عصر حاضر میں طلباء مدارس کی ذمہ داریاں، علمی مقالات و مضامین

باسمہ عزوجل

عصر حاضر میں طلباء مدارس کی ذمہ داریاں

از قلم: محمد صداقت قاسمی

عصر حاضر میں طلباء مدارس کی ذمہ داریاں

مدارس کے وہ طلباء جن کا مستقبل میں ملی و اجتماعی مسائل میں قائدانہ کردار ہے، ان کا فکر امت سے سرشار، عوامی مسائل سے باخبر، امت کی زبوں حالی و پسماندگی کے اسباب کو جان کر ان کا حل طے کرنا نیز زمینی سطح پر اسے نافذ کرنے کی سبیل تلاش کرنا طلباء وعلماء کی تمام ضرورتوں میں سب سے مقدم ہے۔

کیونکہ فرمان نبوی ہے ’’من لم یھتم بأمرالمسلمین فلیس منا‘‘ (کہ جومسلمانوں کے مسائل کی فکر نا کریں وہ ہم میں سے نہیں) یہ فرمان گوکہ عام ہے لیکن وارثین انبیاء ہونے کے ناطے طلباء و علماء اس کے اولین مخاطب ہیں۔

کیونکہ علماء کی ذمہ داری عقائد وعبادات اور اخلاق کی درستگی تک ہی محدود نہیں؛ بلکہ سیاسی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لیکر سچائی و انصاف کی حکومت قائم کرنا بھی ہے، تاکہ اللہ کے آحکام اور نبی کے طریقوں کو زمین پر نافذ کیا جاسکے اور یہ بھی ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘ کے مفہوم کا حصہ ہے کہ جس طرح انبیاء نے امت کو جہاں دینی تعلیم سکھلائی وہیں سیاسی تعلیم بھی دی۔

مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل میں خرابی آئی تو اللہ نے ان پر ظالم بادشاہ جالوت کو مسلط کردیا جس نے قتل و غارت گری کرکے انہیں خوب لوٹا اور غلام بنالیا تو شموئیل علیہ السلام کی زیر قیادت طالوت کو بادشاہ مقرر کرکے باضابطہ جنگ کی گئی۔

( ماخوذ از اسلام کا نظام حکومت)

اور یہی کام حضرت یوشع، داؤد، یوسف علیھم السلام اور اخیر میں آپ علیہ السلام نے کیا۔ جہاں لوگوں کو توحید کی دعوت دی وہیں ظالم حکمرانوں کے ظلم سے نجات بھی دلایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء کی ذمہ داری جہاں دین کی بقاء، اس کی حفاظت اور اشاعت کرنا ہے وہیں ظالم حکمرانوں کے ظلم سے نکالنا بھی داخل ہے۔

(ملخص: اسلام اور سیاسی نظریات)

حدیث شریف میں وارثین انبیاء کے خطاب سے نوازا جانا فضیلت سے زیادہ اس ذمہ داری کو شامل ہے جس کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے، اوران کا مشن جیسا کہ پہلے بیان ہوا عقائد و عبادات کی درستگی کے ساتھ سیاسی باگ ڈور کو تھام کرعوام کے حقوق کو ان تک پہنچانا اور امت کی ڈگمگاتی کشتی کو کسی ساحل پر لنگر انداز کرانا ہے۔

واضح ہو کہ یہ ذمہ داری نسبتاً دیگر ذمہ داریوں سے بتقاضائے وقت بڑھ کر ہے؛ کیونکہ عصر حاضر کے بگڑتے حالات اور کفر و ارتداد کی جو لہر بڑی تیزی سے مسلم بچیوں میں پھیلی ہے، نیز ہندوستان کی خبر رساں ایجنسیوں نے ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی جو خلیج پیدا کردی ہے اور ہماری نئی نسل کے اذہان میں شکوک و شبہات کا جو بیج بویا ہے وہ محتاج بیاں نہیں۔ جس طرح مسلمانوں کے حقوق سلب کرکے یکطرفہ پالیسی اور کارروائیوں سے ان کے حقوق پر ببانگ دہل حکومت حملہ آور ہوئی ہے۔

مثلاً عورتوں کے حقوق کے نام پر طلاق بل، بیف کے نام پر حکومت کی پشت پناہی میں اندوہناک اذیتیں، بے قصور علماء کو دہشتگردی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا، قائدانہ اوصاف کے حامل مسلم نوجوانوں کو غائب کروا دینا یا مقدمات میں پھنساکر ان کے کیریئر کو برباد کردینا غرضیکہ یہ ایک سلسلہ ہے ہماری قوم کے خونچکاں داستان کا جو اب تک جاری ہے اور خدا جانے اس کا اختتام کب ہوگا؟

قارئین!

ان سب کے باوجود ہمیں مایوس ہونے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مسلم قوم ایسا لقمۂ تر نہیں جسے بی جے پی کی حکومت نگل جائے، ایسے اور اس سے بدتر حالات بھی پیش آئیں گے لیکن ایسے مواقع پر ہمیں ایمان کامل اور خدا پر یقین کے ساتھ صبر و استقلال کے علم تلے اپنے قدم جماکر آگے بڑھنا ہوگا، حالات سے گھبرانا نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرنا ہوگا۔

کیونکہ عظیم لوگ حالات سے گھبراتے نہیں بلکہ اس سے نکلنے کا نیا راستہ نکال لیتے ہیں اور وہ اپنی ان کمزوریوں پر غور کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو زوال کے اسباب ہوتے ہیں نیز ایسے پرخطر اور ارتدادی دور میں علماء کو اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہنا اور ملک و ملت کو انہی راستے پر چھوڑکر حدیث میں بیاں کردہ وعید کا مصداق بن جانا اہل ایمان بالخصوص وارثین انبیاء کا شیوہ نہیں۔

تاریخ کے اوراق علماء کرام کی ان کاوشوں سے پر ہے کہ قوم و ملت پر جب جیسے ناگوار حالات پیش آ ئے تو معاصر علماء نے اسباب اور اس کا حل تجویز فرماکر بروقت امت کی صحیح رہنمائی فرمائی اور وقت کے فرعونوں سے امت کو بچایا۔ تو آئیے ہم بھی ان اسباب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو ہماری ترقی، حفاظت، اور امن کی راہ کے روڑے ہیں۔

موجودہ حالات کی ایک وجہ!

اگر ان ناگفتہ بہ حالات پر غور کریں تو آپ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اقلیتی طبقہ بالخصوص مسلمانون پر ہورہے مظالم کی بنیاد سیاسی عدم توازن ہے، کیونکہ جب حالات کو سیاست کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نا ہمیں سیاسی قوت حاصل ہے اور ناہی اس کی پشت پناہی، جس کی وجہ سے ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔

وہیں دوسری طرف سیاسی قوت یا پشت پناہی والے کھلے عام اپنے جلسوں میں بیان دے جاتے ہیں کہ ۲۰۲۴ تک ہندوستان میں ایک بھی مسلمان نہیں رہنا چائیے، جو اپنی ریلیوں میں پولیس کی موجوگی میں سرعام مسلمانوں کو مارنے کا ٹنے اور مسلم بچیوں کے ریپ کی دھمکی دیتے ہیں، نیز گائے کے نام پر کتنے مسلمانوں کا خون بہایا جا چکا ہے۔

ان کے پاس یہ سب کچھ کرنے کے لیے سیاسی طاقت یا اس کی پشت پناہی کے سوا کیا ہے؟ اور یہیں تک بس نہیں بلکہ اس سے بڑا خطرہ جو منڈلا رہا ہے وہ دستور ہند کی تبدیلی کا ہے جس کے لیے موجودہ حکومت پوری طاقت و قوت کے ساتھ تیاری میں سرگرداں ہے، بس راجیہ سبھا میں اکثریت کی دیر ہے۔

قارئین کرام!
ہمارا یہ ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس کی بنیاد سیکولرزم پر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک مین بسنے والے تمام افراد کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور ہر ایک شہری اپنے مذہب اور تہذیب و تمدن پر عمل کرنے میں مکمل آزاد ہے۔

ایک طرف تو یہ حقیقت مسلم ہے، دوسری طرف وہ حالات ہیں جن سے ملک کا اقلیتی طبقہ دوچار ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دستوری بنیادوں کے حوالے سے ہمارے ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہاہے۔ اس ملک میں سارا معاملہ سیاست سے جڑا ہے۔ اگر آپ سیاسی طور پر مضبوط ہیں تو آپ محفوظ بھی ہیں اور آپ کو ہر شعبے میں نمائندگی بھی مل جائے گی۔

تو اسی لئے اے لوگو! اگر ہم نے سیاسی قوت حاصل کرنے کا کام کیا تو امید ہے مصیبت کے منڈلاتے بادل چھٹ جائیں گے اور ان شاء اللہ ترقی کے راستے بھی ہموار ہو جائیں گے کیونکہ سیاست ایسی چیز ہے جو کسی بھی قوم و ملک اور حکومت کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ یہ ستون جس قدر مضبوط اور مبنی بر انصاف ہوتا ہے اسی قدر اسے استحکام اور دوام حاصل ہوتا ہے اور جوں ہی اس میں کمی یا نا انصافی پنپنے لگتی ہے وہ قوم و ملک اور حکومت بھی ڈگمگانے لگتی ہے۔

اسی لئے موجودہ حالات میں سیاسی طاقت قوموں کی بقاء، تحفظ، تعمیر و ترقی کا مضبوط ہتھیار ہے نیز مساجد، مدرسوں، خانقاہوں، اداروں، تنظیموں، اور تحریکوں کی آبیاری اور بقاء کا بہترین سبب ہے۔

ہماری ذمہ داریاں

ہم مسلمان مٹنے جھکنے اور بکنے والی قوم نہیں ہیں، ہم اپنی بقاء و ترقی اور خوشحالی کی لیے جد و جہد کرنے والی قوم ہیں، کسی سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں، ہم چٹان کی طرح قدم جمانے والی اور کامیابی کیلئے لگاتار انتھک محنت کرنے والی قوم ہیں، ہمیں کوئی غلامی کی زنجیر میں جکڑنہیں سکتا۔

بس ہمیں اپنا احتساب کرکے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے، جرأت مندی، تحمل مزاجی اور عزم مصمم کرنے کی ضرورت ہے، تعمیری کردار نبھانے کے لئے کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے، اورضرورت اس بات کی ہے کہ اس سخت بحرانی دور میں ہم اپنے عزائم اور حوصلے بلند رکھیں۔ مصائب اور مشکل حالات سے خوفزدہ اور ہراساں ہوکر شکست خوردہ ذہنیت کا شکار نہ ہوجائیں۔ ہم وہ قوم ہیں جس کی قربانیوں کو ذکر کئے بغیر آزاد بھارت کی تاریخ مرتب کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

اسی لئے ہمیں حالات کی لہروں میں بہنا نہیں ہے بلکہ طوفان کا رخ موڑنا ہے، یہ دور سخت جانفشانی اور مقابلہ کا دور ہے، آپسی نفرتوں کو ختم کرنے اور غفلتوں کو چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ اور اختلافات سے اوپر اٹھ کر ایسے امور میں کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے جو ملک و ملت کے حق میں نفع بخش ہو، کوئی بھی تحریک یا اقدام ہو اس میں طلب عہدہ ملحوظ نہ ہو بلکہ ملت کی فلاح مقصود و مطلوب ہو۔

چند امور

1- طلباء کو اس وقت مسلمانوں کو تعلیمی اعتبار سے آگے لانے کی ضرورت ہے، اس قوم نے تعلیم ہی کے ذریعے ترقی کی ہے، اور ابھی بھی اس کی ترقی اسی تعلیم میں مضمر ہے۔

2- طلباء کو سیاسی اعتبار سے بھی مسلمانوں کو ایک جٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل سیاسی اتحاد میں چھپا ہوا ہے۔

3- مسلمانوں کو ایسے چینلوں کی سخت ضرورت ہے جو حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کریں۔

4- میڈیا کے ذریعے مسلمان بالخصوص طلباء و علماء کو دہشتگرد اور ملک کا غدار ثابت کیا جاچکا ہے، اس لئے حکمت عملی سے اسے دور کرنے کے لئے سماج میں عوامی رابطہ جیسے دبے کچلے اور مفلس لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی نیز اغیار کو اپنی تقریبات میں شریک کرکے اپنا رابطہ مضبوط بنائیں۔

5- ہم ایسے قائد کو کبھی سپورٹ نا کریں جو صرف مقرر ہو بلکہ جس کے اندر حکمت و دانائی سے کام کی صلاحیت ہو اور مقرر کے ساتھ مدبر بھی ہو اس کا انتخاب کریں۔

6- ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ کثیر تعداد میں علماء کرام کی ایسی ذہن سازی کی جائے کہ وہ دینی علوم میں مہارت کے ساتھ عصری علوم اور جدید ٹیکنالوجی پر بھی مضبوط دسترس رکھتے ہوں۔

7- گھر گھر جاکر مسلمانوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ تمہارا وجود اور مذہب خطرے میں ہے اور ان کے اندر اسلامی غیرت و حمیت پیدا کی جائے۔

عزیز طلباء! امت کے مستقبل کو بچانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے جی چرانا نہیں ہے بلکہ اس کا احساس کرنا ہے۔ ہمارے اوپر ہی قوم کی ترقی و تنزلی کا دار و مدار ہے اس لئے ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے تاکہ لوگوں کے سیاسی شعور بیدار کیا جاسکے ورنہ اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمیں ہمارے حصے کا کام کیے بغیر دنیا والے چین وسکون سے رہنے دیں گے تو یہ ہماری سب سے بڑی بھول ہے۔

(واللہ ھوالمستعان)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے