(الف) اس علامت کا استعمال، جملۂ معترضہ کے شروع اور آخر میں کیا جاتا ہے۔ جیسے: میری رائے ہے –اگرچہ میں کیا اور میری رائے کیا؟- کہ آپ اس سلسلے میں جلدی نہ کریں۔

خدائے پاک نے –جو قادر و عزیز ہے- اپنی کتاب کی حفاظ کی ضمانت لی ہے۔

(ب) جب کئی لفظ، کسی سابقہ لفظ کی تشریح میں لکھے جائیں، تو وہاں بھی یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے: سارا شہر –درخت، مکانات، سڑکیں- کہرے کی لپیٹ میں آگیا تھا۔

دار العلوم دیوبند –نہ صرف دار العلوم دیوبند، بلکہ سارے مدارس اسلامیہ- اس وقت بنیاد پرستی کے الزام کی زد میں ہے۔

(۸) واوین (’’ ‘‘)

(الف) کسی کتاب اور تحریر کا کوئی اقتباس نقل کرنا ہو یا کسی کا قول اسی کی زبان میں لکھنا ہو، تو اس کے شروع اور آخر میں واوین (’’ ‘‘) لگاتے ہیں۔ جیسے: خواجہ الطاف حسین حالی، میر تقی میرؔ کے اس شعر کے متعلق لکھتے ہیں:

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید ہی کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریبان کے چاک میں

’’میرؔ نے باوجود غایت درجہ کی سادگی کے، ایسے متبذل اور پامال مضمون کو اچھوتے، نرالے اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے۔‘‘

(ب) کسی خاص اصطلاح، کتاب کے نام، انسانوں، جگہوں اور شہروں کے نام کو بھی، واوین میں لکھا جاتا ہے۔ جیسے: حالی نے مرزا غالب کو ’’حیوان ظریف‘‘ کہا ہے۔

ہمارے بہت سے علماء، مولانا سید محمد میاں دہلوی کو ’’حیوان کاتب‘‘ کہتے اور لکھتے تھے۔

(۹) قوسین ( )

(الف) اس علامت کا استعمال ایسے طویل جملۂ معترضہ کے شروع شروع اور آخر میں کیا جاتا ہے، جس کے درمیان سکتوں کا استعمال کیا گیا ہو۔ جیسے: منیٰ کے حادثے سے (جس کو عالمی ذرائع ابلاغ نے خاص مقصد کے تحت خوب اچھالا، کچھ دانشور مسلمانوں نے بھی اس پر زبان و قلم کی مشق کی اور نام نہاد سیکولر ذہن صحافیوں نے عرصے تک اس پر طبع آزمائی کی۔) سب سے زیادہ تکلیف قدرتی طور پر، مسلمانوں ہی کو ہو سکتی تھی اور ہوئی۔

(ب) کسی وضاحتی جملے یا لفظ کو؛ نیز کسی عبارت کو جس کی طرف توجہ مبذول کرانی مقصود ہو؛ قوسین کے درمیان لکھتے ہیں۔ جیسے: حضرت الامام مولانا نانوتوی کی کتابیں (جو سبھی مطبوعہ و متداول ہیں۔) اسلام کو عقلی دلائل کی روشنی میں اس طرح پیش کرتی ہیں کہ اس کی حقانیت آئینہ ہوجاتی ہے۔

دوسری مثال: میرا قلم (جو میں نے کل ہی خریدا تھا) کہیں غائب ہوگیا۔

تیسری مثال: جگر مراد آبادی (مشہور شاعر) اپنے سینے میں گداز دل رکھتے تھے۔

بعض لوگوں نے خط و قوسین کو ایک دوسرے کا ہم رتبہ مان کر یہ فیصلہ دیا ہے کہ دونوں ہی جملۂ معترضہ کے لیے استعمال ہوں گے۔ کاتب کے رجحان پر منحصر ہے کہ وہ خط کا استعمال کرے یا قوسین کا؛ لیکن میرا مطالعہ یہ ہے کہ قوسین کا استعمال صرف طویل جملۂ معترضہ ہی کے لیے کرنا چاہیے یا تشریحی جملوں اور الفاظ کے لیے، جیسا کہ مثالوں میں آپ نے دیکھا۔ چھوٹے جملۂ معترضہ کے لیے اور دیگر ان مقاصد کے لیے، جو اپنے موقع پر ذکر کی گئی ہیں؛ خط ہی استعمال کرنا چاہیے۔

(مذکورہ تفصیل کا اکثر و بیشتر حصہ کچھ حذف و اضافہ کے ساتھ مولانا نور عالم خلیلی امینیؒ کی کتاب ’’حرف شیریں‘‘ سے ماخوذ ہے۔

اخیر تک پڑھنے کا شکریہ! اگر یہ مضمون کسی کے کام آسکتا ہے تو اس کے ساتھ شیئر کریں۔ اگر کوئی رائے ہو تو کمنٹ کرکے بتائیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے