فضیلت قرآن پاک پر تقریر، اچھی تقریریں، اردو تقریر

فضیلت قرآن پاک پر تقریر

نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم اما بعد قال الله تبارک و تعالی فی القرآن المجید اعوذ باللّه من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم ’’ذالک الکتاب لا ریب فیه ھدی للمتقین‘‘ و قال النبی صلی الله علیه و سلم: خیرکم من تعلم القرآن و علمه (الحدیث)

فضیلت قرآن پاک پر تقریر

الہی رونق اسلام کے سامان پیدا کر
دلوں میں مومنوں کے الفت قرآن پیدا کر

صدر محترم

اسٹیج پر رونق افروز بزرگان دین اور حاضرین جلسہ!

آج کی اس محفل میں آج کے اس مبارک اجلاس میں میرا موضوع سخن دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک ہے۔

ہمیں چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ اس کا ایک ایک حرف سچا اور صادق ہے۔ وہ قرآن پاک جس کی زبان مقدس بیان مقدس اور جو فصاحت و بلاغت کا ٹھاٹے مارتا سمندر ہے۔ جس کے متعلق ارشاد ربانی ہے قرآن وہ کتاب ہے جس کے صادق اور برحق ہونے میں کوئی شک و شعبہ نہیں اور جس کے بارے میں محسن انسانیت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے۔ دعا کیجیے کہ خداوند قدوس ہم سب کو قرآن پاک کی دولت سے مالا مال فرمائے آمین۔

نوجوان دوستو!

قرآن پاک رب ذوالجلال کی طرف سے عطا کردہ وہ حسین تحفہ ہے کہ جس نے ۲۳ برس کی قلیل مدت میں پورے عالم میں وہ انقلاب برپا کر دیا کہ بڑے سے بڑے فصحاء، بلغاء، ادباء اور شعراء حیران و ششدر رہ گئے۔ جس کی آیتوں کو سن کر پتھر دل موم ہو گئے، دوستو! یہی وہ قرآن ہے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے سراپا ہدایت و رحمت ہے، یہی وہ قرآن ہے جس نے رسول کی رسالت کو اعزاز بخشا، یہی وہ قرآن ہے جس نے پژمردہ قلوب کو تازگی بخشی، ہاں ہاں یہی وہ قرآن ہے جس کی برکت سے جنات و شیاطین کا آسمانوں پر جانا بند ہوا۔

یہی وہ قرآن ہے جس کی برکت سے عزت و رفعت کے شامیانے گڑ گئے، یہی وہ قرآن ہے جس کی بدولت محبوب حقیقی کی رضا نصیب ہوتی ہے، یہی وہ قرآن ہے جو سچائی اور امانت داری کا درس دیتا ہے، یہی وہ قرآن ہے جس کی بدولت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایمان نصیب ہوا، یہی وہ قرآن ہے جس کی کی نظیر پیش کرنے سے ساری دنیا عاجز و قاصر رہی، یہی وہ قرآن ہے جس کا مثل پیش کرنے سے عرب کے فصیح و بلیغ زبان دانی کا دعوی کرنے والوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہی وہ قرآن ہے جس نے ضلالت و گمراہی کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کو رشد و ہدایت کا پیغام سنایا، یہی وہ قرآن ہے، جس کی حفاظت کا وعدہ خود خالق کائنات نے فرمایا، یہی وہ قرآن ہے، جس کی تلاوت میں دلوں کے واسطے فرحت و بشاشت کا سامان ہے۔

یہی وہ قرآن ہے جس نے ذہنی قوتوں کو جلا بخشا، یہی وہ قرآن ہے جس کی برکت سے اجڑے چمن میں بہار پیدا ہوئی۔

محترم حضرات!

آج کے اس نازک دور میں حفظ کلام پاک کو فضول سمجھا جاتا ہہ، اس کے الفاظ رٹنے کو حماقت بتلایا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کا رٹنا اور بے سمجھے پڑھنا بے سود ہے، افسوس صد افسوس اس قرآن پاک کے بارے میں ہمارا یہ خیال کہ جس کے بارے میں شہنشاہ بطحیٰ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اِقرأ و ارتقِ و رَتِّلْ کما کُنْتَ تُرَتِّلُ في الدُّنْیَا فإنَّ منزِلَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَةٍ تَقْرَءُھا‘‘ (الحدیث)

قیامت کے دن حافظ قرآن سے کہا جائے گا، قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا، بس تیرا مقام اور ٹھکانہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے، یاد رکھو یہ قرآن دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، یہ زمین و آسمان چاند سورج ستارے کوئی اس نعمت کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ قرآن رب کائنات کا مقدس اور عظیم کلام ہے، اور کیوں نہ ہو جب کہ اس کا اتارنے والا امین، جس کے ذریعے اتارا گیا وہ بھی امین، جس ذات پر نازل ہوا وہ بھی امین، جس مقام پر نازل ہوا وہ بھی امین۔

جس مہینے میں نازل ہوا وہ تمام مہینوں سے افضل، اور جس رات میں نازل ہوا وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ کا یہ مقدس اور پاکیزہ کلام تمام کلام سے افضل اور برتر ہے، حدیث پاک میں آتا ہے: ’’فَضْلُ کَلَامِ الله عَلیٰ سَائِرِ الْکَلَام کَفَضْلِ اللهِ عَلیٰ خَلْقِه‘‘ اللہ کے کلام کو سب کلاموں پر ایسی ہی فضیلت ہے، جیسے کہ خود حق تعالی شانہ کو تمام مخلوق پر اللہ کا دلارا اور خدا کا پیارا نبی ارشاد فرماتا ہے کہ جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا اس کے والدین کو کل قیامت کے دن سورج سے بھی زیادہ روشن تاج پہنایاجائے گا۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ جب والدین کو اس گراں قدر انعام سے نوازا جائے گا تو خود پڑھنے والے کے مقام اور مرتبے کا کیا عالم ہوگا؟

حضرات

قیامت کا میدان ہو گا اور ایسے١٠ آدمی جن کے لیے جہنم واجب ہوچکی ہوگی حافظ قرآن اپنے رب کی بارگاہ میں سفارش کرے گا پروردگار عالم اس کی سفارش قبول کرے گا اور ان کو اس حافظ قرآن کی برکت سے نجات عطا ہوگی۔

مسلمانو!

قرآن کریم وہ عظیم برکت اور سعادت ہے، جو روح خداوندی ہے، معدن حیات اور سرچشمہ زندگی ہے، وہ عرب قوم جو پشتہا پشت سے مردہ چلی آرہی تھی، دنیا جس کو ذلیل اور حقیر جانتی تھی، کوئی ان کو اونٹ کی مینگنیوں میں کھیلنے والا سمجھتا، کوئی ان کو جہلاء عرب کا خطاب دیتا، کوئی ان کو جاہلین مکہ کہتا، لیکن جب قرآن آیا تو جن کا نام جہلاء عرب تھا صحابہ کرام ہو گیا، جن کو نفرت سے یاد کیا جاتا تھا، ان کو رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا اعجاز ملا، جس زمانے کا نام جاہلیت تھا اس کا نام خیرالقرون ہوگیا، وہ مردہ قوم جو کروٹ نہیں لے سکتی تھی طاقت و قوت سے ایسی لیس ہوگئی کہ جس نے قیصر و کسریٰ کا غرور خاک میں ملادیا، بڑی بڑی سلطنتوں اور حکومتوں کا تختہ الٹ دیا۔

محترم دوستو

قرآن آیا تو زمان و مکان میں زندگی آئی، قرآن آیا تو عدل و مساوات کا پیغام آیا، قرآن آیا تو مذہب اسلام پھیلا، قرآن آیا تو مردہ قوم زندہ ہوئی، قرآن آیا تو قیصر و کسریٰ کا غرور خاک میں ملا، قرآن آیا تو باطل کے لہراتے جھنڈے ٹوٹ پڑے۔

قرآن آیا تو کفر و شرک دم توڑ گیا۔
قرآن آیا تو ساری کائنات کو نور ملا۔
قرآن آیا تو انسانوں کے پجاری خدا کے پرستار بنے۔
قرآن آیا تو توحید ملی، ایمان ملا۔
قرآن آیا تو گلستاں کو بہار حسن عطا ہوا۔
ہاں ہاں مجھے کہ لینے دیجیے، کہ قرآن آیا تو روشنی آئی۔
قرآن آیا تو تاریکی کافور ہوئی۔
قرآن آیا تو امن و امان اور سلامتی آئی۔
قرآن آیا تو احکام ملے شریعت ملی۔
قرآن آیا تو دم توڑتی انسانیت کو حقوق ملے۔
قرآن آیا تو شرافت و عزت ملی۔
قرآن آیا تو دوستو سب کچھ ملا۔

مگر افسوس صد افسوس ہم نے قرآن کے دامن مقدس کو ترک کردیا، ہم نے اس کی پاکیزہ تعلیمات کو بھلا دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلم قوم جس کے سر پر عزت و رفعت کا تاج تھا، ذلت و رسوائی کی غار میں جا گری، وہ قوم کامیابی جس کے آگے بڑھ کر استقبال کرتی تھی، ناکامی اس کا مقدر بن گئی، وہ مسلم قوم جس کی ایک آواز پر افریقہ کے جنگل میں رہنے والے خونخوار درندوں نے میدان خالی کر دیا تھا، آج ایک چیونٹی بھی اس کا حکم ماننے کو تیار نہیں، وہ قوم جس نے کبھی حکومت و سلطنت کا فریضہ انجام دیا تھا آج غلامانہ زندگی بسر کر رہی ہے، وہ قوم جن پر کبھی تاریخ نازاں تھی آج ماتم کناں ہے۔ وہ قوم جس کی ماضی روشن اور تابناک تھی حال ومستقبل اس کا تاریک ہے۔

مسلمانو!

سمجھو اور ہوشیار ہو جاؤ غفلت کا پردہ چاک کرو قرآن پاک سے وابستہ ہو جاؤ ورنہ یاد رکھو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

حاضرین جلسہ!

جاں نثار صحابہ کرام کے کتب خانے میں قرآن پاک کے علاوہ کوئی کتاب نہ تھی، اسی کو لے کر وہ آگے بڑھے اور کامیابی ان کے قدم چومتی چلی گئی، وہ قرآن ہی تھا جس کی برکت سے بدر کے میدان میں ۳۱۳ نے مکہ کی قسمت پلٹ دی، آج ہم ہیں کروڑوں میں مگر دوسری قوتیں ہم پر سوار ہیں، جان ہماری محفوظ نہیں مال ہمارا محفوظ نہیں، عزت و آبرو سے ہماری کھلواڑ ہے، ہماری مساجد محفوظ ہے نہ ہمارے مدارس محفوظ ہیں، ظلم و ستم کی چکّی ہمارے لیے گھوم رہی ہے۔

مسلمانو! ایک دور وہ تھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ ہامان بن ولی سے ہوتا ہے، اس دشمن خدا اور دشمن رسول کے پاس طاقت اور قوت ہے، ساٹھ ہزار فوج کا لشکر جرارہے، مسلمانوں کی فوج دس ہزار ہے، اسلامی فوج کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید ہیں۔

مسلمانوں کو اس کا علم نہیں کہ دشمن کے پاس کتنی فوج ہے، مشورہ ہوتا ہے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا جاتا ہے کہ آپ ۳۰۰ آدمی لے کر جائیں اور پتہ لگائیں کہ دشمن کی فوج کہاں ہے، اس کی تعداد کتنی ہے، اور اس کے پاس سامان کیا ہیں صحابی رسول صلعم کی ایمانی قوت دیکھئے، فرماتے ہیں کہ ۳۰۰ کی ضرورت نہیں، میرے ساتھ صرف تیس آدمی کافی ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں، کہ آپ کی قوت ایمانی آپ کو مبارک ہو مگر یہ دنیا دار الاسباب ہے، تیس آدمی کچھ نہیں ہوتے کم از کم ۶۰ آدمی لے جاؤ چنانچہ تیس آدمیوں کا اضافہ کر دیا گیا، اور اسلامی فوج کا یہ لشکر ہے اس کی تعداد ۶۰ ہزار ہے۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ایمان حرارت جوش میں آئی فرمایا کہ دشمن کا لشکر سامنے ہے، میری رائے ہے کہ ادھر منتظر صحابہ کرام کو اطلاع کی ضرورت نہیں، ان سے مقابلہ کے لئے ہم کافی ہیں، سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں شوق شہادت ہے، جب شہادت سامنے ہے تو دشمن کی کثرت تعداد سے پرواہ کیا ہے، اسلامی فوج کا وہ مجاہد اعظم صف بناتا ہے، دوسری طرف ۶۰ ہزار کا لشکر ہے، ہامان بن ولی آگے بڑھتا ہے، کہتا ہے کہ ہم تو سمجھتے تھے مسلمان قوم بڑی سمجھدار ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم احمق ہو، ساٹھ ہزار سے لڑنے کے لیے ۶۰ آدمی لے کر آئے ہو، جاؤ ہم تم پر رحم کھاتے ہیں، اور دو دو بورے کھجور اور چند اشرفیاں دیتے ہیں، کیوں اپنی جانوں پر ظلم کرنے آئے ہو یہاں سے چلے جاؤ۔

دوستو!

جگر پر ہاتھ رکھیے اور سنیے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، تو واعظ بن کر آیا ہے یا کمانڈر بن کر آیا ہے، تجھے شرم نہیں آتی اپنی بزدلی کو وعظ کے پردے میں چھپاتا ہے، تم میں لڑنے کی طاقت وقوت نہیں ہے، ہامان بن ولی اسلامی مجاہد کی اس للکار کو سن کر جوش میں آتا ہے۔

فوج کو حکم دیتا ہے کہ پکڑ لاؤ ساٹھ آدمیوں کو چنانچہ ۶۰ ہزار کا حملہ ہوتا ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان میں گھس جاتے ہیں، راوی کہتا ہے کہ رسول خدا کے وہ جانباز سپاہی گھستے ہوئے تو نظر آئے پھر نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہیں سوائے تلواروں کی چمک اور کھچا کھچ کے کچھ نظر نہ آتا تھا، صرف تین گھنٹے میں جنگ کا فیصلہ ہو جاتا ہے، تاریخ شاہد ہے زمین و آسمان گواہ ہیں کہ ۶۰ نے ۶۰ ہزار کا منھ پھیر دیا۔

حضرات!

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی چیز تھی جس نے صحابہ کرام میں یہ طاقت اور قوت پیدا کی، دوستو یہی وہ قرآن پاک تھا، جس نے ایک کو ایک ہزار پر بھاری کر دیا،

کسی نے سچ کہا۔

وعدہ غلبہ ہے مومن کے لئے قرآن میں
پھر جو تو غالب نہیں کچھ ہے کسر ایمان میں

محترم حضرات!

اگر ہم ماضی کی طرح حال و مستقبل کو روشن اور تابناک بنانا چاہتے ہیں، کہ دنیا کے ساتھ ہماری آخرت بھی سنور جائے تو اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، خدانخواستہ آج ہم نے اپنے بچوں کو دو پیسے کے لالچ میں دین سے دور رکھا اور ہماری نظر اخروی نعمتوں کے بجائے دنیاوی ڈگریوں پر رہی تو یاد رکھئے خدا کے یہاں جواب دینا ہوگا، اسی پر میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.

دعا کیجئے کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے. آمین!

و ما علینا إلا البلاغ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے