مسلم بچیوں کے ارتداد کے اسباب اور اس کا حل، محمد اسحاق لون گریزی

مسلم بچیوں کے ارتداد کے اسباب اور اس کا حل

از قلم: محمد اسحاق لون گریزی
خادم دارالعلوم بلالیہ کھمبر حضرتبل سرینگر کشمیر
بموقع: دوسرا مضمون نگاری مقابلہ اکتوبر ۲۰۲۲ء

مسلم بچیوں کے ارتداد کے اسباب اور اس کا حل

حامداً ومصلیاً و مسلماً و بعده

أعوذ باللّه من الشيطان الرجيم، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

 وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔(آل عمران، 3/ 139)

اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔

الله تعالیٰ نے انسان کو جہاں اشرف المخلوقات بنایا بحیثیت انسان کے وہیں انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف و اعظم بنایا، بحیثیت ایمان کے ایمان کتنی بڑی دولت ہے اور اس کا کیا مرتبہ و مقام ہے حقیقی معنی میں اس کا علم دنیاوی زندگی کے بعد ہوگا تب غیر ایمان والوں کے لیے سوائے ندامت و افسوس کے اور کیا ہوگا؟

بالفرض اگر کوئی مرتد ہوجائے یعنی اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرے یا کسی مذہب کو اختیار کرنے کا دعویٰ نہ کرے بلکہ اسلام کو چھوڑ کر مسلمان ہونے  کا انکار کرے(العیاذ باللہ) اور پھر سے داخل ہونے کی کوئی چاہت نہ ہو تو ایسا شخص مرتد ہے۔ ایسے کے ساتھ تعلقات رکھنا کافر کے ساتھ تعلقات رکھنے سے بھی برا ہے۔

قرآن مجید میں سورہ بقرہ میں ہے: وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَـاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُـهُـمْ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (217)

اور سورہ آل عمران میں ہے: لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُـوْنَ الْكَافِـرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۖ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّـٰهِ فِىْ شَىْء (28)

لیکن اس کے ساتھ اس نیت سے تعلق رکھنا کہ وہ پھر سے دین کی طرف لوٹ آئے تو یہ باعث ثواب ہے۔ (احسن الفتاوی 8/250)

ارتداد کس سے کہتے ہیں؟

وہ شخص مرتد ہوتا ہے جو کہ اسلام کے بعد کسی ایسی چیز کا انکار کرے جو ضروریات دین میں سے ہو یعنی زبان سے ایسا کلمۂ کفریہ بولے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو، یعنی وہ چیز جن کی وجہ سے ایمان میں داخل ہوا ہے انہی کے انکار کرنے کی وجہ سے بندہ ایمان سے نکلتا ہے۔ ( عقیدۃ الطحاوی)

اللّه تعالٰی نے ہمیں اشرف المخلوقات کی صورت میں وجود بخشا۔ یہ الله تعالیٰ کا انتہائی عظیم انعام ہے اللّه تعالٰی کی تمام مخلوقات میں انس و جن ہی مستحق جزاء و سزا ہیں، کیونکہ ان کو ہدایت و ضلالت کے درمیان امتحان کے لئے چھوڑدیا۔ انبیاء علیہم السلام نے وحی الہٰی کی روشنی میں ہدایت کی راہیں بتائیں۔

ایک اہم بات!

ہمیں بڑی اہمیت کے ساتھ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جینے کا مقصد کیا ہے اور ہم نے اس مقصد کو پست پشت ڈال رکھا ہے، ہم آج ایسے جی رہے ہیں کہ جیسے مرنا ہی نہیں ہے۔ ہمارے دل و دماغ میں دنیا پرستی اس طرح سوار ہوئی ہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں راسخ ہوئے بغیر مادیت سے بچنا ناممکن ہے، ہم لوگ سیریل، فلم، ناچ گانے اور مختلف مخلوط پروگراموں میں ایسے مشغول ہوئے ہیں کہ حصول علم دین اور فکر آخرت کے لئے وقت ہی نہیں ہے خواہ وہ اختلاط شادی کی شکل میں ہو یا اسکول کالج یونیورسٹی اور خارجی ٹیوشن سنٹر کی شکل میں ہو۔

ایمان کی حفاظت

ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کو اولین ترجیح دینی چاہیے، اسلیے کہ اگر ہم یا ہمارے ماتحت لوگ ایمان سے پھر جائیں تو ہم سب کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہمارے لئے تب کف افسوس ملنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایمان سے پھرنے والے کے لئے آخرت میں عذاب جہنم سے خلاصی کی بھی کوئی صورت نہیں ہوگی جیساکہ قرآن میں جابجا اس چیز کو بیان کیا گیا، اللّه تعالٰی اسلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں سورہ آل عمران میں: ’’يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ‘‘ (102)

بیان کردہ آیت کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے،  اس سے مراد یہ ھیکہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے  تاکہ جب ہمیں موت آئے  تو حالت اسلام پر ہی آئے ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے نفس و شیطان کے دھوکوں اور وسوسوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے یاد رہے جس طرح ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کے لئے قرآن میں جنت کی  خوشخبری دی گئی ہے اسی طرح احادیث کریمہ میں بھی نبی کریم صلی اللّه علیہ و سلم نے ایمان کی اہمیت اور اور اس کی حفاظت کے بارے میں ارشاد فرمایا حضرت محمود بن ربیع الانصاری سے مروی ہے طویل روایت ھیکہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللّه عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

رضائے الہٰی کی خاطر لاإله الا الله کہنے والے پر اللّه تعالٰی نے دوزخ کو حرام کردیا ہے

حَدِيث: فَإِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ) رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. (بخاری 1/164)

اور اسی طرح مسلم شریف میں روایت ھیکہ حضرت عثمان رضی اللّه عنہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ یہ جانتا ہے (یعنی ایمان رکھتا ہے) کہ اللّه تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے وہ جنت میں داخل ہوگا

عَنْ عُثْمَانَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ أَبُوْ عَوَانَةَ (مسلم 1/55)

لھذا ایمان کی اہمیت اور ارتداد کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ہدایات بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں.

(1) علماء کرام اپنی تقریوں تحریروں دینی مجلسوں اور اصلاحی و فلاحی کاموں کے ذریعہ کلیدی رول ادا کریں اور ایمان کی حفاظت اور معاشرے کی نونہال بچیوں اور بہنوں کو ارتداد جیسی خطرناک وبا سے بچانے کے لئے تمام تر تدابیر اختیار کریں۔

جیساکہ بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کامل شریعت حضرت مولانا علی مونگیری رحمۃ الله علیہ بیان کرتے تھے علماء سے ( جب ہندوستان اور اطراف میں مرزا قادیانی کا فتنہ پھیلا میرا دل چاہتا ھیکہ آپ لوگ مرزا قادیانی کے فتنہ کے بارے میں اتنے رسالہ لکھیں کہ جب کوئی صبح اپنے بستر سے جاگے تو وہ اپنے تکیہ کے نیچے اس فتنہ کے بارے میں رسالہ پائے۔

(2) ہم اپنے بچوں اور بچیوں کی دینی تربیت کریں۔ انھیں فحش پرستی سے دور رکھیں اور گھر کے ماحول کو دینی بنائیں ان پر نظر رکھیں عبادات کو لیکر اسی طرح معاملات ہوں یا اخلاقیات ہوں۔ الغرض والدین ہوں یا سرپرست اس معاملہ کو لیکر حساس رہیں اگر ہم اپنی عبادات اور اپنے معاملات و اخلاقیات کو درست کریں گے یعنی یہ سب عین شریعت ہو تو انشاء الله ہم اور ہمارے ماتحت اس طرح کی و با سے محفوظ رہیں گے۔

(3) برے لوگوں اور بری تہذیب سے ہم مکمل پرہیز کریں خاص طور سے ٹیلی فون کے غلط استعمال سے خواہ ویڈیوں کے ذریعہ ہو یا میوزک ناچ گانا وغیرہ ہو۔ اسی طرح  ٹیلیویژن کی خرابیوں اور ملٹی میڈیا چیزوں سے وقت کو ضیاع سے بچائے۔

(4) اپنے محلہ قبیلہ اور گھر میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا نظام بنانا چاہیے جہاں بچوں اور بچیوں کو دین کی بنیادی باتوں سے روشناس کرایا جائے اور ضروریات دین کی فضیلت اور اہمیت کو سمجھایا جائے۔ خاص کر نبی کریم صلی اللّه علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللّه تعالٰی عنہم کی سیرت کو پڑھایا جائے، الغرض عبادات و عقائد سے بچے بچیاں عورتیں مرد ہر کوئی واقف ہو۔

گھر میں دینی تربیت کے ایک مخصوص نصاب ( مثلاً اسلام کی بنیادی تعلیمات، حضرت تھانوی صاحب رحمۃ الله علیہ کی یا تعلیم الاسلام مفتی کفایت اللّه صاحب رحمۃ الله علیہ کی، یا کوئی اور مناسب کتاب) کی تعلیم ہو۔ اس کے لئے وقت نکالا جائے جس میں گھر کا ہر فرد وقت نکال کر شرکت کریں، اور گھر کے بڑوں  کو صحیح العقیدہ علماء سے رابطہ میں رہنا چاہیے۔

(5) ہر گھر کا فرد صالحین کی صحبت اختیار کریں اور ان سے اپنے باطنی احوال بتلاکر علاج کروائیں اور تزکیہ نفس کی فکر کی جائے اور اس کے متعلق کتابیں پڑھی جائیں۔ مثلاً تھانوی صاحب رحمۃ الله علیہ کی کتاب اصلاح الرسوم یا حکیم اختر صاحب رحمۃ الله علیہ کی ” تزکیہ نفس” یا فنائے  نفس وغیرہ۔

(6) اسلام پر اشکالات کرنے والے اور اسلام کے بارے میں ادھوری معلومات رکھنے والوں سے بچا جائے۔

(7) فکر موت اور فکر آخرت کو اپنے اندر پیدا کریں اور اس کو اہمیت کی نظر سے دیکھیں اس کے متعلق کتاب (مرنے کے بعد کیا ہوگا) کا مطالع کرنا چاہیے ان ہدایات پر عمل کرنے سے انشاء الله  ہماری دنیا و آخرت بنے گی۔

ارتداد کے ممکنہ اسباب

(1) مغربی نظام تعلیم

ہمارے بچوں اور بچیوں کے لئے اسکولوں کالجوں اور اضافی Tuition center میں یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں رائج مخلوط نظام تعلیم ایک وحشی درندہ کی مانند ہے جس نے ہمارے نوجوان نسل کے ایمانی جذبہ شرم و حیا اور شرافت کے دامن کو داغدار کیا ہے اس وقت امت زبوں حالی اور انتشار کا شکار ہے باطل تمام تر طاقتوں فارمولوں اور اپنی تمام توانائی یکجا کر رہا ہے اس مخلوط نظام تعلیم کو مضبوط کرنے کے لئے کہ اس میں فتنہ ارتداد کے تمام تر مواقع فراہم ہوں۔

اختلاط کیا ہے؟

بقول جنید بغدادی رحمۃ الله علیہ کے کہ اگر پڑھانے والا اللّه کا ولی حسن بصری رحمۃ الله علیہ ہو اور پڑھنے والی رابعہ بصری رحمۃ الله علیہا ہو اور یہ دونوں تنہا بیت اللّه میں کلام پاک پڑھیں گے تو تیسرا شیطان ہو گا اختلاط کی بنا پر ہماری بچیوں کی عفت اور عزت لٹ جانے کا بڑا خطرہ رہتا ہے اسی خطرہ کے پیش نظر اسلام نے مرد و زن  کے اختلاط کو ناپسند فرمایا ہے شاید اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکبر الہ آبادی نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:

یوں قتل سے بچوں کے وہ  بدنام نہ ہوتا

افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

(2) آج کل ہماری بچیاں ناجائز تعلقات اور دوستی کی شکار ہوتی ہیں جن میں بعض تو وہ ہیں جو ایمان جیسی عظیم دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور بعض تو وہ ہیں جو اپنی عفت و عصمت کو داغدار کرتی ہیں ایسی اولاد جوکہ ماں باپ کے احسنات تلے دبی رہتی ہیں جن والدین نے ہمیشہ خون پسینہ بہا کر ن کی پرورش کی  پڑھایا خود بھوکے رہ کر ان کو کھلایا خود تکالیف پریشانیاں و مصیبتیں جھیل کر ان کو اطمینان و سکون دیا والد کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے مگر بچے شہنشاہوں کی زندگی گذارتے مزدوری کرکے باپ کے ہاتھ پاوں پھٹتے ان میں چھالے  پڑتے سردی گرمی کا لحاظ کئے بغیر اپنی اولاد کی خوشی اور راحت کے لئے۔

اور بعض دفعہ یہی اولاد ناجائز تعلقات اور اور دوستی کی وجہ سے ایسا کام کر بیٹھتے ہیں کہ والدین کا سر شرم سے جھک جاتا ہے جو کھبی معاشرے میں سر اٹھا کر جیتے تھے وہی چھپنے کی جگہ تلاش کر رہیں ہوتے ہیں پر بعض اولاد ایسا نہیں کرتے ہیں اپنے والدین کے سر کو عفت عصمت عزت اور بے داغ جوانی کی وجہ سے بلند رکھتے ہیں اور ایسے اولاد بھی زندگی میں خوش و خرم رہتے۔

یقیناً بنانے والی ذات اللّه تعالٰی کی ہے پر یہ دنیا دارالاسباب ہے کچھ قرض ایسے بھی ہوتے ہیں جو چاہ کر بھی ادا نہیں کیے جا سکتے زندگی کی کتاب میں سب سے حسین صفحہ ماں باپ کی اپنی اولاد سے محبت ہے اور ہماری یہ بچیاں غیروں کے ساتھ راہ فرار اختیار کرتی ہیں ہم اس تشویشناک صورت حال پر سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہائے  افسوس جو آنکھوں کا نور کلیجہ کی ٹھنڈک باپ کا غرور جو بھائیوں کا مان تھی وہ آج سب سے دور چلی گئی ہے۔کوئی ہے جو اس کو اس کے گھر کا راستہ دکھائے ماں باپ بھائی وغیرہ کا دکھ درد بتائے۔

(3) اسمارٹ فون کا غلط استعمال

موبائل کا جائز اور نا جائز دونوں طرح استعمال ہو سکتا ہے موبائل کو جائز طرح سے استعمال کرنے والے بہت کم پائے جاتے ہیں جبکہ ان حضرات کا غلط دیکھنے اور سننے سے بچنا بھی محال ہے اور موبائل کو ناجائز طریقہ سے استعمال کرنے والے انٹرنیٹ کو منفی استعمال کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ لوگ اس کے نقصانات اور اس کے منفی پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ ذہنی جسمانی اور نفسیاتی مشکلات کے شکار ہو جاتے ہیں انٹرنیٹ کے جہاں بہت سارے نقصانات ہیں ان میں سے ایک نقصان جس کو یہاں لکھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے وہ ہے بےحیائی و عریانیت پھیلانا اس کے ذریعہ سے۔

انٹرنیٹ گناہ اور بے شرمی کے مناظر دکھانے کا سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ ہے اسی کے ذریعہ ہمارے نوجوان مرد و خوتین کے اندر بد اخلاقی بے دینی اور بے راہ  روی و گمراہی پنپ رہی ہے شر و فساد کی وادیوں میں ان کی ہلاکت اقدار و پاکیزہ روایات سے ان کی لا تعلقی عام ہوتی جا رہی ہے کتنے والدین ہیں جو اپنی اولاد کی گمراہی کا رونا روہے ہیں ان کے انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کے بعد۔

اور کتنی ہی نوجوان لڑکیاں ہیں جنہیں اس انٹرنیٹ کے توسط سے سبز باغ دکھایا گیا اور وہ دھوکہ کھا کر اپنے گھروں سے بھاگ گئیں اتناہی نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک دھوکہ بازوں کی مذموم خواہشات کا نشانہ بن کر پھر بے یار و مدد گار چھوڈی گئیں جس سے انہیں دنیا و آخرت دونوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔

 اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے

کیا زمانہ ہے کہ انسانوں کو انسانوں سے ڈر لگتا ہے

ہماری ان بچیوں کی گھر واپسی کیسے ہو؟

یقینا اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اسلام دنیا کو امن و محبت کا باقاعدہ درس دیتا ہے یعنی دائمی امن و سکون اور لازوال سلامتی کا مذہب ہے یہ امتیاز دنیا کے کسی اور مذہب کو حاصل نہیں ہے ہمیں اللّه تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللّه تعالٰی نے ہمیں دین اسلام کے جھنڈے تلے پیدا فرمایا کہ جس نے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو علم و عمل کے سورج سے منور کیا اب بات اس پر ہے کہ ہماری ان بچیوں کی گھر واپسی کیسے ہو سب سے پہلے ہمیں یہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے شکوک و شبہات کو دور کریں ان کے ساتھ نرمی  سے پیش آئے تاکہ یہ اسلام کی طرف راغب ہوں اس نیت کے ساتھ ان سے اچھے سلوک سے پیش آنے میں کوئی حرج نہیں ہے ان کے سامنے ایمان کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا جائے اس کے برعکس پر ان تمام وعیدوں کو سنایا جائے جن میں جہنم کی ہولناکیوں کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی آپ صلی اللّه علیہ و سلم کی مبارک سیرت و اخلاق و آداب کو بیان کیا جائے اور دعا بھی کریں کہ اللّه تعالیٰ ان کے لئے رشد و ہدایت کے تمام راستے ہموار فرمائے۔

اور جب ان سے ملنے یا بات کرنے کا موقع ہو تو صحابہ رضی اللّه عنہم کی سیرت بیان کی جائے جنہوں نے ایمان کے لئے کتنی قربانیاں دیں۔ مثلاً حضرت بلال  رضی اللّه عنہ کو دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں گرم ریت پر لٹا کر سینے پر بڑا پھتر  رکھا جاتا کہ وہ کروٹ  بھی نہ بدل سکیں ان کا آقا کہتا کہ اس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ تم محمد صلی اللّه علیہ و سلم کے نبی ہونے کا انکار کریں اور ہمارے بتوں کی پوجا کرو ایسے حالات میں بھی حضرت بلال رضی اللّه عنہ کی زبان پر الله ایک ہے الله ایک ہے کا کلمہ جاری ہوتا تھا صحابہ کرام رضی اللّه عنہم کو دنیا کا ہر سودا منظور تھا لیکن ایمان کا سودا کھبی منظور نہ کیا جان گئی مال گیا دولت عزت شہرت گئی اپنوں سے پرائے ہو گئے سب کچھ لٹ گیا شہر بدر ہوگئے مگر ایمان کا کھبی سودا نہیں کیا

اس معاملہ میں میرا نظریہ یہ ہے کہ جب تک ان بچیوں سے خیر کی امید ہو بھلائی کا معاملہ کرتے رہیں کہ وہ متأثر ہوکر گھر واپس آئیں مگر یہ سب حدود اللّه پر قائم رہ کر ”واللهُ اعلم بالصواب”

الله تعالیٰ میری اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے اور اس میں کی گئی کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔ آمین یا رب العلمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے