مسلم بچیوں کے ارتداد کے اسباب اور اس کا حل
تمہید
کوئی بدنصیب اپنے ایمان کی ناقدری کرتے ہوئے عارضی اور وقتی دنیاوی فائدے کی خاطر ایمان کو سودا کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اس سودے کو تجارت سے تعبیر کرتے ہوئے انتہائی گھاٹے کو سودا قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’أولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْھُدیٰ فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُھُمْ وَ مَا کَانُوْا مُھْتَدِیْن۔‘‘ (البقرۃ:۱۶) ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔
یہ آیت صاف صاف بتلا رہی ہے کہ جس کسی نے برضا و رغبت ہدایت کے بدلے ضلالت یعنی ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کیا تو ایسے بدنصیب کو قرآن غضب الٰہی اور سخت عذاب سے ڈراتا ہے۔
ایک اور مقام پر قرآن مجید زبردستی کفر اختیار کرنے کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ إیْمَانِهٖ إلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْإیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ، وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘ (سورة نحل: ۱۰۶) ترجمہ: جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کردیا گیا ہو؛ جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو؛ بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو، تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا۔ اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔
یعنی اگر کوئی مومن کلمۂ کفر کہنے پر جان جانے کے اندیشے سے مجبور ہو تو اس جبری صورت کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ دل ایمان پر مطمئن ہو اور اگر کسی نے کلمۂ کفر اختیار و رضامندی سے کہا تو ایسے بدنصیبوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور سخت عذاب ہے۔
چلیے دیکھتے ہیں کہ مسلم بچیوں کے ارتداد کے اسباب کیا ہیں اور اسے کیسے روکا جاسکتا ہے۔
پہلا سبب: دینی تعلیم سے دوری اور اس کا حل
اگر مسلم معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلم لڑکیوں کے ایمان سے ہاتھ دھونے اور ارتداد کی لپیٹ میں آنے کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے ناواقفیت اور دوری ہے۔
اس بے دینی کو ختم کرنے کا حل یہ ہے کہ مکاتب کے نظام کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے اور لوگوں کے جوڑا جائے اور اس نظام کو مضبوط و مستحکم کیا جائے۔
دوسرا سبب: مخلوط تعلیمی نظام اور اس کا حل
معاشرہ میں بگاڑ کے جہاں اور کئی اسباب ہیں، ان میں سے ایک بڑا سبب مخلوط تعلیمی نظام ہے۔ مرد و زن کا اختلاط ہی ایک بہت بڑا فتنہ ہے؛ چاہے وہ تعلیم کے نام پر ہو یا کسی اور ٹائٹل کے ذریعے ہو۔ اسی اختلاط سے کئی ساری برائیاں جنم لیتی ہیں۔ مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں سے تعلقات کا ایک سبب یہی اختلاط ہے۔ ہم کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے مگر دین و ایمان کی سلامتی اور عزت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ۔
اس کا حل یہ ہے کہ اسلامی اسکول و کالجز کا قیام عمل میں لائیں تاکہ مسلم بچے اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ ہر محلہ اور گاؤں میں مکاتب قائم کیے جائیں۔
تیسرا سبب: نکاح کا مشکل ہونا یا تاخیر سے ہونا اور اس کا حل
ارتداد کی ایک اہم وجہ اور اس کا بڑا سبب شادیوں میں لین دین اور فضول خرچی ہے اور بہت زیادہ تاخیر کرنا بھی ہے۔ جہیز، جوڑے کی رقم اور فضولیات نے شادیوں کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ جس کا زیادہ اثر غریب اور متوسط خاندانوں پر پڑا ہے۔
یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ بعض دفعہ لڑکی کے لیے مناسب رشتہ آتا ہے لیکن لڑکی والوں میں بھی حرص کی کمی نہیں؛ وہ بالکل سرکاری نوکری والا لڑکا تلاش کرتے ہیں، پھر چاہے وہ اخلاق کے اعتبار سے کیسا ہی ہو۔ لہٰذا ان چیزوں کی وجہ سے لڑکی والے رشتہ ٹالتے رہتے ہیں۔ اس میں بھی اپنی انا کا مسئلہ رہتا ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ میرے رشتہ دار میں فلانہ کی شادی ایسے لڑکے سے ہوئی جو بہت مالدار ہے، سرکاری نوکری ہے، اور پتہ نہیں کیا کیا ہے، ان کو دیکھ کر دوسرے گھرانے والے بھی ایسا ہی لڑکا تلاش کرتے ہیں اور انتظار کرتے رہتے ہیں، دوسری طرف لڑکی کی عمر ڈھلتی رہتی ہے، جب تھوڑی عمر ڈھل جاتی ہے تو اب ایسے رشتے آتے ہیں جن کو رشتہ سے زیادہ پیسے سے مطلب ہوتا ہے۔ وہ پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ مجھے اتنی رقم چاہیے، گاڑی چاہیے، اور دنیا بھر کی فرمائشیں کرتے ہیں۔
بعض لڑکیاں خود ہی جہیز کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ اپنی سہیلیوں کو دیکھتی ہیں کہ ان کے گھر والوں نے کیا کیا دیا اپنے داماد کو، چنانچہ وہ بھی مطالبہ شروع کردیتی ہیں، بھلے ہی لڑکے والوں کی طرف سے کہہ دیا گیا ہو کہ شادی میں کوئی مطالبہ نہیں ہے۔
لہٰذا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شادی میں تاخیر کی وجہ صرف لڑکوں کا بہت زیادہ مطالبہ نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ لڑکی والے بھی اس تاخیر میں شریک ہوتے ہیں اور بعض دفعہ تو خود لڑکیاں ہی اپنے والدین سے جہیز وغیرہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
بسا اوقات تاخیر کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ لڑکی کچھ کام کرکے پیسے کما رہی ہوتی ہے، اور ماں باپ اس پیسے سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ نہیں چاہتے ہیں کہ اس پیسہ سے کوئی اور فائدہ اٹھائے، اور شادی کی عمر یوں ہی گذر رہی ہوتی ہے۔ اس دوران کوئی رشتہ آجائے تو مختلف حیلے بہانے سے اس کا انکار کردیتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی پیسہ کما رہی ہوتی ہے اور گھر والے چاہتے ہیں کہ اس کی شادی ہوجائے لیکن چونکہ وہ پیسہ کما رہی ہوتی ہے اس لیے وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی اور اچھے رشتوں کو بھی ٹھکرا دیتی ہے، پھر کچھ سال بعد جب اسے کسی ہمسفر کی ضرورت ہوتی ہے تو اب ایسے لڑکے ملتے ہیں جن کو پیسے سے مطلب ہوتاہے۔ ایسی حالت میں لڑکی مجبوری میں شادی کرلیتی ہے یا یونہی انتظار ہی کرتی رہتی ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ ہر علاقے میں شادی کونسل قائم کیے جائیں اور بالخصوص لڑکوں اور لڑکیوں کو سمجھایا جائے، اسلامی شادی کی اہمیت بتائی جائے، رسوم و رواج کو ختم کرنے کے لیے کہا جائے۔ جو اسکول میں پڑھنے والے ہیں ان کی میٹنگ رکھی جائے اور ان کی دینی ذہن سازی کی جائے۔ جب تک ذہن اسلامی رہے گا کوئی فتنہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کام کو کرے گا کون؟ کیا علماء کرام؟ پھر علماء میں بھی کونسے علماء؛ جو مدارس میں پڑھاتے ہیں وہ یا جو مسجد میں امامت کرتے ہیں وہ، یا پھر عام دینی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ؟ دینی سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے بہت زیادہ امید نہیں رکھی جاسکتی اس لیے کہ وہ لوگ جو کام کرنے نکلتے ہیں ان کی اہمیت ان کے نزدیک فرائض سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کیا کیا گل کھلائیں گے۔ ہاں علماء کرام کی نگرانی میں ہو تو پھر یہ امکان نہیں ہے۔ رہی بات علماء کرام کی تو ان کی تعداد اتنی کم ہے، نیز تنخواہ وغیرہ بھی اتنی کم ہے کہ وہ اپنے گذر بسر کے لائق کمائی کرنے میں ہی سارا وقت لگاتے ہیں۔ اور جو علماء اس میدان میں نہیں ہیں یعنی مساجد و مدارس میں نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے کام کرتے ہیں ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
لہٰذا ضرورت اس کی ہے کہ مدارس کو بڑھایا جائے، اور انہیں عوام سے جوڑا جائے۔ دھیرے دھیرے عوام کا رجحان مدارس کی طرف سے کم ہو رہا ہے اس کے اسباب اور حل تلاش کیا جائے۔ مدارس کو اپڈیٹ کیا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے مدارس میں آسکیں۔ ورنہ جو بھی باتیں اوپر بیان کی گئی ہیں وہ صرف لکھنے کی ہوں گی حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں رہے گا، اور نہ کبھی اس پر کام ہو سکے گا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے بوسیدہ دیوار کی لیپائی پوتائی کی جارہی ہو۔ جب تک جڑیں پختہ نہ ہو ایسی دیوار پر کوئی عمارت صحیح طرح اور دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی۔
چوتھا سبب: بےجا آزادی اور بے پردگی
اسلامی نظام کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایا جائے۔ ان میں حیا داری عفت و عصمت کی حفاظت کا جذبہ اور عقیدۂ توحید و رسالت کی عظمت پیدا کی جائے۔ روزانہ ہمارے گھروں میں آدھے گھنٹے ہی سہی کسی اچھی مستند اور ذہن و دل کو متأثر کردینے والی کتاب کو پڑھا جائے۔
اس طرح کے اجتماعات میں بچوں کو بھی شریک کیا جائے کیوں کہ تربیت کی ضرورت بچیوں کی طرح بچوں کو بھی ہے اور ارتداد جس طرح بچیوں کے درمیان ہے اسی طرح بچوں کے درمیان بھی ہے؛ بس لڑکیوں کا ارتداد مشہور ہوجاتا ہے اور بچوں کا ارتداد معلوم نہیں چلتا ہے۔ لیکن دینی تربیت کی ضرورت دونوں کو ہے۔ اس لیے دونوں کو دھیان میں رکھیں۔ اور خاص طور سے بچیوں پر دھیان دیں کیونکہ بچیاں جمعہ کے دن مسجدوں میں نہیں جاتی ہیں اور بچے جاتے ہیں اور دین کی باتیں سنتے ہیں۔
آج کل یہ فیشن چل پڑا ہے کہ اپنے بچوں کو مکمل آزادی دی جائے، وہ جو کریں انہیں کرنے دیا جائے، ان کو اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینے دیا جائے، ان کو آزادی کے نام پر ہر طرح سے چھوٹ دی جائے۔ ظاہر سی بات ہے کسی بھی تربیت کے لیے سختی اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر والے اس جگہ آزادی نہیں دیتے ہیں جہاں ایک طرف آزادی ہو اور دوسری طرف تعلیم ہو یعنی اگر بچہ اپنی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے اسکول نہ جائے تو غلط؛ لیکن آزادی کے نام پر بچپن ہی سے بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کرے تو آزادی یعنی دنیاوی مستقبل کی فکر زیادہ اور اخروی مستقبل کی فکر کم۔ اسی طرح اور بھی معاملات ہیں جہاں اسلام کو آزادی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے والدین سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنے گھر میں دینی ماحول پیدا کریں گے؛ نا ممکن ہے۔ جب والدین ہی بے دین ہوں اور وہ خود اسلام سے متنفر ہوں یا کم سے کم اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہوں یا جاننا نہیں چاہتے ہوں تو وہ اپنے بچوں بچیوں کی دینی فکر کیسے کر سکتے ہیں؟ لہذا اس کا حل یہ ہے کہ گاؤں گاؤں محلہ محلہ مکتب کا نظام قائم کیا جائے اور مکتب کے نظام کو اعلیٰ معیار کا بنایا جائے۔ ایسا بنایا جائے کہ جس کا بچہ وہاں پڑھے، اس کے والدین فخریہ کہہ سکیں کہ میرا بچہ فلاں مکتب میں پڑھتا ہے۔ مدارس کو اپڈیٹ کیا جائے۔ مدارس آج جس طرح دیکھنے میں خستہ حال ہیں اسی طرح نظام وغیرہ کے اعتبار سے بھی خستہ ہیں۔ ان کو اپڈیٹ کیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ ہم عام حالات میں نہیں ہیں ہیں بلکہ مقابلہ کی حالت میں ہیں۔ صف بندی ہورہی ہے۔ اس وقت اگر بیدار نہیں ہوئے تو ہمارا وجود ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ ایسے والدین کے پاس پہنچا جائے اور انہیں ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کا معیاری مکاتب میں داخلہ کرائیں۔
یہ کام علماء ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس افراد کی کمی ہے، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مدارس کو بڑھایا جائے۔ اگر حالات کے اعتبار سے ہم اپنے آپ میں مناسب تبدیلی نہیں کریں گے تو حالات خود ہمیں بدل دیں گے اور ہمیں کسی جگہ سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے ٹھنڈے دل سے اپنے مدارس کا جائزہ لیجئے اکابر پرستی کو چھوڑیے بلکہ اکابر کا احترام اپنی جگہ ہم یہ سمجھ کر قدم اٹھائیں کہ انہوں نے اپنے وقت کے حساب سے کام کیا ہمیں بھی اپنے وقت کے حساب سے کام کرنا ہوگا۔ اپنے دماغ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ دماغ ایسی چیز ہے جس کو جتنا بھی زیادہ استعمال کریں وہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا رہتا ہے۔ تو کسی تبدیلی کے لیے نہ سہی اپنا دماغ بڑھانے کے لیے ہی غور و فکر کریں۔ اور سوچنا سمجھنا لوگوں کے اقوال کا تجزیہ کرنا شروع کریں ورنہ اگر اس نظام کے خلاف بغاوت ہوگی تو پھر پوری عمارت ڈھہہ جائے گی اور نیا معمار اپنے اعتبار سے عمارت کھڑی کرے گا وہ پرانے معماروں کو منھ ہی نہیں لگائے گا۔
برائی کا اصل سبب
برائی کا اصل سبب دینی تعلیم کی کمی اور مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا فقدان ہے۔ آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے؟ ہم مسلمان کیوں ہیں؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی اور حقیقی فرق ہے؟
دین سے دوری تو ہوگی جب علماء سے دوری ہو۔ آج کل بہت سارے مسلمان جو لبرل ہیں وہ لوگوں کو مختلف طریقے سے علماء کرام سے بدظن کر رہے ہیں۔ ان کی آپسی اختلافات کو ذاتی اختلافات باور کرا رہے ہیں اور یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح مسلم عوام علماء سے کٹ جائے، پھر تو وہ قرآن و سنت سے خود بخود کٹ جائیں گے یا کم سے کم دینی احکامات کے متعلق شکوک و شبہات میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے جو لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر عوام کو علماء سے بدظن کر رہے ہیں وہ بھی اس فتنۂ ارتداد میں مرتد بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔
لبرل لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلم عوام اور غیر مسلم دونوں برابر ہیں۔ دین کی اہمیت کو مختلف طریقوں سے گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دین کی بندش سے ہر شخص آزاد ہو جائے۔
آج کل اسکولوں اور کالجوں میں یا تو ہندوتوا کو بڑھاوا دیا جارہا ہے یا کم سے کم طلباء کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ ہندو مسلمان اور سارے مذاہب برابر ہیں، سب کی منزل ایک ہے۔ سب ایک آدم کی اولاد ہیں۔ اس سے مسلمان بچے اپنے کو اور دیگر مذاہب والوں کو ایک دوسرے کے برابر سمجھنے لگتے ہیں۔ بس فرق اتنا سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے اس لیے مسلمان اور میرا دوست غیر مسلم کے گھر میں پیدا ہوا اس لیے غیر مسلم (ہندو، عیسائی وغیرہ) حالانکہ قرآن کریم میں صاف صاف ہے: "لَا یَسْتَوِيْ أَصْحَابُ النَّارِ وَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ، أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُوْن” ترجمہ: جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ جب ہم نے ان کو اپنے ہی جیسا ایک مذہب کا ماننے والا سمجھ لیا تو ہم نے اپنی اہمیت کو گھٹا دیا۔
خاتمہ: اسلام سے پھر جانے والے بچے اور بچیوں کی گھر واپسی کیسے ہو؟
اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے رابطہ کیا جائے، انہیں اعتماد میں لیا جائے، یہ دیکھا جائے کہ کیا اس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا ہے یا پیار میں پاگل ہوکر ایسا قدم اٹھایا ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو کچھ دن کے بعد پیار کا بھوت اور سارا نشہ اتر جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر سمجھایا جائے تو مؤثر ہو سکتا ہے۔
اگر پہلی صورت ہو تو اس کے سامنے اس طرح اسلام پیش کرنا ہوگا جس طرح ایک غیر مسلم کو کرتے ہیں۔
اگر جھوٹا پیار دکھا کر لڑکے نے دھوکے سے اسے مرتد کیا ہے تو وہ لوگ نگرانی بھی کریں گے کہ کہیں لڑکی دوبارہ مسلمان نہ ہو جائے۔ ایسی صورت میں لڑکی کو جان کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔
یقیناً اسلام سے پھر جانا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اس کے بعد گھروالوں کا غصہ کرنا اپنی جگہ درست ہے لیکن ایسی حالت میں لڑکی کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا اس پر ہمیشہ کے لیے اپنے دروازے کو بند کر دینے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے ایسی حالت میں اپنے اوپر قابو رکھا جائے اور وقتی غصہ کو ختم کرکے اس سے نرمی سے پیش آیا جائے۔ اسے یہ بھروسہ دلایا جائے کہ یہ گھر تمہارا ہے۔ تمہارے مذہب بدلنے سے خون کا رشتہ نہیں بدل جائے گا۔ تاکہ آئندہ جب بھی اسے اپنے عمل پر پشیمانی ہو اور وہ اسلام کی طرف آنا چاہے تو اسے کسی طرح کی جھجک محسوس نہ ہو۔