نماز کے موضوع پر تقریر، نماز کی اہمیت، اطیب الکلام

نماز کے موضوع پر تقریر

’’نماز کی اہمیت‘‘

یہ تقریر ’’اطیب الکلام‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہاں صرف افادۂ عامہ اور تلاش و جستجو میں آسانی پیدا کرنے کے لیے شائع کی گئی ہے۔ PDF ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے کلک کریں۔

الحَمْدُ لِلّٰه رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلَامُ عَلىٰ سَيِّدِ الأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِيْن، وَ عَلىٰ اٰلِهٖ وَ أَصْحَابِهٖ أَجْمَعِيْن، أَمَّا بَعْدُ: فأعوذ باللّٰه من الشيطان الرجيم، بسم الله الرحمٰن الرحیم، ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّه فَصَلّٰی‘‘ وَ قالَ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم قُرَّةُ عَيْنِيْ فِيْ الصَّلوٰة، أَوْ كَمَا قالَ عَلَيْهِ الصَّلوٰةُ وَ السَّلَام۔

نماز کے موضوع پر تقریر

خالق نے کیا بنائی ہے نور نظر نماز
اندھیرا تھا جہاں میں اگر نہ ہوتی نماز

اے مسلمانو!

بہر غفلت یہ تیری ہستی نہیں
دیکھ جنت اس قدر سستی نہیں

حاضر ین کرام اور حضرات ذی احتشام!

آج مجھے اجازت دیجیے کہ میں مذہب اسلام کے سب سے اہم رکن پر روشنی ڈالوں۔ وہ اتنا اہم رکن ہے کہ قرآن کی سینکڑوں سے زیادہ آیات میں اس کام کے کرنے کا حکم اور تاکید آئی ہے۔ کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس کو نماز کا حکم نہ دیا گیا ہو اور اس نے اپنی امت پر اس کو پیش نہ کیا ہو۔

حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ’’فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ‘‘

حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو حکم ہوا ہے: ’’أَقِیْمُوْ الصَّلَاۃَ‘‘

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان کو طعنہ دیتے ہوئے کہا: ’’یَا شُعَیْبُ أَ صَلَاتُکَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرَكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَآئُنَا‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے کو ویران جگہ میں چھوڑ نے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلوٰةَ‘‘

حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی: ’’یَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلوٰۃَ‘‘

مجھے صرف یہ بتلانا ہے کہ حضرت آدمؑ سے لیکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک کوئی زمانہ، کوئی امت، کوئی دور ایسا نہیں گذرا جس میں نماز کا حکم نہ ہو۔

نماز دین کی کسوٹی ہے!

مسلمان بھائیو! نماز کو اللہ نے دین کے لیے کسوٹی بنایا ہے جو فرق کرتی ہے کون متقی ہے؟ کون شقی ہے؟ کون مسلمان ہے؟ کون شیطان ہے؟ لوگ تو آج اس کو ولی مانتے ہیں جس کی تعویذ سے آرام ملتا ہے۔ لوگوں کی نظروں میں ولی وہ ہوتا ہے جو صا حب کرامت ہوتا ہے۔ لوگ تو اس کو پیر مانتے ہیں جو عورتوں کو لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دیتا ہے۔ لوگ تو اس کو اللہ والا مانتے ہیں جو غیب کی باتیں بتلاتا ہے۔ لوگو! آؤ میں بتاتا ہوں کہ ولی کی پہچان کیا ہے۔ آؤ میں بتاؤں گا:

پیر کس کو بناؤ گے۔
قطب کس کو مانو گے
ابدال کون ہوتا ہے
امام کیسا ہوتا ہے

یہ کسوٹی جس کو نبی آخر الزماں، شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم آسمان سے جا کر لائے ہیں۔ اگر کوئی اس پر پورا اترتا ہے یعنی نماز کی پابندی کرتا ہے، پیر بھی بن سکتا ہے، قطب و ابدال بھی ہوسکتا ہے؛ لیکن اگر نماز نہیں پڑھتا تو اس کا جبہ قبہ پہننا اور داڑھی رکھنا کچھ کام کا نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ’’بَیْنَ العَبْدِ وَ بَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصِّلوٰۃِ‘‘ ترجمہ: بندے اور کفر کے درمیان صرف نماز کا فرق ہے۔

بچے کو نماز کا کب حکم دیا جاۓ؟

اولاد کی تربیت کرنے والو! آؤ تم بھی نبی کا فرمان سنتے جاؤ، صادق المصدوق رحمۃ للعالمین نے فرمایا جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم دو، جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو ترک صلوٰۃ کی صورت میں اس کی پٹائی کی جائے۔ امام سلیمان خطابیؒ جو کہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم ہیں فرماتے ہیں: کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر بچہ اس حال میں بالغ ہوا کہ وہ نماز نہیں پڑھتا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ آج کے دور میں پہلے تو بچے کو پیار پیار میں بگاڑ دیتے ہیں، بعد میں شکوے شکایت کرتے پھرتے ہیں۔ نمازی بنو اور اپنے متعلقین کو نماز کی طرف بلاؤ۔ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

جان بوجھ کر نماز ترک کرنا کتنا بڑا گناہ ہے!

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اور حالت اس کی یہ تھی کہ اس کا چہرہ زرد ہور ہا تھا، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہوگئی، برباد ہوگئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے معلوم کیا کہ آخر کیا ہو گیا؟ اس عورت نے کہا مجھ سے زبردست گناہ ہو گیا۔ آپ اللہ سے دعاء فرمادیں تاکہ اللہ مجھ کو معاف فرمادے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے یہ تو بتاؤ کیا گناہ ہوا؟ عورت نے بتلایا ’’اے اللہ کے نبی مجھ سے زنا کا صدور ہو گیا تھا پھر لڑکا پیدا ہوا تو میں نے اس کو قتل کردیا‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام غصہ ہوگئے اور اس عورت کو ڈانٹ کر فرمایا کمبخت دور ہوجا، اور لوگوں سے کہا جلدی کرو اس کو یہاں سے نکال دو کہیں اس کے گناہ کی نحوست سے ہمارے اوپر عذاب نازل نہ ہو جائے۔ وہ عورت نہایت ہی دلبستہ اور مایوس من التوبہ ہوکر چلی گئی۔

ادھر وہ آسمانوں اور زمینوں کا مالک یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھا۔ فوراً اللہ کی رحمت جوش میں آئی، حضرت جبرئیل کو موسیٰ کے پاس بھیجا گیا، حضرت جبرئیل نے موسیٰ سے کہا ’’اے موسیٰ! اللہ فرماتا ہے کہ تم نے یہ کیا کیا؟ خبردار موسیٰ تم نے ہماری گنہگار بندی کو واپس کیسے کردیا؟ تم نے اس سے یہ کیسے کہہ دیا کہ تیرا کوئی علاج نہیں۔ کیا تم زنا سے بڑا گناہ کوئی اور نہیں سمجھتے ہو؟ اے موسیٰ! یاد رکھو زانی اور قاتل سے بڑا گنہگار جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا ہے۔ (کتاب الکبائر ص۸۱)

دوستو اور بھائیو! اندازہ کرو کتنا سخت گنا ہوگا نماز کے ترک کرنے کا، اور ایک جگہ نبی نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّداً فَقَدْ كَفَرَ‘‘ جس نے جان بوجھ کر نماز کو ترک کیا تو اس نے کفر کیا۔ اللّٰهُمَّ احْفَظْنَا

اور دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’الصَّلوٰةُ عِمَادُ الدِّيْنِ فَمَنْ أَقَامَهَا أَقَامَ الدِّیْنَ، وَ مَنْ هَدَمَهَا هَدَمَ الدِّيْنَ‘‘ ترجمہ: نماز دین کا ستون ہے، جس نے اس کو قائم رکھا اس نے دین کو قائم رکھا اور جس نے اس کو گرادیا اس نے دین کو گرادیا۔ اس حدیث کے تحت حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ، عبد اللہ ابن مبارک، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت اسحاق فرماتے ہیں کہ نماز چھوڑ نے والا کافر ہو گیا۔ امام مالک، امام شافعی و امام محمد علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس کی گردن پر تلوار مار کر قتل کردیا جائے۔

ایک جگہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قُرَّةُ عَيْنِيْ فِيْ الصَّلوٰۃِ‘‘ ترجمہ: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے جب کوئی نبی کا امتی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور جب کوئی شخص نماز ترک کرتا ہے تو وہ نبی کو تکلیف پہنچاتا ہے۔

بے نمازی سے زمین کا ڈرنا!

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے، ایک بڑھیا کا تیل زمین پر گر گیا، زمین نے اس کو پی لیا جیسا کہ زمین کی خاصیت ہے۔ لوگو! بڑھیا کی ایمانی فراست دیکھو اور کتنے عدل و انصاف والی حکومت ہوگی کہ بھیڑیا اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی لیا کرتے تھے۔ بڑھیا اپنا مقدمہ لیکر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق کے پاس گئی اور زمین کے تیل چوس لینے کی شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور بڑھیا سے کہا اے بوڑھی اماں اس کو لے جاؤ اور جہاں تمہارا تیل گرا ہے وہاں اس کاغذ کو رکھ دو۔ بڑھیا گئی اور اس کو وہاں رکھا۔ جونہی وہ کاغذ وہاں پر رکھا گیا فوراً زمین لرز گئی اور کا نپنے لگی اور تیل اگل دیا لوگوں نے بڑا تعجب کیا۔ وہ کاغذ کھول کر دیکھا، اس پر لکھا ہوا تھا اے زمین یا تو بوڑھی اماں کا تیل واپس کردے ورنہ تیرے اندر میں کسی بے نمازی کو دفن کرونگا۔

دوستو اندازه کرو!

کہ جب بے نمازی سے زمین اس قدر ڈرتی ہے کہ کہیں میرے اندر بے نمازی کی وجہ سے جہنم کی حرارت نہ آ جائے تو ہمیں کتنا ڈرنا چاہئے۔ ایک موقع پر نبیؐ نے فرمایا تھا: ’’لَا سَھْمَ فِيْ الإِسْلَامِ لِمَنْ لَّا صَلَاۃَ‘‘ ترجمہ: اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں جو نماز نہیں پڑھتا۔ آج ہم کتنی نمازوں کو غائب کرتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔

یاد رہے اس کا ایمان ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے جو شخص نماز کا پابند نہیں ہوتا۔ خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی شیطان کے مکر و فریب میں آکر کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹک جائے۔

ایک حدیث میں ارشاد بھی ہے: ’’لَا دِيْنَ لِمَنْ لَا صَلوٰةَ لَهٗ، إنَّهَا مَوْضِعُ الدِّیْنِ كَمَوْضِعِ الرَّأْسِ‘‘ (طبرانی) ترجمہ: اس شخص کا دین نہیں جس کی نماز نہیں؛ اس لیے کہ نماز کا مقام دین میں ایسا ہے جیساکہ سر کا مقام بدن میں۔

ہائے افسوس! آج ہمارے دلوں سے نماز کی اہمیت نکل گئی۔ ایک زمانہ تھا کہ نماز کی قضا کا بھی تصور دل میں نہیں آتا تھا۔ صحابۂ کرام کی تاریخ اٹھاکر دیکھو۔ ایسے ایسے واقعات سے لبریز ملے گی۔

تابعین کے حالات کو دیکھئے، چالیس سال تک مسلسل عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے والے تو ملیں گے لیکن نماز چھوڑنے والا کوئی نہ ملے گا۔ اولیاء کی زندگیوں کو دیکھو ایمان تازہ ہوگا۔

بائیس برس کے بعد تکبیر تحریمہ فوت!

آپ دور نہ جائیں، قریب ہی زمانے کا واقعہ ہے۔ فقیہ العصر، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ کو آپ جانتے ہوں گے۔ وہ اپنے دور کے مفتی اعظم بھی تھے۔ پورے ہندوستان ہی کے نہیں بلکہ بیرون ممالک کے استفتاء بھی ان کے پاس آتے تھے، جن کے حضرت علمی اور تحقیقی جوابات دیتے تھے۔ موصوف ایک کامیاب مدرس اور استاذ کی حیثیت بھی رکھتے تھے اور صاحب عیال بھی تھے۔ ان تمام تر مشاغل کے باوجود نماز کا نہیں بلکہ نماز باجماعت کا اس قدر اہتمام تھا کہ بائیس سال تک تکبیر تحریمہ بھی فوت نہیں ہوئی۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ دار العلوم دیوبند میں دستار بندی کا جلسہ ہورہا تھا۔ اس میں ایک دن غالباً عصر کی نماز میں ایسا اتفاق ہوا کہ مولانا یعقوب صاحب نماز پڑھانے کے لئے مصلے پر پہنچ گئے اور حضرت گنگوہی کسی عذر کی بناء پر تھوڑی سی تاخیر سے پہنچے، جبکہ تکبیر اولیٰ ہو چکی تھی۔ سلام پھیرنے کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ وہ عظیم انسان جو بڑے بڑے حوادثات میں پریشان نہیں ہوتا تھا، جو عزیزوں کی موت کی خبر بڑے صبر و سکون سے سن لیتا تھا۔ جس کے چہرے پر غربت اور تنگدستی کی وجہ سے بھی پریشانی کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ آج اس کے چہرے پر رنج و غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ تلامذہ کو فکر لاحق ہوئی۔ مریدین پریشان ہوگئے۔ اہل تعلق نے رنج و غم کی کیفیت کو فوراً پہچان لیا، پوچھا گیا حضرت اتنے غمزدہ کیوں ہیں کیا حادثہ پیش آگیا؟ آپ نے بڑے رنج و غم کے ساتھ فرمایا ہائے افسوس! آج بائیس برس کے بعد تکبیر تحریمہ فوت ہوگئی ڈر رہا ہوں کہیں قیامت میں اس بات پر میری پکڑ نہ ہو جائے۔ (بحوالہ تذکرۃ الرشید)

عزیز دوستو!

یہ حالت تھی ہمارے اکابر کی اور ایک آج ہم ہیں جن کو نماز ہی کی بالکل پرواہ نہیں۔

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

آج مسجدیں ویران پڑی ہوئی ہیں، مسلمانو! یہ مسجدیں بددعاء کر رہی ہیں بچو ان کی بددعاء سے ورنہ تو ہلاک و برباد ہو جاؤ گے۔

اونٹ کا نبیؐ کے ساتھ باتیں کرنا!

ایک صحابی نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ایک مزدور آدمی ہوں، دن بھر میں اپنے اونٹ کے ساتھ مزدوری کرتا ہوں لیکن رات میں جب میں سوتا ہوں تو میرا اونٹ ایسی بھیانک آواز نکالتا ہے کہ میری نیند ٹوٹ جاتی ہے، یا نبی اللہ وہ بار بار اسی طرح کرتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ اونٹ کو میرے پاس لاؤ میں معلوم کروں گا کیوں وہ ایسی حرکت کرتا ہے وہ صحابی اونٹ کو لیکر آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رحمۃ للعالمین نے اونٹ سے فرمایا اے اونٹ تیرا مالک تجھ کو کھلاتا پلاتا ہے پھر تو کیوں اس کو رات میں پریشان کرتا ہے۔

اللہ نے اونٹ کو زبان دی اونٹ نے سلام کیا پھر عرض کیا یا رسول اللہ یہ میرا مالک ہے یہ دن بھر کام کرتا ہے میں بھی اس کی اطاعت میں کام کرتا ہوں لیکن اے اللہ کے نبی شام کے وقت جب ہم گھر آتے ہیں تو یہ مالک بغیر عشاء کی نماز پڑھے سو جاتا ہے میں اس مکان میں موجود ہوتا ہوں مجھے خوف ہوتا ہے کہ کہیں قیامت کے روز اللہ میری پکڑ نہ کر لیں کہ اے اونٹ تیرے برابر میں ایک بے نمازی سور ہاتھا تو نے اس کو نماز کے لئے کیوں بیدار نہیں کیا تھا؟ اے میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم میں باربار اس لیے چیخ  رہا ہوں تاکہ میرا مالک بیدار ہوکر اپنے مالک حقیقی کو راضی کرلے اب بتلائیے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ کسی شاعر نے کہا ہے:

کس قدر تم پہ گراں نماز کیلیے بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

امت محمدیہ کے علم بردارو!

بچہ کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان و تکبیر ہوتی ہے غور کرو کہ ہماری اذان و اقامت تو ہوئی نماز ہونے والی ہے اور اس سے پہلے کہ ہماری نماز پڑھی جائے ہم کو چاہیے کہ نماز پڑھیں جس کو نظم میں یوں بیان کیا گیا ہے

تکبیر و اذان تو کانوں میں ہو چکی
باقی رہی فقط تیری نماز اے بےخبر
جب مرتا ہے بےنمازی اے نمازیو
پڑھتے کیوں ہوں جنازۂ ناپاک پر نماز

حضرات سامعین کرام!

ہمیں ان عبرتناک واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ زمین بھی تارکِ صلوٰۃ کو پسند نہیں کرتی اگر ہم نمازیں چھوڑیں گے تو قبر میں جانے کے بعد زمین ہمارے ساتھ کیا معاملہ کر ے گی۔

اللہ ہم سب کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو نماز کی پابندی کرنے والا بنادے۔ آمین!

وَ مَا عَلَيْنَا إلَّا البَلاغ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے