موجودہ حالات میں طلبۂ مدارس کی ذمہ داریاں، علمی مقالات و مضامین

موجودہ حالات میں طلبۂ مدارس کی ذمہ داریاں

از قلم: محمد اطہر قاسمی

موجودہ حالات میں طلبۂ مدارس کی ذمہ داریاں

ہم اپنے مضمون کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:

نمبر1) طلبۂ مدارس کی صلاحیتیں اور خوبیاں جو مسلمانوں کی ترقی میں کام آ سکتی ہیں۔

نمبر2) طلبۂ مدارس کی ذمہ داریاں۔

نمبر 3) مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب۔

نمبر 4) مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب کو ترقی کے اسباب میں کیسے بدلا جائے؟

اب چاروں کو تفصیل سے پڑھتے ہیں:

نمبر1) طلبۂ مدارس کی صلاحیتیں اور خوبیاں جو مسلمانوں کی ترقی میں کام آ سکتی ہیں۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی پریشانی اور پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے طلبائے مدارس کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

ویسے تو کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں بالعموم سب کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کچھ خاص لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی بہت ساری قربانیاں ہوتی ہیں یا تنزلی میں بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو موجودہ پسماندگی سے نکالنے کے لیے سارے مسلمانوں کو ایک ساتھ اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔ جو شخص جس طرح خدمت کر سکتا ہے کرنا ہوگا۔ ان سارے لوگوں میں طلبۂ مدارس کہاں ہوں گے؟ وہ کیا کام کرسکتے ہیں؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ یہ مضمون اسی سلسلے میں ہے۔

پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ طلبۂ مدارس میں ظاہری کیا کیا صلاحیتیں ہوتی ہیں جو مسلمانوں کی ترقی میں کام آ سکتی ہیں:

الف) قرآن و سنت کو جاننے والا ہوتا ہے۔ لہذا وہ قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کریں، اس سے کیا رہنمائی ملتی ہے وہ لوگوں کو بتائیں۔

ب) دینی معاملات میں لوگ رجوع کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی صحیح رہنمائی کریں۔

ج) عام طور سے تقریر و تحریر کی بھی صلاحیت ہوتی ہے۔ لہذا تقریر و تحریر کو بروئے کار لائیں۔

د) دوسروں کے مقابلے میں لوگ ان پر ہر اعتبار سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ اس لیے وہ جو بھی کام کریں گے تو بہت ممکن ہے کہ لوگ خوب ساتھ دیں گے، لیکن عوام کو کام کرکے دکھانا ہوگا۔

اس کے علاوہ اور بھی صلاحیتیں اور خوبیاں ہو سکتی ہیں۔ نیز اگر اس کے اخلاق اچھے ہوں، وضع قطع درست ہو، صوم صلوٰۃ کا پابند ہو، تو مذکورہ صلاحیتیں اور بھی مؤثر ہو جاتی ہیں۔

یہ عام فارغین مدارس کی بات ہے جو فضیلت مکمل کر کے عوام میں عالم کہے جاتے ہیں۔ جو صرف حافظ قرآن ہیں ان کی بات الگ ہے۔ نیز جو طلبہ عالمیت کے بعد دوسرے دنیاوی علوم حاصل کرتے ہیں ان کی صلاحیتیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں اور ان کے لئے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

نمبر2) طلبۂ مدارس کی ذمہ داریاں۔

موجودہ حالات میں طلبۂ مدارس مسلمانوں کی تعلیمی و دینی ترقی کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں،

الف ) جو امام مسجد بنتے ہیں وہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر لوگوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کی فکر کریں تو بہت ترقی ہوگی۔ ہر مسجد کے ساتھ مکتب کا بھی نظم ہوتا ہے گو کہ وہ منظم نہیں ہوتا ہے، نہ گھر والوں کی طرف سے دھیان دیا جاتا ہے اور نہ امام مسجد ہی دلجمعی کے ساتھ پڑھا پاتا ہے۔ بچے جب بار بار ناغہ کرتے ہیں اور پچھلا پڑھایا ہوا سبق ناغہ کرنے کی وجہ سے بھول جاتے ہیں تو پھر ایسے بچوں کو پڑھانے کا دل نہیں کرتا ہے۔

اگر کوئی شخص روپے پیسے کو صرف نظر کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ پڑھانا چاہتا ہے، تو ایسی جگہ اگر بچے بھی پابندی کریں گے، گھر والے اپنے بچوں کو پابندی سے مکتب بھیجیں گے تب بھی بہت فائدہ ہوگا۔ لیکن یہاں بھی وہی پریشانی ہے کہ بچے پابندی نہیں کرتے ہیں، مفت کے پڑھائی کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ یقیناً لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے، لیکن اگر صبر و استقامت کے ساتھ کام کیا جائے تو زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔

اس کے کئی سارے آسان طریقے ہیں، جیسے فرداً فرداً کہنا۔ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے آئے اور آپ کو پتہ ہے کہ اس کے گھر میں کوئی بچہ ہے تو اس سے پوچھیں کہ وہ کہاں تعلیم حاصل کررہا ہے؟ کونسا اسکول ہے؟ پڑھنے میں کیسا ہے؟ آئندہ کیا ارادہ ہے اور اس اعتبار سے کتنی محنت ہورہی ہے؟ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ اس نے دینی تعلیم کتنی حاصل کی ہے؟ کیونکہ بغیر دینی تعلیم کے محض دنیاوی تعلیم دینا یہ ہمارا مقصد نہیں ہے۔

ب) فراغت کے بعد بعض طلبہ، مدارس میں درس و تدریس کے لیے لگ جاتے ہیں، ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئی نسل کو ایک نئی سوچ اور نئی فکر دیں، ان کو ایک مشن دیں جس پر وہ فراغت کے بعد عمل کریں گے۔ جو بھی ذمہ داری مدرسہ میں ہو اسے بخوبی ادا کریں۔ بطور خاص جو بھی کتاب پڑھانے کے لیے دی جائے اسے محنت و لگن کے ساتھ پڑھائیں۔ طلبہ میں تعلیم کا شوق پیدا کریں۔

ان کو یہ ذہن میں رکھتے ہوئے نصیحت کریں کہ ہر طالب علم میں ایک طرح کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کوئی بہت ذہین ہوتا ہے تو کسی کو بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔ لہذا ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے نصیحت کریں کہ آئندہ زندگی میں وہ کیا کریں گے؟

ہر ایک کو یہ نصیحت کرنا کہ وہ فراغت کے بعد درس و تدریس میں لگ جائیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہر طالب علم میں درس و تدریس کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ کوئی امامت بھی کرے گا، کوئی مدرسہ میں حفظ و ناظرہ پڑھائے گا، اور کسی میں اتنی صلاحیت ہوگی کہ وہ عربی درجات میں پڑھائے گا۔ اور کوئی دوسرے عصری علوم حاصل کرنے میں لگ جائے گا اور پھر اسی کی مناسبت سے ملازمت شروع کردے گا۔

ایسی صورت میں ظاہر سی بات ہے ہر ایک کو درس و تدریس کی نصیحت کرنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ نصیحت ایسی ہونی چاہیے جو ہر میدان میں کام آسکے۔ ہر جگہ رہنمائی کرسکے۔

جیسے ’’جہاں بھی رہو دین و ملت کی خدمت کا جذبہ ذہن میں رکھو، اور اس کی دعوت بھی اپنے آس پاس کے لوگوں کو دو۔ اپنے آس پاس کے لوگوں میں دینی بیداری لانے کی کوشش کرو۔ اگر آپ کے آس پاس غیر مسلم حضرات ہوں تو انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کراؤ، ان کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کرو۔‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں رہیں دین اسلام اور مدارس اسلامیہ کا ترجمان بن کر رہیں تاکہ ان کی وجہ سے دین و ملت کو فائدہ ہو۔

(ج) جو طلبہ مدارس سے فراغت کے بعد دوسرے علوم یا دوسرے مشاغل میں لگ جاتے ہیں ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ بالا باتوں پر عمل کریں اور ہر جگہ دین و ملت کی خدمت و ترقی کا جذبہ رکھیں اور دوسروں کو بھی اس پر ابھاریں۔

نمبر 3) مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب۔

مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب کئی سارے ہوسکتے ہیں، جیسے:

الف) تعلیم میں مسلمان پیچھے ہیں، چاہے وہ دینی تعلیم ہو یا دنیاوی تعلیم۔ کچھ دن تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار میں لگ جاتے ہیں، گھر والے خود ہی انہیں روزگار میں لگادیتے ہیں۔ اس کی وجہ غربت بھی ہے۔ کہیں کہیں لالچ بھی ہے۔ اور تعلیم کی اہمیت کا نہ جاننا بھی ہے۔

ب) دین سے دوری۔ اگر کسی میں کچھ دینداری ہے بھی تو وہ صرف روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ کو ہی کل دین سمجھتا ہے۔ نتیجتاً ان اعمال کو وہ دین سمجھ کر صحیح طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن دیگر اعمال جیسے تجارت، ملازمت، سیاست اور اسی طرح دیگر معاملات کو دین نہیں سمجھتا ہے، وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ اس سلسلے میں دین اسلام نے کیا رہنمائی کی ہے؟

شادی بیاہ کے چند اعمال کو تو دین سمجھ کر کرتا ہے باقی، فضول خرچی کرنا اسلام میں کیسا ہے؟ یہ اسے معلوم نہیں یا معلوم تو ہے لیکن اس کی اہمیت دل میں نہیں ہے اس لیے اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ شراب اور بدکاری کی عادت بھی دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے۔

ج) قیادت کی کمزوری بھی مسلمانوں کی تنزلی کا ایک سبب ہوسکتی ہے۔ مسلمانوں کی قیادت ابھی دفاعی مرحلے میں ہے۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دفاعی مرحلے میں کھیل اپنا بنایا ہوا نہیں ہوتا ہے بلکہ مد مقابل ایک کھیل ترتیب دیتا ہے اور دوسرا فریق اسی کھیل کو سلجھانے میں اپنی قوت صرف کرتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ دفاعی مرحلے سے نکل کر اقدامی مرحلے میں آئیں اور جو مشن ہو اسے اپنے اعتبار سے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ہمیشہ دفاعی مرحلے میں رہیں گے تو اپنے کسی بھی مشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اب وہ مشن چاہے سیاست میں اپنی طاقت منوانا ہو، یا تعلیم میں ترقی ہو یا معاشی ترقی ہو یا جو بھی مشن ہو۔

د) آپسی اختلافات۔ مسلکی اختلافات، برادری کے درمیان اختلافات، علاقے کے اختلافات، ان سارے اختلافات سے اوپر اٹھ کر آپسی اتحاد قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی جس طرح کے اختلافات ہوں اسے ختم کرکے بحیثیت قوم ترقی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہر وہ اختلاف جو بحیثیت قوم، مسلمانوں کے لیے نقصاندہ ہو، اسے ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

نمبر 4) مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب کو ترقی کے اسباب میں کیسے بدلا جائے؟

الف) تعلیمی پسماندگی کا حل یہ ہے کہ عوام کے درمیان تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے، انہیں تعلیم کے فوائد بتائے جائیں، اگر تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟ یہ بتایا جائے۔ عوام کا ذہن بہت دور تک سوچنے والا نہیں ہے، اگر عام لوگوں کو اپنی حالت میں چھوڑ دیا جائے تو وہ کچھ بھی نہیں کریں گے، حالات کے دھارے میں بہہ جائیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

ایک کام یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جس طرح مدارس کے فارغین نے دینی تعلیم کو پھیلانے اور پڑھانے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے اسی طرح دنیاوی تعلیم کو بھی اپنی ذمہ داری اور قوم کی ضرورت سمجھ کر بڑھانے کی کوشش کریں۔

اوپر مدارس کے فارغین کی ایک خصوصیت یہ لکھی گئی کہ اب بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں مدارس کے فارغین پر زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے؛ لہذا اس کا بہتر فائدہ اٹھائیں اور عوام کو ان کی امیدوں پر کھرا اتر کر دکھائیں۔

جس طرح مدارس کے فارغین نے مدارس کھولنے میں محنت کی، لوگوں کی ذہن سازی کی اسی طرح اسکول و کالج کھولنے میں بھی ذہن سازی کریں۔ اور موجودہ اسکول و کالج سے بہتر بنا کر دکھائیں۔ ابھی تو اسکول و کالج پیسہ کمانے کے ادارے ہوگئے ہیں، انہیں مناسب قیمت میں بہتر کام کرکے دکھائیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے کیا فوائد ہیں اہل نظر سےوہ مخفی نہیں ہے۔

ب) دین سے دوری کو اس طرح ختم کرسکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مدارس کھولے جائیں۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ سو فیصد بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کریں۔ تبھی جاکر اسلامی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ محض قرآن کریم کو ناظرہ پڑھ لینا، چند دعائیں یاد کرلینا، نماز و روزے اور دیگر عبادتوں کے فرائض یاد کرلینا اور یہ سمجھنا کہ کل دین یہی ہے، اس فکر کے ساتھ دینی انقلاب نہیں لایا جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر سو فیصد بچے مدرسے میں تعلیم حاصل کریں گے تو معاشرے کے باقی کام کون کرے گا؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ مدرسہ کا ایک محدود اور مخصوص نصاب ہے، جب تک یہ نصاب ہے، اس وقت تک سارے بچوں کا مدارس میں بلانا بھی مناسب نہیں ہے اور نہ ہی سب کے سب آئیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ مدارس کا کوئی ایسا نصاب ہو جس کی طرف اکثریت کا رجحان ہو۔

عوام میں جس طرح کے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے، عام حالات میں انہی کا غلبہ ہوتا ہے اور انہی کی باتیں مانی جاتی ہیں۔ ہاں اگر اقلیت میں کچھ ایسی خصوصیتیں ہوں جس سے وہ عام لوگوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں اور انہیں اپنی طرف مائل کرسکیں تب تو اکثریت کا زور ٹوٹ سکتا ہے۔

جیسے اقلیت تعلیم یافتہ ہو، یا دولت مند ہو، یا جاہ و حشمت والا ہو۔ اگر ان صفات کے ہوتے ہوئے مقابلہ اقلیت اور اکثریت کا ہو تو  کہا جاسکتا ہے کہ اقلیت کسی طرح جیت سکتی ہے۔ اور اگر یہ صفات نہ ہوں تو عام حالات میں جس کی کثرت ہوتی ہے جیت اسی کی ہوتی ہے۔ اس لیے کوشش یہ کریں کہ سو فیصد بچے مدرسوں میں پڑھیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مدارس کے نصاب میں لچک ہو۔

ج) قیادت کی کمزوری کا حل یہ ہے کہ قیادت دو حصوں میں بٹ جائے ایک کا کام منظم طریقے سے دشمن کا دفاع اور دوسرے کا کام اپنے مشن پر ہر حال میں کام کرنا، یعنی اقدام کرنا چاہے دفاع کرنے والے کی جیت ہو یا ہار۔ اس دوسرے حصے سے پہلے حصے کو افراد ملتے رہیں گے۔ دوسرے حصے سے میری مراد تعلیم کو عام کرنے والے۔ جب تک تعلیم میں آگے نہیں آئیں گے اس وقت تک ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک صاحب علم اپنے علم و عقل سے ہزاروں لاکھوں افراد کو قابو میں کرسکتا ہے۔

اور بطور خاص دونوں حصے کو اپنے کام کرنے میں مکمل اختیار دیا جائے۔ اگر دفاع کرنے والا حصہ، مشن پر کام کرنے والوں کے درمیان دخل اندازی کرے گا یا اس کے برعکس ہوگا تو پھر کسی کو کامیابی نہیں ملے گی۔

د) آپسی اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ کہ ہمارے پاس کوئی مشن اور مقصد نہیں ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی زندگی لگائیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ جب ہم منزل سے آزاد ہوکر بالکل خالی بیٹھے ہیں تو اس فرصت میں لڑائیاں اور اختلافات ہوں گے۔

مسلمانوں کا بس ایک ہی مقصد ہے اور ہونا چاہیے اور وہ ہے، حضور ﷺ کی مقصد بعثت کو اپنا مقصد بنانا۔ باقی جو اعمال ضمنی ہوں انہیں ضمنی رکھنا اور جو لازم ہوں انہیں لازم سمجھنا۔ اگر مقصد واضح اور متعین ہو تو آپسی اختلافات بہت کم ہوجائیں گے۔ کیوں کہ ہر شخص اپنے کام میں لگ جائے گا اور ایک دوسرے کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کی اس کے پاس فرصت نہیں ہوگی۔

اخیر میں بس یہی کہوں گا کہ موضوع ایسا ہے جس پر مزید لکھا جاسکتا ہے لیکن الفاظ کی تعداد کا بھی خیال رکھنا ہے، اس لیے میں اسی پر بس کرتا ہوں، امید ہے یہ مضمون قارئین کرام کو پسند آئے گا، اگر پسند آئے تو شیئر ضرور کریں۔ اور کچھ تبصرہ کرنا چاہتے ہوں تو تبصرہ کریں۔ آپ کا تبصرہ ہمارے لیے مفید ہوگا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے