عظمت صحابہ پر تقریر، اچھی تقریریں، اردو تقریر

عظمت صحابہ پر تقریر

الحمد للّٰه رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین و علی اٰلهٖ و أصحابهٖ أجمعین، أما بعد فاعوذ باللّٰه من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰه الرحمن الرحیم، أولائک الذین امتحن الله قلوبھم للتقوی لھم مغفرۃ و أجر عظیم، و قال النبي صلی الله علیه و سلّم: أصحابي کالنجوم بأیِّھِم اِقْتَدَیْتُم اِھْتَدَیْتُمْ۔

عظمت صحابہ پر تقریر

الہی دے مجھے طرز تکلم  میری آواز کو تو روشنی دے
مجھے افکار صالح کرعطا تو میر تحریر کو تو روشنی  دے

لائق صدر احترام  معزز سامعین

آج کے اس  با وقار جلسے میں ان اصحاب خیر کا تذکرہ ہوگا جن کے بارے میں اللہ جل جلالہ عم نوالہ نے ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں کو اللہ پاک نے تقوی کے لیے خالص کر دیا ان کے لیے مغفرت کا اعلان اور اجر عظیم ہے۔ نیز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاری زبان سے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتداء  کرو گے راستہ پا جاؤں گے۔

دوستو!

خالق و مالک کا یہ دستور رہا ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے رسولوں کو بھیجتا رہا؛ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھیجا۔
حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھیجا۔
حضرت موسی علیہ السلام کو بھیجا۔
حضرت عیسی علیہ السلام کو بھیجا۔
آخرمیں شہنشاہ بطحا تاجدارمدینہ سرور کائنات خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔
اب نبیوں کا سلسلہ ختم، رسولوں کا سلسلہ ختم، قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں، یہ دین آخری دین ہے، یہ شریعت آخری شریعت ہے، یہ مذہب آخری مذہب ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو صحابہ کی وہ پاکیزہ اور مقدس جماعت عطا فرمائی کہ جس نے مذہب اسلام کو زندہ کرنے اور پھیلانے میں تن من دھن کی بازی لگا دی۔

چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ ان سچے جانثاروں نے دین اسلام کی خاطر وہ قربانی پیش کی ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے عالم انسانیت تہی دامن اور خالی ہے۔ یہی صحابہ ہیں جنہوں نے حکم خداوندی اور پیغام محمدی کو عام کرنے کے لیے گردنیں کٹادیں، عورتوں کو بیوہ بچوں کو یتیم کردیا۔

محترم حضرات!

صحابۂ کرام کی جماعت وہ جماعت ہے جس کو رب کائنات نے درسگاہ نبوت کے لیے منتخب فرمایا۔ ہادیٔ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا معلم بنایا اور کتاب ہدایت قرآن پاک عطا فرمائی۔ علام الغیوب نے خود ان کا امتحان لیا۔ صحابہ کا یہ مقدس گروہ امتحان میں پورا اترا۔ خداوند قدوس نے انعام میں رضی اللہ عنہم و رضوا عنه کا مژدہ  سنایا حقیقت یہی ہے کہ صحابہ کرام دین کے ستون ہیں، صحابہ کرام کنتم خیر أمۃ کے بلاواسطہ مخاطب ہیں۔

دوستو صحابہ پاک باز ہیں، ان کے قلوب تقوی طہارت سے لبریز ہیں، قرآن پاک میں جابجا اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے، قرآن پاک ان کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔

کہیں فرمایا: أولائک ھم  المفلحون۔
کہیں فرمایا: أولائک ھم الرشدون۔
کہیں فرمایا: أولائک ھم الصادقون۔
کہیں فرمایا: اولائک ھم الفائزون۔

حدیث پاک میں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بخاری شریف کی روایت ہے: اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ کرام کے ایک پاؤ کے برابر بھی نہیں۔ اللہ اکبر!

ملت اسلامیہ کے جیالو! صحابہ واجب الاحترام ہیں، ان کا تذکرہ اچھائی کے ساتھ کرنا لازم اور ضروری ہے۔
یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دین اسلام کے لیے زندگی وقف کر دی تھی۔
یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے آفتاب ہدایت سے بلاواسطہ نور حاصل کیا تھا۔
یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے ہمیشہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔
یہ وہ صحابہ ہیں جنہیں خوف خدا کا سرمایہ حاصل تھا۔
یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے گھر بار چھوڑ کر رضائے حق کو اپنی زندگی بنایا۔
یہ وہ صحابہ ہیں جو حق و صداقت کا مجسم نمونہ تھے۔
یہ وہ صحابہ ہیں جو سربکف مجاہد تھے۔
یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر صدائے جہاد پر لبیک کہا۔
یہ وہ صحابہ ہیں جن کی نعش کو فرشتوں نے غسل دیا۔
یہ وہ صحابہ ہیں جو موت سے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی تھی۔
یہ وہ صحابہ ہیں جن کو سمندروں نے راستہ دیا۔
یہ وہ صحابہ ہیں جن کو شیر نے سواری دی۔

یہی وجہ ہے کہ دربار رسالت سے ان کو أصحابي کالنجوم کا مژدہ ملا، قرآن نے ان کی تعریف کی، اللہ نے ان کی تعریف کی، رسول نے ان کی تعریف کی، مگر اے مذہب اسلام کے  متوالو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا تھا کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی، ہر فرقہ ناری اور جہنمی  ہو گا، مگر ایک فرقہ نجات پانے والا ہوگا۔ نجات پانے والا فرقہ وہ ہوگا جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر گامزن ہو۔

دور حاضر کی نگاہوں نے دیکھ لیا کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف بلاریب صادق ہوئی، کوئی تقلید کے عدم جواز کا قائل ہے، تو کوئی عظمت انبیاء پر ناپاک حملہ کر رہا ہے۔ کوئی حدیث کا منکرہے، تو کوئی قرآن پاک کی تحریف کا قائل ہے، کوئی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر و ناظر اور مختار کل ہونے کا عقیدہ تراشے ہوئے ہے، تو کوئی ختم نبوت کا منکر ہے۔

دوستو رونے کا مقام ہے، کہ ہمارے ملک ہندوستان میں ایک جماعت اور فرقہ وہ ہے، جو صحابہ کرام پر کیچڑ اچھالتا ہے، صحابۂ کرام کے دامن عفت کو داغدار بنا رہا ہے، صحابہ کرام کے تقدس کو پامال کررہا ہے، صحابہ کی سیرت پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، لٹریچر تیار ہو رہا ہے، شب و روز  محنت جاری ہے۔ افسوس صد افسوس صحابہ کے فضائل نظر نہیں آتے، محاسن نظر نہیں آتے کسی نے سچ کہا ہے:

آنکھیں اگرہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتاب کا

کہیں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عزت کو داغدار بنایا جاتا ہے، وہ عثمان غنیؓ جو صحابیٔ رسول تھے، خلیفہ رسول تھے، وہ عثمانؓ کہ بیعت رضوان میں خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو ان کا ہاتھ قرار دیا۔

کہیں حضرت علیؓ و معاویہؓ کی شان پر دھبہ لگایا جاتا ہے۔ وہ علی جو صحابی رسول تھے، خلیفہ رسول تھے، داماد رسول تھے۔

وہ امیر معاویہ جو صحابیٔ رسول تھے، جن کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، جن کے بارے میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کے اوپر کا غبار عمر بن عبد العزیز سے ہزار درجے بہتر ہے۔

ان کی شان میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود اور ان کے حکم سے تمام گورنر خطبوں میں برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کی صریح طور پر مخالفت کی۔ کہا جاتا ہے کہ مال غنیمت کی تقسیم میں انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی خلاف ورزی کی۔

ہائے افسوس! کاش ان برائی کرنے والوں کا قلم ٹوٹ جاتا۔ کاش ان کا ہاتھ شل ہو جاتا۔ کاش ان کی زبان ماؤف ہو جاتی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں ان برائی کرنے والوں سے کہ

عرب کے تپتے ہوئے صحرا اور دھوپ میں ظلم و ستم کس نے برداشت کیا صحابہ نے
اسلام کی خاطر قربانی کس نے دی صحابہ نے
گردنیں کس نے کٹائی صحابہ نے
عورتوں کو بیوہ بچوں کو یتیم کس نے کیا صحابہ نے
راہ خدا میں مال و دولت کس نے لٹایا صحابہ نے
جانوں کا نذرانہ کس نے پیش کیا صحابہ نے
اسلام کو کس نے پروان چڑھایا صحابہ نے
حق و صداقت کا پرچم کس نے لہرایا صحابہ نے
باطل کے جھنڈے کس نے گرائے صحابہ نے
کفر  و شرک کا گلا کس نے گھونٹا صحابہ نے
پیٹ پر پتھر کس نے باندھے صحابہ نے
فاقوں پر فاقے کس نے کیے صحابہ نے
الغرض صحابۂ کرام نے وہ حیرت انگیز کارنامے انجام دیے جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

محترم حضرات

صحابہ کرام کو برائی کے ساتھ یاد کرنا ناجائز اور باطل ہے۔ صحابۂ کرام کو برا بھلا کہنا خداوند قدوس کی مخالفت ہے۔ صحابۂ کرام کو برا بھلا کہنا رسول کی مخالفت ہے۔ صحابۂ کرام کو برا بھلا کہنا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی مخالفت ہے۔ مشکاۃ شریف کی روایت ہے، تاجدار مدینہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله الله في أصحابي، لا تتّخِذُوھُمْ غَرَضاً مِنْ بَعْدِيْ، فَمَنْ أحَبَّھُمْ فَبِحُبّيْ أحَبَّھُمْ، و مَنْ أبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِيْ أبْغَضَھُمْ، و مَنْ اٰذاھُمْ فَقَدْ اٰذاني و مَنْ اٰذاني فَقَدْ اٰذَی اللّٰهَ، و مَنْ اٰذَی اللهَ فَیُوْشِکُ أنْ یّأخُذَہٗ۔ (الحدیث)

کہ اے لوگو میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ میرے بعد ان کو اعتراض کا نشانہ مت بنانا۔ جو ان سے محبت کرے گا تو مجھ سے محبت کی بنا پر ان سے محبت کرے گا، اور جو ان سے دشمنی کرے گا تو مجھ سے دشمنی کی بنا پر دشمنی کرے گا، اور جو ان کو دکھ دے گا اس نے مجھ کو دکھ دیا، اور جس نے مجھ کو دکھ دیا، پس اس نے اللہ کو ستایا اور جس نے اللہ کو ستایا، عنقریب اللہ پاک اس کو عذاب میں گرفتار کرے گا

کیا یہ حدیث پاک برائی کرنے والوں کو نظر نہیں آتی۔ یاد رکھو جو لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کے تقدس کو اور دامن عفت کو تارتار کر رہے ہیں، وہ رسول پاک علیہ الصلاۃ و السلام سے کھلم کھلا بغاوت کر رہے ہیں۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے الفاظ میں فرمایا، لا تسبوا احدا من اصحابی میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو۔

دوستو حیرت کا مقام ہے کہ دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک تو کنتم خیر أمةٍ أخرجت للناس کہہ کر ان کو  خیر امت کے لقب سے نواز رہا ہے۔

قرآن پاک تو رضي الله عنھم و رضوا عنه کہہ کر ان سے اللہ کی رضامندی و خوشنودی کا اعلان کر رہا ہے۔

 قرآن پاک تو و أعدّ لھم جناتٍ تجري تحتھا الأنھار کہہ کر ان کو  جنت کا  سرٹیفیکٹ اور سند دے رہا ہے۔

قرآن پاک تو و سلام علی عبادہ الذین اصطفٰی کہہ کر ان کو منتخب اور چنیدہ بندے قرار دے رہا ہے۔

 قرآن پاک تو و کُلّاً وّعَدَ اللهُ الحُسْنیٰ  کہہ کر ان کو جہنم سے دور ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔

مگر ہم ہیں کہ ان کے پیروں کی دھول بھی نہیں، صحابہ پر تنقید کرتے ہیں، ان کی برائی بیان کرتے ہیں، صحابہ پر طعن و تشنیع کر تے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مقدس کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں، رب ذوالجلال کے امتحان کے بعد اور اس کی رضامندی کے بعد صحابۂ کرام کو تنقید کا نشانہ بنانا بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم کیا ہیں ہماری حقیقت ہی کیا ہے، ہمیں کچھ پتہ نہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے:

غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر
دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی

مسلمانوں!

یاد رکھو! صحابۂ کرام کی برائی کرنا ضلالت ہے، گمراہی ہے، چونکہ قرآن حق ہے، رسول حق ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو تعلیمات اور احکام لے کر آئے وہ حق ہیں، یہ تمام چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابۂ کرام ہیں، لہٰذا جو شخص صحابہ کی ذات کو نشانہ بناتا ہے، وہ قرآن و سنت کو باطل کرنا چاہتا ہے۔

دوستو!

آؤ ہم سب مل کر اس بات کا عہد کریں کہ صحابہ کے تقدس کی حفاظت کریں گے اور تادمِ حیات اسلام کی پاسبانی کریں گے۔ دعا کیجیے کہ خالق ارض و سماء پورے عالم کے مسلمانوں کو عقیدے کی سلامتی عطا فرمائے، اور اسلام دشمن طاقتوں اور باطل فرقوں کی ریشہ دوانیوں کا خاتمہ فرمائے، اور اللہ پاک ہم سب کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام نصیب فرمائے۔ آمین!

وَ اٰخِرُ دَعوانا أن الحمدُ للّٰه ربِّ العالَمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے