Urdu Speech on 15 August | یوم آزادی پر تقریر، اردو تقریر

۱۵ اگست ۲۰۲۲ء

۷۶واں یوم آزادیٔ ہند، یوم آزادی پر تقریر

محترم سامعین کرام، معزز اساتذۂ عظام اور میرے عزیز دوستو!

آج ہمارا وطن آزادی کا ۷۶واں جشن منارہا ہے، آج ہی کے دن اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور اسے ایک آزاد ملک کی حیثیت حاصل ہوئی۔

محترم دوستو!

تاریخ گواہ ہے کہ جہاں ملک کی آزادی کا بنیادی تصور مدارس نے پیش کیا وہیں انگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت علماء کرام نے کی، جن میں جنگ آزادی کے بانی مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی، حافظ ضامن شہید، شاہ احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبد الباری بدایونی، مولانا فضل حق خیرآبادی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ ہیں۔

اگر یہ حضرات نہ ہوتے تو ہندوستان میں آزادی کی کبھی صبح نہ ہوتی اور یہ ملک کبھی آزادی سے ہمکنار نہ ہوتا۔

تاریخ کے اوراق پلٹیے! مالٹا کی جیل میں تحریک ریشمی رومال کے بانی شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نظر آئیں گے، انگریزوں نے ہر طرح کی سہولت پہچانے کی لالچ دےکر جب اپنے حق میں ان سے فتویٰ چاہا تو مولانا نے ان کی پیشکش ٹھکرانے کے ساتھ کہا کہ جو سر خدا کے حضور میں جھکتا ہے وہ سر دنیا کے ذلیل کتوں کے سامنے ہرگز نہیں جھک سکتا۔

ایک صفحہ اور پلٹیے تو 1767 میں شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ اسماعیل شہید نے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا بیج ہی نہیں بویا بلکہ 1772 میں جہاد کا فتویٰ بھی دیا۔

ایک قدم اور آگے بڑھیے! قائد انقلاب علامہ فضل حق نے دہلی کی جامع مسجد میں انگریزی مظالم کے خلاف ایسی تقریر کی جس سے حریت کے جذبات تازہ ہوگیے اور نوے ہزار مسلمانوں کے لشکر نے آزادی کا نقارہ بجادیا جس سے ملک کے بڑے بڑے شہر میدان جنگ میں بدل گئے، جس سے انگریزی حکومت بوکھلا اٹھی ۔

ملک کے اندر ہندو مسلم اتحاد اور عوامی بیداری کا جیسا شاندار نظارہ تحریک خلافت کے دوران ہوا اسکی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر تحریک بالاکوٹ، تحریک ترک موالات، ان سب تحریکوں کے نمایاں رول اور ان کی سرگرمیوں کو کون فراموش کرسکتا ہے۔

دوستو!

آخر وہ کونسی قربانی ہے جو ہمارے علماء کرام نے نہیں دی، جب بھی مادر وطن کو ضرورت پڑی تو ہم شاملی کے میدان سے لیکر جزیرہ انڈمان تک نظر آئے، کبھی پلاسی کے میدان میں نظر آئے، مالٹا کے زندان خانوں میں بھی ہمارے صبر و ضبط کا امتحان لیا گیا، پانی پت و شاملی کے میدانوں کو بھی ہم نے اپنے خون سے سیراب کیا، کالے پانی میں بھی ہم ہی نے سزائے قید کاٹی، جیل خانوں کے مصائب جھیلے۔

ایک ہی دن میں اسی اسی علماء کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا، دہلی کے چاندنی چوک سے لے کر لاہور تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی نہ کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔گویا علماء کی قربانیوں کو جتنا ذکر کیا جائے وہ کم ہے۔

بس اس شعر پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں:

مٹ گئے خود، پر نہ مٹنے دی وطن کی آبرو
ان شہیدان وطن کو بارہا سلام

۱۵ / اگست یوم آزادی پر مزید تقاریر کے لیے لنک پر کلک کریں!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے