قرآن مجید پر تقریر
قرآن مجید کی اہمیت اور اس سے وابستگی کی ضرورت
الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِيْ خَلَقَ الْإنْسَانَ، وَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ، وَ أَنْزَلَ الْقُرْاٰنَ فِيْ شَهْرِ رَمَضَانَ أمّابَعْد۔
یہ قرآں جو کہ مجموعہ ہے احکام شریعت کا
یہی ہے نقطۂ آغاز بنیاد شریعت کا
یہی معیار کامل ہے فصاحت کا بلاغت کا
ہے منشور مکمل یہ منارہ ہے ہدایت کا
صدر باوقار، حکم صاحبان اور سامعین عظام!
میری تقریر کا موضوع ہے ”قرآن مجید کی اہمیت اور اس سے وابستگی کی ضرورت‘‘
حضرات گرامی!
قرآن مجید قانون شریعت بھی ہے اور اخلاق و موعظت بھی، دعاؤں کا مجموعہ بھی ہے اور دیگر کتب الٰہیہ کی مجموعی صفتوں کا حامل بھی، اس قرآن میں دین کامل کے تمام عقائد بھی ہیں اور تمام مراسم عبادت بھی، تمام معاملات کے اخلاق و قوانین بھی ہیں اور انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لئے کامل ہدایات بھی۔ غرضیکہ اللہ تعالی کا فرمان سچ ہے ”مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ‘‘۔
مکاں فانی مکیں آنی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے
حاضرین مجلس!
قرآن مجید حکمت کا خزانہ ہے "یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ‘‘
قرآن مجید نصیحت کا مجموعہ ہے ”وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ“
قرآن مجید کی آیات مضبوط سے مضبوط تر ہیں ”كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ “
قرآن مجید حق کا علمبردار ہے ”كِتَابٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ“
قرآن مجید نیکوکاروں کے لیے ہدایت و رحمت کا سرچشمہ ہے ”هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ“
قرآن مجید حق اور صراط مستقیم کا رہنما ہے ”لَقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ ۚ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ“
قرآن مجید گمراہی سے بچنے کا اہم ذریعہ ہے جیسا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر زبان رسالت گویا ہوئی ”و إِنِّيْ قَدْ تَرَكْتُ فِيْكُمْ مَا لَنْ تَتَضَلُّوْا بَعْدَہٗ إنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهٖ کِتَابَ اللهِ“
سامعین کرام!
قرآن مجید کے ان حقائق سے جب انسانوں نے وابستگی اختیار کی تو عقائد سے لیکر عبادات تک، معاملات سے لیکر اخلاق تک پوری دنیا میں انقلاب آ گیا، انسان ترقی کے منازل طے کرتے کرتے چاند پر پہنچ گیا، ستاروں کی گذرگاہوں سے ہوتے ہوئے ثریا تک جا پہنچا، طرح طرح کی ایجادات اور نت نئے انکشافات ہونے لگے، انسانوں نے سورج کی شعاعوں اور ہواؤں کی ترنگوں کو مسخر کرلیا لیکن ساتھ ہی اس مشینی اور سائنٹیفک دور نے انسانوں کو اپنے مقصد حیات سے ہٹادیا، تہذیب و تمدن کی دلفریبیوں میں مگن ہوکر وہ خالق حقیقی کو بھلا بیٹھا، مادیت کے طوفان نے اس سے فکر آخرت کا تصور ہی ختم کر دیا، وہ خود ترقی یافتہ کہلانے کی کوشش میں ایمان و اخلاق کی پاکیزگی سے محروم ہوگیا، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی فکر میں اپنے صحيح افکار و اقدار کی ترجمانی سے عاری ہو گیا۔
اس دور میں ہر شخص ہے سرگشتہ و حیران
تشکیک کی زد میں ہے مسلمان کا ایمان
اسلام میں الحاد کے پیوند کی ترغیب
تعمیر کے پردے میں ہے تخریب کا سامان
ایماں کی حفاظت تجھے مطلوب اگر ہے
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
ایسے حالات میں اگر کوئی عقیدے کی درستگی اور حق و باطل کے درمیان فرق کے ساتھ راہ ہدایت پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اسے قرآن سے وابستہ ہونا پڑے گا، ”شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدىً لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدىٰ وَ الْفُرْقَان“
راہ ہدایت پر قائم رہنے کے لیے حلال اور حرام میں تمیز ضروری ہے اور یہ قرآن سے وابستگی کے بغیر ممکن نہیں ہے ”قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ“۔
احکام شریعت کی پابندی اور رضاۓ الہی کے لیے شکوک و شبہات، کبر و غرور اور بغض و کینہ جیسے امراض سے دل کا علاج ضروری ہے اور یہ علاج قرآن میں موجود ہے ”و شِفَاءٌ لِّمَا فِيْ الصُّدُوْر“
ان سب باتوں کا حامل بننے کےلیے کتاب ہدایت پر غور اور اسکی تذکیر لازمی ہے: ”کتابٌ أنْزَلْنَاهُ إلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْا آياتِهٖ و لِيَتَذَكَّرَ أولُوا الألْباب“۔
مختصر یہ کہ قرآن مجید دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے، بشرطیکہ اس سے حقیقی وابستگی اختیار کی جائے۔
خداوندا دلوں میں الفت قرآن پیدا کر
بہار زندگی میں نکہت قر آن پیدا کر
وہ جس تحریک سے بزم جہاں میں انقلاب آیا
اٹھ اے مسلم وہی پھر دعوت قرآن پیدا کر
و ما علينا إلا البلاغ