مسلمانوں کی تباہی اور اس کا علاج، اچھی تقریریں، اردو تقریر

مسلمانوں کی تباہی اور اس کا علاج

ماخوذ از اچھی تقریریں

الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ سَیِّدِ الأنْبِیَاءِ و المُرْسَلِیْن و علیٰ اٰلِهٖ و أصْحابِهٖ أجْمَعِیْن أمَّا بَعْد فأعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرحیم وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔

مسلمانوں کی تباہی اور اس کا علاج

وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

محترم بزرگو اور دوستو! آج میری گفتگو کا موضوع مسلمانوں کی تباہی اور اس کا علاج ہے۔

آئیے اس موضوع کے تحت ہم اپنے شاندار ماضی پر ایک نظر ڈال کر مستقبل کی تعمیر و ترقی کے سامان تلاش کریں۔

قرآن کریم میں رب ذوالجلال کا ارشاد ہے: ’’وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم مومن ہو، یہ ارشاد باری ہماری پوری تاریخ کا اختصار ہے، اور اسی میں ہماری ترقی کا راز مضمر ہے۔ تاریخ کے سینکڑوں واقعات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں، کہ جب بھی ہمارا رشتہ اللہ سے اور اس کے دین سے مضبوط رہا، سربلندی و کامیابی نے ہمارے قدم چومے اور جب کبھی اس رشتہ میں کسی قسم کی کمزوری آئی ہم عزت و رفعت کے آسمان سے ذلت و پستی کے غار میں جا گرے۔

تاریخ ہمارے سامنے جنگ بدر کی مثال پیش کرتی ہے، جنگ بدر میں جو کامیابی ہوئی، وہ صرف اسی راستے کی مضبوطی کی بنیاد پر ہوئی، ورنہ اگر کامیابی ہوتی تو کفار مکہ کو ہوتی کیونکہ کفار مکہ تقریبا ایک ہزار تھے، اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ تھے، ان کے پاس سات سو اونٹ اور دوسو گھوڑے نیز سب کے پاس تلوار اور دیگر جنگی ہتھیار موجود تھے، ادھر ابوجہل، عتبہ، شیبہ، ولید، حنظلہ، عبید، عاص، حرث، امیہ ابن خلف، نفر ابن حارث عبدالمطلب جیسے شجاعت کے پیکر اور آزمودہ کار تھے۔

اور ادھر بیچارے مسلمان بے سرو سامان کل تعداد ۳۱۳، سواری کے لئے کل دو گھوڑے اور ستر اونٹ ہیں، ایک ایک پر تین تین چار چار آدمی سوار ہیں، اور بعض پیدل ہی سفر کر رہے ہیں، اور کسی کے پاس نیزہ اور کمان ہے تو تلوار نہیں، اور کسی کے پاس تلوار ہے تو نیزہ اور کمان نہیں۔

محترم بزرگو اور دوستو!

جب مقام بدر پر پہنچتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ کفار مکہ بلند مقام پر خیمہ زن ہو چکے ہیں، جہاں پانی کی بھی فراوانی ہے، بیچارے مسلمانوں کو پست اور ریتیلی زمین پر خیمہ زن ہونا پڑا۔ ایسی جگہ پر کہ اگر کسی کو پیاس لگے تو ایک گھونٹ پانی پینے کو نہ ملے۔

الغرض جنگ کے اندر جتنے اسباب اور جتنی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، وہ سب کفار مکہ کو حاصل تھیں، مگر جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو کفار مکہ گاجر مولی کی طرح کاٹے جاتے ہیں، کفار مکہ کا سب سے بڑا سردار ابوجہل دو بچوں معاذ اور معوذ کے ذریعے مارا جاتا ہے، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے سر کو جسم سے جدا کرتے ہیں۔

مسلمانو! آپ جانتے ہیں کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کون ہیں، یہ وہی ہیں جن کو مکہ کے صحن میں اسی ابوجہل نے مارتے مارتے بےہوش کر دیا تھا، آج میدان جنگ کے اندر وہی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابوجہل کا سر قلم کرتے ہیں۔

امیہ ابن خلف ابوجہل کے بعد کفار مکہ کا سب سے بڑا سردار سمجھا جاتا تھا، لیکن اپنے ساتھیوں کو اس طرح تہ تیغ ہوتے دیکھ کر گھبرایا اور میدان جنگ چھوڑ کر مکہ کی طرف بھاگ پڑا۔

حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے بھاگے اور قریب پہنچ گئے، امیہ بن خلف گھبرا کر گھوڑے سے نیچے گر جاتا ہے، پیٹ کے بل لیٹ جاتا ہے، اور شور مچاتا ہے، معافی مانگتا ہے، امن چاہتا ہے، لیکن بلال حبشی رضی اللہ عنہ اس کے پیٹ پر نیچے سے تلوار چلا دیتے ہیں، اور اس کو جہنم رسید کر دیتے ہیں۔

اسلام کے نوجوانو! جانتے ہو یہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ کون ہیں، اسی امیہ بن خلف کے غلام ہیں، جب اسلام قبول کیا تو مکہ کے اندر امیہ بن خلف دوپہر کے وقت تپتے ہوئے ریت پر لٹاکر پتھر کی بڑی بڑی چٹانیں رکھ دیتا تھا تاکہ یہ حرکت نہ کر سکیں، رات کو زنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگاتا اگلے دن ان کو گرم زمین پر لٹاکر اور زیادہ زخمی کیا جاتا، تاکہ تکلیف سے بے قابو ہوکر اسلام سے پھر جائیں، یا یوں ہی تڑپ تڑپ کر مر جائیں، پیرو میں رسی باندھ کر مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے، طرح طرح کی اذییتں اور تکالیف پہنچائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ تکلیف دینے والے تھک جاتے ہیں، اکتا جاتے ہیں، کبھی امیہ بن خلف کا نمبر آتا ہے، کبھی ابوجہل کا نمبر آتا ہے، تو کبھی اوروں کا نمبر آتا ہے، آج میدان جنگ کے اندر وہی غلام اپنے آقا و مالک یعنی امیہ بن خلف کو قتل کرنے کے لیے دوڑ رہے ہیں، اور امیہ ابن خلف میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔

مسلمانو! وہ کونسی چیز تھی جس نے غلام کو غالب اور آقا کو مغلوب کردیا؟ سچ فرمایا ہے اللہ تبارک و تعالی نے: ’’وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ کہ تم ہی سر بلند رہوگے، بشرطیکہ تم سچے پکے مسلمان رہے۔

اسی طرح دوسرے کفار مکہ اپنے ساتھیوں کو مقتول ہوتے دیکھ کر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ ستر مقتول ہوئے اور ستر گرفتار ہوئے، اور مسلمانوں کو ایسی فتح حاصل ہوئی جس کو تاریخ فراموش نہیں کرسکتی؛ لیکن افسوس صد افسوس آج جہاں دیکھیے جس طرف دیکھیے وہی مسلمان خوفناک طوفان میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں، کہیں مسلمانوں کی آبرو کو پامال کیا جا رہا ہے، کہیں مسلمان غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

حضرات! آج ہم اور تم اندلس کو نہیں جانتے۔ حالانکہ یہ اندلس ایک وقت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت اور حکومت تھی۔ پوری دنیا میں شان و شوکت کی شہرت تھی، اور وہاں تقریباً ساڑھے سات سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی اور آج وہاں کی حالت یہ ہے کہ ایک مسلمان بھی نام لینے کو نظر نہیں آتا، مسلمانوں کے اوپر تباہی اس طرح آئی کے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو بے گھر کیا گیا بلکہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا، عزت و آبرو کو پامال کیا گیا، ہزاروں مسلمانوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، زندہ مسلمانوں کو آگ میں جلایا گیا، زندہ مسلمانوں کو زمین کے اندر دفن کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کوئی کلمہ پڑھنے والا نظر نہیں آتا،

ملک برما میں مسلمانوں کو بے گھر کیا گیا، مسلمانوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور اسی پر بس نہیں بلکہ اسی ملک برما میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، عزت و آبرو کو پامال کیا گیا، ہزاروں نوجوانوں کو قتل کردیا گیا، بے شمار عورتوں کو شہید کر دیا گیا، معصوم بچوں کو ان کی ماں کی گود سے جدا کردیا گیا، علماء کرام کو سخت سے سخت سزائیں دی گئیں، جبکہ ملک برما میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔

میرے محترم بزرگو! آپ دور نہ جائیں خود اپنے ملک کو دیکھیے کہ آج ہمارے ساتھ کیا نہیں کیا جا رہا ہے، کون سے ایسے مظالم ہیں جن کو ہم برداشت نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ اسی ملک کے اندر ہماری حکومت رہی ہے، اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ آج ہم اطمینان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے ہیں، کہیں ہمارے قتل کی تدبیر سوچی جاتی ہے، ملک سے نکالنے کے لیے منصوبے بنائے جاتے ہیں، کہیں ہمیں غیر ملکی کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے، مسلمانو! آج کیوں ہماری حالت ایسی ہو گئی ہے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

سوئی ہوئی قومیں جاگ اٹھیں بیدار مسلماں سوتا ہے
گہوارۂ قلبِ مومن میں اب جذبۂ ایماں سوتا ہے

امت مسلمہ کے دھڑکتے دلو!

آج پوری دنیا ہمارے لیے وحشت و بربریت کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، حالانکہ ایک زمانہ تھا کہ ہمیں دنیا کی ہر چیز سونپی گئی تھی، جس طرف قدم بڑھاتے تھے بڑھتے اور پھیلتے چلے جاتے تھے، باطل کی کوئی قوت و طاقت ہماری راہ میں حائل نہیں ہو سکتی تھی، علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے:

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

اسلام کے پاسبانو!

اسلام نے ہمیں بہت بڑا مقام عطا فرمایا ہے، مگر افسوس ہم نے اس کی قدر نہ کی اور اپنے اصل مقام سے ہٹ گئے، مسلمانو! سمجھو اور ہوشیار ہو جاؤ ورنہ لاپرواہی اور بے توجہی کا عالم رہا تو یاد رکھئے ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہماری باعظمت اور سربلند تاریخ مکروہ تاریخ میں منتقل ہوکر دنیا کی تمام تاریخوں کے سامنے سرنگوں نظر آئے گی۔

آج ہمیں سمجھنا چاہیے اور فکر کرنا چاہئے کہ ہماری طرف تباہی اور بربادی کے ہاتھ بڑھ رہے ہیں، جور و جفا، ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، شکنجوں میں دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، آخر ان کی وجہ کیا ہے، اور ایسا کیوں ہورہا ہے، خوب سمجھ لو اگر اس کا جواب ہو سکتا ہے، تو یہی ہو سکتا ہے کہ آج مسلمان مسلمان نہ رہے۔ آج ہم اپنے مسلمان ہونے کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں، قوانین اسلام سے منھ موڑ کر اسلام کے اصولوں کو توڑ کر پھر اپنے آپ کو مسلمان پیش کرتے ہیں۔

مسلمانو!

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی شریعت سے روگردانی کرلی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے دامن مقدس کو ترک کردیا، نماز ہم نہیں پڑھتے، روزہ ہم نہیں رکھتے، قارون کی طرح مال اکٹھا کرکے ہم رکھتے ہیں، زکوٰۃ ہم نہیں دیتے، حرام ہم کھاتے ہیں، سود ہم لیتے ہیں، ناچ گانا بجانا ہمارا مشغلہ ہے، اتحاد و اتفاق ہم میں نہیں، اخوت و خودداری سے ہم دور ہیں، گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کرام کی کوئی بھی علامت ہم میں نہیں ہے، نہ ہماری زندگی اسلامی زندگی ہے، نہ ہمارا طریقہ اسلامی طریقہ ہے۔

برادران اسلام!

ہمارے لیے دنیوی اور اخروی صلاح و فلاح دونوں ہی ضروری ہیں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس معبود حق کی پرستش کریں جو ہمارا رب اور خالق ہے، اور تاجدار مدینہ احمد مجتبیٰ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کریں، جو ہم لوگوں کے واسطے نبی آخر الزماں بناکر مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ صحابۂ کرام اور اکابرین عظام کے نقش قدم پر چلیں جن کی آنکھوں میں جھلکتی ہوئی تصویر عبادت تھی، جن کی آنکھوں میں تڑپتی ہوئی ایمان کی حرارت تھی، جن کے ہونٹوں پر مچلتی ہوئی قرآن کی تلاوت تھی، جن کا دل بادِ عرفاں کا چھلکتا ہوا ساغر تھا۔

مسلمانو!

آؤ متحد اور متفق ہو جاؤ اور ایک جھنڈے کے نیچے چلے آؤ، اور اپنے معاشرے کی ان برائیوں کو مٹاؤ، ورنہ تمہاری تباہی کی کوئی حد نہ ہوگی، اور تمہیں سر بلند کرنے والی کوئی طاقت دنیا میں نہیں آئے گی، اللہ تعالٰی شعورو بیداری اور اپنے زوال کا احساس اور اس کے ازالہ کی فکر نصیب فرمائے۔

و ما علینا إلّاالبلاغ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے