شرک و بدعت پر تقریر، اچھی تقریریں، اردو تقریر

شرک و بدعت اور ہمارا فريضہ

ماخوذ از اچھی تقریریں جلد اول (PDF ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں)

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ كَفٰى وَ سَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفىٰ أَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيْ الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ وَ الْفُرْقَانِ الْحَمِيْدِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم بسم الله الرحمن الرحيم، إنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَالِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ، وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ظَلَّ ضَلَالاً بَعِيْداً، وَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ، وَ أَيْضاً قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِيْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِيْ فَلَهٗ أَجْرُ مِأَۃِ شَهِيْدٍ۔ صَدَقَ اللهُ وَ رَسُوْلُهُ النَّبِيُّ الْكَرِيْم

شرک و بدعت پر تقریر

خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید

محترم بزرگو اور دوستو!

آج کی اس محفل میں میرا موضوعِ سخن وہ بدعات و خرافات ہیں جن میں دور حاضر کے مسلمان مبتلا ہیں۔ رب ذوالجلال نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا ہے: بلاشبہ اللہ پاک نہیں بخشے گا اس بات کو کہ اس کی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک قرار دیا جائے اور شرک کے ماسوا گناہ کو بخش دے گا جس کے لئے چاہے گا اور جو شخص خدا کی خدائی میں دوسرے کو شریک کرتا ہے تو وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔

اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پیاری زبان سے ارشاد فرمایا کہ جس نے ہمارے اس دین و مذہب میں دین سے ہٹ کر کوئی بات پیدا کی تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے نیز سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ پیغام سنایا کہ امت میں فساد کے وقت جس نے میری سنت کو مضبوطی سے تھام لیا تو اس کے لیے بشارت ہے خوشخبری ہے کہ سو شہیدوں کا اجر حاصل کرے گا۔

لائق صد احترام، معزز سامعین کرام!

میں حیران و پریشان ہوں کہ کس کس بدعت کو بیان کروں؟ سماج میں پھیلی ہوئی بدعات و خرافات کا تذکرہ کروں یا اعمال شرکیہ پر روشنی ڈالوں؟

عؔ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ چھیڑوں داستاں کیسے

ایک طرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب اور مختار کل تصور کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ہم سب کی ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے۔ کہیں غیر اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا بتایا جاتا ہے تو کہیں بدعتوں کو فروغ دے کر مسلمانوں کے عقائد پر ناپاک حملہ ہو رہا ہے۔

پیارے دوستو!

آج کا انسان شرک و بدعت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ پیشانی جو صرف اور صرف خدا کے سامنے جھکنی تھی غیر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ شرک لوگوں میں پھیل رہا ہے اور خالص توحید سے دوری ہے۔ دعویٰ ایمان کا ہے اور شرک میں گرفتار ہیں۔ مشکل کے وقت پیروں اور پیغمبروں کو، اماموں اور شہیدوں کو، فرشتوں اور پریوں کو پکارا جاتا ہے۔ ان سے مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ اولاد کا سوال ہوتا ہے۔ ان کے لیے نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ بَلا اور مصیبت کو ٹالنے کے لیے اپنے بیٹوں کو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

کوئی عبد النبی رکھتا ہے۔
کوئی علی بخش نام رکھتا ہے۔
کوئی حسین بخش نام رکھتا ہے۔
کوئی پیر بخش نام رکھتا ہے۔
کوئی مدار بخش نام رکھتا ہے۔
ہے کوئی سالار بخش نام رکھتا ہے۔

کہا جاتا ہے ان کا پکارنا اللہ کا پکارنا ہے۔ ان کے پکارنے سے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ان سے مدد مانگنا اللہ سے مدد مانگنا ہے۔ ان کے ملنے سے خدا ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے وہ اللہ کے پیارے ہیں۔ اللہ کے دربار میں ہمارے سفارشی اور وکیل ہیں۔ افسوس صد افسوس اس حماقت پر جب کہ قرآن پاک میں ڈنکے کی چوٹ باری تعالی نے فرمایا ہے: "وَ اللهُ الْغَنِيُّ وَ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ” کہ اللہ بے نیاز اور تم سب کے سب محتاج ہو۔

پیروں پیمبر خدا کے محتاج۔
نبی اور رسول خدا کے محتاج۔
ملائکہ اور فرشتے خدا کے محتاج۔
چاند سورج ستارے خدا کے محتاج۔
زمین و آسمان خدا کے محتاج
صحراء و بیاباں خدا کے محتاج
غرضیکہ ہر چیز خدا کی محتاج
کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

خدا فرما چکا قرآن کے اندر
میرے محتاج ہیں پیر و پیمبر
نہیں طاقت سوا میرے کسی میں
کہ کام آوے تمہارے بے بسی میں
اگر قرآن کو سچ جانتے ہو
تو پھر منّتیں کیوں مانتے ہو
تمہیں یہ طورِ بد کس نے سکھایا
محمد نے کہاں ہے یہ بتایا

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ہمہ وقت ہر چیز کی آپ کو خبر ہے، عجیب بات ہے، کیا عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث کے بالکل مخالف ہے۔

یاد رکھو! ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا، ہم وقت ہر چیز کی خبر رکھنا، دور ہو یا قریب، اندھیرے میں ہو یا اجالے میں، آسمانوں میں ہو یا زمینوں میں، پہاڑوں کی چوٹی پر ہو یا سمندروں کی تہہ میں، دوستو! یہ سب اللہ کی شان ہے۔

مارنا اور جلانا، روزی میں تنگی اور وسعت پیدا کرنا، تندرست اور بیمار کرنا، مرادیں پوری کرنا، بَلائیں ٹالنا، یہ سب اللہ کی شان ہے۔

ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اس کے نام پر مال خرچ کرنا، اس کے نام کا روزہ رکھنا، اس کے گھر کا طواف کرنا، اس پر غلاف ڈالنا، اس کی چوکھٹ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگنا، یہ سب اللہ کی شان ہے۔

بزرگان دین کے مزاروں پر ہر سال متعین تاریخ میں عرس ہوتا ہے، جشن منایا جاتا ہے، قوالیاں ہوتی ہیں، گاجا باجا ہوتا ہے، بس نہ پوچھیے طرح طرح کی خرافات ہوتی ہیں، ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔

دین و مذہب اور شریعت کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا تَجْعَلُوْا قَبْرِيْ عِیْداً‘‘ کہ میری قبر کو جشن مت بناؤ۔ اللہ کے لاڈلے اور محبوب پیغمبر کی قبر سے زیادہ متبرک کس کی قبر ہوسکتی ہے۔ جب آپ نے اپنی قبر کو جشن بنانے سے منع فرمایا تو فیصلہ کیجیے کہ دوسروں کی قبر کو جشن کیونکر منایا جا سکتا ہے۔

اللہ اور اس کے رسول نے تو قبروں کو عید اور جشن منانے سے منع فرمایا؛ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں، مزاروں پر اس طرح جمع ہوتے ہیں جیسا کہ عید کے لیے جمع ہوتے ہیں، مرد عورت سبھی ہوتے ہیں، بے حیائی کا سماں ہوتا ہے، شرم و حیا ان پر روتی ہے، اور شہیدوں کی قبروں کے ساتھ عجیب معاملہ ہوتا ہے، قبروں کو سجدہ گاہ بنایا جاتا ہے، ان کا طواف کیا جاتا ہے، ان کے ارد گرد گھوما جاتا ہے، ان پر چراغ جلایا جاتا ہے، موم بتیاں جلائی جاتی ہیں، ان پر چڑھاوا چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے، ان کے نام پر مرغے بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔

سید احمد کبیر کی گائے اور شیخ عبدالقادر جیلانی کا بکرا نام رکھا جاتا ہے، اور عظیم پیشانی کو ان پر ٹیک دیا جاتا ہے، گناہوں کا بازار گرم ہوتا ہے، حالانکہ ہم سب کے مولیٰ و آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مشکاۃ شریف کی روایت ہے: "أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوْا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ، إِنِّيْ أَنْھَاکُمْ عَنْ ذَالِکَ” خبردار قبروں کو سجدہ گاہ مت بناؤ، میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔

مزاروں کو پختہ بنایا جاتا ہے۔ ان پر گنبد وغیرہ تعمیر کی جاتی ہے۔ جب کہ رسول پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔

محترم دوستو!

ایک نہیں سینکڑوں ہزاروں بدعات و خرافات میں ہم مبتلا ہیں۔‌ تیجہ، دسواں، چالیسواں اور برسی منائی جاتی ہے۔ ہر سال ماہ ربیع الثانی کی گیارہویں تاریخ کو محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی کی گیارہویں کے نام سے یوم وفات منایا جاتا ہے۔ گھروں اور مسجدوں میں روشنی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یاد رکھو یوم وفات کو خوشیاں منانا محبت کی علامت نہیں عداوت کی دلیل ہے۔

ایصال ثواب کی خاطر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اس پر فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔ جب کہ سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ و سلم، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین میں کہیں اس کا وجود نہیں ملتا۔

میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اذان دی جاتی ہے۔ اذان و اقامت میں جب مؤذن یا مکبر أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ الله کہتا ہے تو انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے۔

نماز فجر، عصر، جمعہ اور عیدین کے بعد مصافحہ کیا جاتا ہے۔ اور اس کو سنت بھی سمجھا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر دیکھا جاتا ہے کہ سنن و نوافل سے فارغ ہوکر دعائے ثانی کا انتظار ہوتا ہے، امام دعا کرتا ہے اور لوگ اس پر آمین کہتے ہیں۔

محفل میلاد قائم ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ولادت کے من گھڑت اور جھوٹے قصے بیان کیے جاتے ہیں، بے ریش اور خوش الحان لڑکے غزل خوانی کرتے ہیں، عورتیں بن سنور کر شریک محفل ہوتی ہیں، ضرورت سے زیادہ محفل کو سجایا جاتا ہے، محفل کے ختم پر شیرنی تقسیم ہوتی ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف میں غلو سے کام لیا جاتا ہے۔

محفل میلاد کو فرائض و واجبات سے زیادہ اہم اور باعث ثواب سمجھا جاتا ہے، شریک نہ ہونے والوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے، نماز جیسی اہم عبادت کے فوت ہونے کی پرواہ نہیں ہوتی، ولادت کے تذکرہ کے وقت کھڑے ہوتے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود محفل میں تشریف لاتے ہیں، ہائے افسوس!

خادمِ رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام کے نزدیک آپ کی ذات سے زیادہ محبوب دنیا کی کوئی شے نہ تھی اس کے باوجود آپ کو دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ کھڑے ہونے سے آپ کو ناگواری ہوتی ہے۔ بتاؤ وہ سچے جانثار آپ کو دیکھ کر بھی کھڑے نہ ہوتے تھے تو ہمارے لئے کھڑا ہونا صرف اس خیال سے کہ آپ تشریف لائے ہیں، کیونکر روا ہو سکتا ہے؟

مسلمانو!

میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں
کیا صحابۂ کرام نے آپؐ کو عالم الغیب جانا
کیا صحابہ کرام نے آپ کو ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھا
کیا صحابہ کرام نے آپ کو مختار کل مانا
کیا صحابہ کرام نے غیر اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کیا
کیا صحابہ کرام نے غیر اللہ سے مرادیں مانگیں
کیا صحابہ کرام نے غیراللہ کو بلا و مصیبت کو ٹالنے والا تصور کیا
کیا صحابہ کرام نے قبروں کو سجایا اور ان پر چراغاں کیا
کیا صحابہ کرام نے گاجا باجا کیا اور ڈھونگ رچایا
کیا صحابہ کرام نے یہ تمام خرافات ادا کیں
نہیں ہرگز نہیں

جب دور صحابہ میں ان چیزوں کا وجود نہیں ملتا۔ تابعین، تبع تابعین کا زمانہ ان سے خالی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان اعمالِ شرکیہ اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہیں۔

مسلمانو! سمجھو اور ہوشیار ہوجاؤ! غفلت کا پردہ چاک کرو۔ آج ساری دنیا کے اندر مسلمان ذلیل و خوار ہیں۔ غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چاروں طرف سے ظلم و زیادتی کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ نیک اعمال ہمارے پاس نہیں۔ مختلف قسم کی بدعات و خرافات میں ہم مبتلا ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا کھویا ہوا وقار ہمیں واپس ملے تو یہ تمام بدعات و خرافات اور اعمال شرکیہ کو ختم کر کے خالص توحید پر گامزن ہونا ہوگا۔ جس توحید کی خاطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تکلیفیں اٹھائیں، مشقتیں جھیلیں، ظلم و ستم برداشت کیا۔

سامعین حضرات!

یہی خالص توحید کا پیغام تھا جس کی وجہ سے آپ پر پتھر برسائے گئے
آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔
آپ کو گالیاں دی گئیں۔
آپ پر غلاظت و نجاست ڈالی گئی۔
یہی توحید کا پیغام تھا جس کی بنا پر
صحابۂ کرام کو ستایا گیا۔
صحابۂ کرام کا ناحق خون کیا گیا۔
صحابۂ کرام کو عرب کی تپتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا۔
صحابۂ کرام کو کو آگ کے انگاروں پر سلایا گیا۔
صحابۂ کرام کی بیویوں کو کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کردیا گیا۔
الغرض وہ سب کچھ ہوا جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

پیارے دوستو!

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ ہماری آخرت بھی سنور جائے۔ اللہ کا رسول ہم سے راضی ہوجائے۔ تو پیغمبر کے طریقوں پر چلنا ہو گا۔ آپ کی بات کو دل و جان سے ماننا ہوگا۔ اس لیے کہ پیغمبر کے خلاف جو راستہ ہے وہ ضلالت و گمراہی کا راستہ ہے۔ وہ جنت کا نہیں بلکہ جہنم کا راستہ ہے۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید

جس نے پیغمبر کے خلاف راستہ اختیار کیا وہ ہرگز منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس نازک اور پرفتن دور میں توحید خالص کو اپنا شیوہ بنائیں، اعمالِ شرکیہ سے اجتنابِ کُلّی اختیار کریں، بدعات و خرافات کو جنم نہ لینے دیں، سنت والا راستہ اختیار کریں، قوم و ملت کو بدعت سے جوکہ ضلالت ہے گمراہی ہے بچنے کی تلقین کریں۔ اپنی اور اپنے گھر خاندان والوں کی، بدعت کے اڈوں سے حفاظت کریں۔

دوستو!

اگر ہم نے ایسا کیا، اور بدعت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، امت کو عقائد حقہ کی تعلیم دی، باطل عقائد کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کو رشد و ہدایت کا پیغام سنایا، تو یقیناً کامیابی ہمارا آگے بڑھ کر استقبال کرے گی۔ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا نصیب ہوگی۔ دنیاوی زندگی کے ساتھ ہماری آخرت کا سدھار ہوگا۔

چنانچہ رحمۃ للعالمین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے: "مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِيْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِيْ، فَلَهٗ أَجْرُ مِأَةِ شَهِيْدٍ” حدیثِ پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب امت کے لوگ طرح طرح کی بدعتیں ایجاد کریں گے، اور ہر ایک اپنی بدعت کو اچھا سمجھ کر ذوق و شوق کے ساتھ عمل کرے گا، اور ہزاروں بدعتیں ہوں گی۔

کسی بدعت کو فرض جانا جائے گا، کسی کو واجب اور سنت سمجھا جائے گا۔ کوئی اپنے بزرگوں کی رسم جان کر، کوئی عوام کے طعن سے ڈر کر عمل کرے گا، اور ہر ایک اپنی بات پر اٹل ہوگا۔ تو ایسے وقت میں جو شخص میری سنت پر عمل کرے گا، اور بدعت سے اجتناب کرے گا، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کو مضبوطی سے تھام کر کسی حال میں نہ چھوڑے گا تو اس کو سو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔

افسوس ہے اس مسلمان پر جس نے قرآن پاک کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ سنت رسول کا جنازہ نکالا۔ واہی تباہی قصوں کہانیوں پر اعتقاد جمایا۔ اسی پر میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ دعا کیجیے کہ خدائے وحدہٗ لاشریک تمام مسلمانوں کو عقیدے کی سلامتی عطا فرمائے۔ اور بدعات و خرافات سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ اور اللہ تعالی پورے عالم کے مسلمانوں کو سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

وَ مَا عَلَيْنَا إلَّا البَلاغ

مزید تقریر کی کتابیں PDF میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں

ڈسکلیمر: یہ تقریر ’’اچھی تقریریں، جلد اول‘‘ سے نقل کرکے تلاش و جستجو میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے شائع کی گئی ہے۔ میری دانست میں اس میں کسی طرح کی کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی ہے۔ آپ اپنے اعتبار سے اس میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے