سیرت النبی پر تقریر، مسابقاتی تقریریں، اردو تقریر

سیرت النبی پر تقریر

ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں

وَ مَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَ الصَّلاةُ و السَّلامُ عَلٰى سَيِّدِ المُرْسَلِيْن، الَّذِيْ أَرْسَلَهُ اللهُ رَحْمَةً لَّلْعَالَمِيْن، أَمَّا بَعْد۔

سیرت النبی پر تقریر

زمانے میں پیمبر بھی نبی بھی آئے
مصلح ملی و ملکی بھی رشی بھی آئے
آئے دنیا میں بہت پاک مکرم بن کر
کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر

صدر باوقار، حَکَم صاحبان اور سامعین عظام!

میری تقریر کا عنوان قرآن مجید کی یہ آیت ہے: ’’وَ مَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ‘‘

حضراتِ گرامی قدر!

اللہ تعالی نے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس خزانۂ رحمت میں دوست و دشمن، کافر و مسلم، آقا و غلام، انسان و حیوان ہر ایک صِنْفِ ہستی برابر کی حصہ دار ہے۔

شمعِ رسالت کے پروانو!

جس وقت نبوتِ محمدی کا آفتاب اس عالم پر چمکا، انسانیت سرد لاشہ تھی۔ انسانیت کی جگہ خاردار جنگل اگ آئے تھے۔ حوادثِ زمانہ نے آریہ ورْت کے غاروں کو درندوں کا بھٹ بنا دیا تھا۔ زرتُشْت کی سلگائی ہوئی آگ انسانی خون کے چھینٹوں سے سرد ہو چکی تھی۔ فتنوں اور ہنگاموں کی آندھی میں حضرت موسیٰ کا چراغِ طور بھی گل ہوگیا تھا۔ دنیائے انسانیت حضرت عیسیٰ کے تزکیۂ نفس کو بھلا چکی تھی۔ نفسِ انسانی کی مَلَکُوتی طاقت، جذباتِ خبیثہ کے دیوتا کے سامنے پامال ہو چکی تھی۔ انسانیت کے عطرِ معنبر کی خوشبو انسان کے جسدِ خاکی سے اڑ چکی تھی۔

ایسے نازک دور میں جبالِ بطحاء کی چوٹیوں سے امید کا آفتابِ عالم تاب اپنی رحمت کی کرنیں بکھیرتا نظر آتا ہے، اور بنی نوعِ انسانی کے ضابطۂ مساوات کا اعلان اس طرح کرتا ہے: ’’لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلىٰ عَجَمِيٍّ، وَ لَا لِعَجَمِيٍ عَلىٰ عَرَبِيٍّ، وَ لَا لِأَبْیَضَ عَلیٰ أَسْوَدَ، وَ لَا لِأَسْوَدَ عَلیٰ أَبْیَضَ إلَّا بِالتَّقْویٰ‘‘

آپ ﷺ نے معاشرہ کے کمزور طبقہ کی خبر گیری کو نصرتِ خداوندی اور حصولِ رزق کا ذریعہ بتایا، فرمایا: ’’ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ‘‘

بیواؤں اور مسکینوں کی فریادرسی کرنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کہا، ارشاد ہوا: ’’السَّاعِيْ عَلَی الأَرْمَلَةِ وَ الْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِيْ سَبِیْلِ اللهِ‘‘

لڑکیوں اور یتیموں کی کفالت کرنے والوں کو اپنی مُصاحَبَت کا مژدہ سنایا، عورتوں کو دنیا کی عظیم ترین ہستی سے تعبیر کیا اور فرمایا: ’’الدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمرْأَۃُ الصَّالِحةُ‘‘

اللہ کے نزدیک بہتر پڑوسی اس کو بتایا جو اپنے پڑوسی کے لیے خیر کا باعث ہو، ارشادہ ہوا: ’’خَیْرُ الْجِیْرَانِ عِنْدَ اللهِ خَیْرُھُمْ لِجَارِہٖ‘‘

والدین کی خدمت کو نماز کے بعد سب سے بہتر عمل بتایا اور ان کو برا بھلا کہنے والوں کو گناہِ کبیرہ کا مُرْتَکِب ٹھہرایا، فرمایا: ’’إِنَّ مِن أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَّلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ‘‘

غلاموں کے ساتھ بیجا سلوک کرنے کا کفارہ خود غلام کو آزاد کردینا قرار دیا، ارشاد ہوا: ’’مَنْ لَطَمَ مَمْلُوْکاً أَوْ ضَرَبَهٗ فَکَفَّارَتُهٗ أَنْ یُّعْتِقَهٗ‘‘

رحمۃ للعالمین ﷺ نے عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور زخمیوں پر ظلم و ستم کرنا بالکلیہ ممنوع قرار دیا۔ بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑے پہنانا، زخمی کی مرہم پٹی کرنا، بیمار کی تیمار داری کرنا خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہر حال میں ضروری قرار دیا اور زبان رسالت یوں گویا ہوئی: ’’إِرْحَمُوْا مَنْ فِيْ الْأَرْضِ، یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِيْ السَّمَاءِ‘‘

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

حضرات!

ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ وراپا رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ رَحْمَةٌ لِّلْعَالَمِیْن کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہی مکہ جس کے باسی(۱) جنگ کی تلوار لیے آپؐ کے مقابلے میں کھڑے تھے، ان پر قحط کا زمانہ آتا ہے تو آپ ﷺ ان کے لیے رَسَد کا انتظام کراتے ہیں۔ بدر کے بندھے ہوئے قیدیوں کی کراہیں رحمۃ للعالمین کے گوشِ مبارک تک پہنچتی ہیں تو آپ کی نیند اڑ جاتی ہے۔ ان قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کرانے کے بعد ہی آپ کو سکون ملتا ہے۔ ہوازِن کے چھ ہزار قیدیوں کو ایک اپیل پر آپ رہا کردیتے ہیں۔ عمّ رسول کا قاتل وحشی اسلام کے آغوشِ رحمت میں آتا ہے تو اس کی جان و مال کو امان دی جاتی ہے۔

مسلمانوں کا خطرناک ترین دشمن ابوسفیان جب اسلام کے دامن میں آتا ہے تو آپ ﷺ اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کرکے اس کے گھر کو دار الامان بنا دیتے ہیں۔ عمیر بن وہب زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر رسول اللہ ﷺ کے قتل کے ناپاک منصوبے کے ساتھ آتا ہے اور پکڑا جاتا ہے، مگر رسول اللہ ﷺ اس کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔ ہندہ جیسی وحشی عورت بھی امن و امان پا جاتی ہے۔ خونخوار دشمن ابو جہل کا بیٹا عِکرمہ جب خدمت نبوی میں لایا جاتا ہے تو رحمت عالم ﷺ اس کو بھی امان دیتے ہیں۔

صفوان بن امیہ جیسا خطرناک دشمن بھی معاف کردیا جاتا ہے۔ ہبار بن اسود جو ایک حیثیت سے بنتِ رسول حضرت زینبؓ کا قاتل ہے، اتنا سخت مجرم بھی امن پاجاتا ہے۔ فتحِ مکہ کے موقع پر جبلِ تنعیم کے پیچھے سے ۸۰ خونخواروں کا ایک دستہ گرفتار کرکے لایا جاتا ہے، جو قتل نبوت کے درپے تھا، مگر رحمۃ للعالمین کے حکم سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فتحِ مکہ کے دن اسلام اور مسلمانوں کے سارے مجرموں کو معاف کردینے کا حکم ہوتا ہے۔

غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ہے: "وَ مَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ” مگر افسوس! آج دنیا ایک بار پھر وہیں پہنچ رہی ہے، جہاں سے رحمۃ للعالمین نے اسے نکالا تھا۔ ایسے ماحول میں نبوت محمدیؐ ہمیں آواز دے رہی ہےکہ:

رحمت کا ابر بن کے جہاں بھر میں چھائیے
عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے

وَ ما عَلَیْنا إلّا الْبَلاغ


(۱) باشندے، رہنے والے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے