حضور ﷺ کی تین اہم نصیحتیں | اردو تقریر برائے جمعہ

خطاب جمعہ برائے 16 دسمبر 2022ء (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)

حضور ﷺ کی تین اہم نصیحتیں

اَلْحَمْدُ للّٰهِ کَفٰی وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ! فَاُعُوْذُ باِللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّـیِّاٰتِ۔ (سورہ ہود، آیت نمبر: ۴۱۱)

و قال النّبی ﷺ اِتَّقِ اللّٰهَ حَیْثُ مَا کُنْتَ وَ اَتْبِعِ السَّیِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُھَا وَ خَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی) صدق الله العظیم و صدق رسوله النَّبی الکریم۔

▪️مختصر پر اثر

حضور اکرم ﷺ ساری دنیا کے لیے رہبر و رہنما بنا کر بھیجے گئے تھے، اور آپ نے پوری انسانیت کو ایسی تعلیم دی جس پر عمل کرکے انسان دنیا کی عزت اور آخرت کی بہترین زندگی حاصل کرسکتا ہے، آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ ﷺ چھوٹے چھوٹے جملوں میں ایسی بڑی بڑی نصیحتیں ارشاد فرماتے تھے کہ جن میں معنی کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتا، آپ ﷺ کو اللہ نے ایسی فصاحت عطا کی تھی جس کے بارے میں یہ کہا گیا: ’’اُوْتِيَ فَصَاحَةً مَا بَعْدَھَا فَصَاحَةٌ وَ اُوْتِيَ حِکْمةً مَا بَعْدَھَا حِکْمةٌ‘‘ آپ کی فصاحت ایسی تھی کہ اس کے بعد فصاحت کا کوئی درجہ باقی نہیں رہا اور آپ کی باتوں میں ایسی حکمت تھی کہ اس کے بعد حکمت کا کوئی درجہ باقی نہیں رہا۔

آپ ﷺ کی بہترین نصیحتوں اور پیاری وصیتوں میں سے ایک نصیحت اور ایک وصیت وہ ہے۔ جسے حضرت ابوذر غفاریؓ نے نقل فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ نے نصیحت کرتے ہوئے تین چھوٹے چھوٹے جملے ارشاد فرمائے، پہلی بات ارشاد فرمائی: ’’اِتَّقِ اللهَ حَیْثُ مَا کُنْتَ‘‘ دیکھو تم جہاں بھی رہنا اللہ سے ڈرتے رہنا، جہاں بھی ہو، جس حال میں بھی ہو، ہمیشہ اس بات کا احساس رکھنا کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اللہ میری باتوں اور کاموں سے واقف ہے، قرآن مجید میں یہ بار بار کہا گیا کہ اللہ تمہاری باتوں کو سن رہا ہے، تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے، تمہارے سینوں کے راز کو جان رہا ہے، وہ اس ليے کہا گیا کہ ایک انسان ہمیشہ اس بات کا خیال رکھے کہ کسی کی نظر اس پر ہے، ’’اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللهَ یَرٰى‘‘ (سورہ علق آیت نمبر ۱۴) کیا نہیں جانتا کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے؟ دوسر ی جگہ ارشاد ہے:

’’مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا‘‘ (سورہ مجادلہ: آیت نمبر ۷)

اگر کہیں کوئی تین لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کررہے ہوتے ہیں تو ان کا چوتھا اللہ ہے، اور اگر پانچ لوگ بات کررہے ہیں تو ان کا چھٹا اللہ ہے۔ اور اس تعداد سے کم یا زیادہ جتنے بھی لوگ آپس میں گفتگو کریں بہرحال اللہ اس کو جاننے والاہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمایا: "وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ” (سورہ ق: آیت ۱۶) انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ ہم اس کے قریب ہیں۔ ’’وَسِعَ کُرْسِـیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ۝۰ۚ‘‘ (سورہ بقرہ: آیت ۲۵۵) اللہ کا علم آسمان اور زمین سب کو گھیرے ہوئے ہے، کرسی سے مراد اللہ کا علم ہے، خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز اللہ پاک کی نگاہ میں ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے، ہر چیز کو اللہ جانتا ہے، ایک عالم نے بڑا خوبصورت جملہ لکھا ہے: ’’عَلِمَ مَا کَانَ‘‘ اللہ کو ان سب چیزوں کا علم ہے جو ہوچکی ہیں، ’’وَ عَلِمَ مَا یَکُوْنُ‘‘ جو ہونے والا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ’’وَ عَلِمَ مَا سَیَکُوْنُ‘‘ کچھ زمانے کے بعد جو ہوگا وہ بھی اللہ جانتا ہے، ’’وَ عَلِمَ مَا لَمْ یَکُنْ‘‘ اور جو نہیں ہوا وہ بھی اللہ جانتا ہے، ’’وَ عَلِمَ لَوْ کَانَ کَیْفَ کَانَ یَکُوْنُ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو بھی جانتا ہے کہ جو چیز نہیں ہوئی اگر وہ دنیا میں ظاہر ہوتی تو کیسی ہوتی؟ ساری چیزوں کا علم اللہ کے پاس ہے۔

▪️تقویٰ کیا ہے؟

انسان کو اللہ پاک کی ان صفات پر غور کرنا چاہیے اور ہمیشہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ انسان خلوت میں ہو یا جلوت میں، تنہائی میں ہو یا مجمع میں، انسانوں کے درمیان ہو یا انسانوں سے دور ہو ہر حالت میں اللہ اسے دیکھ رہا ہے، اس لیے ہر وقت ہر حالت میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے، جب یہ احساس انسان کو رہے گا کہ اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے، تو وہ گناہ سے بچے گا، جب تقویٰ انسان کے دل میں آئے گا تو انسان حرام کاموں سے اپنے آپ کو روکے گا اور اگر اس کے دل میں تقویٰ نہیں ہے، اور بہت ساری نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، تسبیحات پڑھتا ہے، تو یہ انسان اللہ کی نگاہ میں متقی بندہ نہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے تھے کہ تقویٰ راتوں کو جاگنے کا اور دن کو روزہ رکھنے کا اور دن اور رات میں گناہ اور نیکی کو ملادینے کا نام نہیں ہے، بلکہ تقویٰ اس کا نام ہے کہ انسان اللہ کے فرائض کو ادا کرے اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچے، اگر تقویٰ انسان کے دل میں ہوگا توخلوت و جلوت میں اس کی زندگی یکساں ہوگی، اور اگر اللہ کا ڈر نہیں ہے تو لوگوں کے سامنے وہ بڑا پارسا ہوگا اور جب تنہائیوں میں ہوگا تو گناہ کرے گا، حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں، ایک موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ ہوں گے جو قیامت کے دن تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن وہ ساری نیکیاں اللہ تعالیٰ بے قیمت بنادے گا، ان نیکیوں کا کوئی وزن نہیں ہوگا، وہ نیکیاں انہیں بچا نہیں سکیں گی، صحابہ نے جب یہ بات سنی تو کہا: ’’صِفْھُمْ لَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ‘‘ اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہوں گے ذرا بتائیے تاکہ ہم انہیں پہچان لیں تاکہ ہم ان میں شامل نہ ہوں؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ تمہارے ہی جیسے ہوں گے، تمہارے ہی طرح رات کو اللہ کی عبادت کریں گے، راتوں کو اللہ تعالیٰ کے آگے کھڑے ہوں گے، لیکن ’’اِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰهِ اِنتَھَکُوْھَا‘‘ جب تنہائیوں میں ہوں گے تو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے نہیں بچیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو نیکیوں کے باوجود قیامت کے دن تباہ و برباد ہوں گے۔

بہت مشکل ہے بچنا بادۂ گلگوں سے خلوت میں
بہت آساں ہے یاروں میں معاذ اللہ کہہ دینا

▪️کمال کی چیزیں!

اسی لیے امام شافعیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ تین چیزیں کمال کی ہیں: ’’اَلْجُوْدُ مِنْ قِلَّةٍ‘‘ انسان کے پاس سرمایہ تھوڑا ہو، کشادگی اس کو حاصل نہ ہو اس کے باوجود سخاوت کرے، یہ کمال کی چیز ہے۔ ’’وَ الْوَرْعُ فِیْ خَلْوَۃٍ‘‘ دوسری چیز خلوت اور تنہائی میں گناہ سے بچنا اور خدا سے ڈرنا یہ بھی کمال کی چیز ہے، تیسری بات ارشاد فرمائی: ’’کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ مَنْ یُرْجٰی وَ یُخَافُ‘‘ کسی ایسے شخص کے سامنے جس سے خوف ہوتا ہو یا جس سے امید کہ جاتی ہو یعنی کوئی بڑا منصب دار ہو، بادشاہ ہو، امیر کبیر ہو، جس سے مال ملنے کی کچھ امید بھی ہو، اور جس کی طاقت و قوت کا خوف بھی ہو، ایسے شخص کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا کمال کی چیز ہے۔ انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حق بات کا اظہار کرے اور بے خوف ہوکر جو چیز صحیح ہے اس کو بیان کرے یہ کمال کی بات ہے۔ اللہ کا ڈر، خدا کا خوف انسان کو تنہائی میں نافرمانی اور گناہ سے بچائے رکھتا ہے۔ اللہ کا ڈر ہے کیا؟ نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ اللہ کا ڈراور تقویٰ یہ ایسی صفت ہے جو کئی صفات کو جمع کرنے والی ہے، علماء نے اس کی لمبی تشریحات بھی کی ہیں کہ لفظ تو ایک ہے تقویٰ لیکن ساری صفات خیر اس ایک لفظ میں جمع کردی گئی ہیں۔ حضرت علی ابن طالبؓ سے ایک موقع پر پوچھا گیا: تقویٰ کیا ہے؟ آپ نے بہت خوبصورت تعریف فرمائی: ’’ھِیَ الْخَوْفُ مِنَ المولَی الْجَلِیْلِ‘‘ اللہ کا تقویٰ رب سے ڈرنا ہے، دوسری چیز: ’’وَ الْعَمَلُ باِلتَّنْزِیْلِ‘‘ قرآن پر عمل کرنا یعنی اللہ نے قرآن پاک میں جتنے بھی احکامات اتارے ہیں ان پر عمل کرنا، تیسری چیز: ’’وَ الرِّضَا بِالْقَلِیْلِ‘‘ تھوڑے پر قناعت کرنا، تھوڑی چیز پر راضی ہوجانا۔ ’’وَ الْاِستعدادُ لِیَوْمِ الرَّحِیْلِ‘‘ اور آخرت کی تیاری کرنا، چار باتیں ہیں مگر کتنی اہم اور پیاری باتیں ہیں۔

▪️قناعت اختیار کریں!

اس پر بھی غور کیجئے کہ یہ سبق کتنا خوبصورت ہے کہ تھوڑے پر قناعت کی جائے اور زیادہ کی تلاش نہ کی جائے، یاد رکھئے زیادہ کی طلب اور زیادہ کی ہوس انسان کو ہمیشہ تباہی و بربادی سے دوچار کرتی ہے، اسی وقت انسان دنیا کی ذلت اور آخرت کی پریشانی اٹھاتا ہے، جب وہ زیادہ کی تلاش میں لگتا ہے، زیادہ مال اور لمبی عمر کی خواہش یہ انسان کی تباہی کی بنیاد ہیں، تھوڑے پر قناعت کرنا، جو مل جائے اس پر راضی ہوجانا، اللہ نے اگر روزی تھوڑی دی ہے تو اس پر شکر ادا کرتے رہنا اور یہ سمجھنا کہ اسی میں میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی ہے، حکمت و مصلحت اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ میں تھوڑے پر ہی قناعت کروں، اگر لوگوں کے درمیان شہرت نہیں ہے، سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی میں میرے لئے خیر ہے۔ تھوڑے پر جو انسان قناعت کرلیتا ہے، اللہ کی نگاہ میں اس کی عزت ہوتی ہے، انسان کی چاہت یہ ہوتی ہے کہ عمر بھی خوب لمبی ہو، مال بھی خوب زیادہ ہو، لوگوں کے درمیان وجاہت بھی ہو، انسان کی فطرت میں حرص و لالچ ہے، زیادہ سے زیادہ کی تلاش ہے، یہاں تک کہ انسان بوڑھا بھی ہوجاتا ہے تو اس کی حرص بجائے بوڑھی ہونے کے اور جوان ہوجاتی ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قَلْبُ شَیْخ شَابٌ عَلٰی حُبِّ اثْنَتَیْنِ طُوْلِ الْحَیَاۃِ وَ حُبِّ الْمَالِ‘‘ بوڑھے کا دل بھی دو چیزوں کی محبت میں جوان ہوتا ہے۔ ایک چیز لمبی عمر اور دوسری مال کی محبت، انسان بوڑھا ہورہا ہے لیکن یہ دو خواہشات اس کے اندر جوان ہوتی جاتی ہیں، قرآن کریم میں ہے: یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ۝۰ۚ وَ مَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ۝۰ۭ (سورہ بقرہ: آیت۹۶) ترجمہ:ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے حالانکہ کسی کا بڑی عمر پا لینا اسے عذاب سے دور نہیں کرسکتا۔

یہ انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ ایک ہزار سال کی زندگی مل جائے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ آجائے، کسی بوڑھے شخص سے کہہ دیں کہ آپ قرآن مجید نہیں پڑھے ہوئے ہیں، اب پڑھ لیجئے توکہے گا بوڑھا طوطا پڑھتا نہیں، اور اسی بوڑھے کو نوٹ گننے دے دی جائے تو وہ جوان سے زیادہ بہتر انداز میں گن لے گا۔ وہ مال کے جمع کرنے میں، مال کے گننے میں جوانوں سے بھی آگے ہوگا، اور جب دین کا معاملہ آئے گا تو وہ کہے گا بوڑھا طوطا پڑھتا نہیں ہے۔ ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر ابن آدم کو ایک وادی بھر کر سونا دے دیا جائے تو وہ دوسری وادی کی تلاش کرے گا۔ ’’وَ لَن یَمْلَأَ فَاہُ اِلَّا التُرَابُ وَ یَتُوْبُ اللهُ عَلٰی مَنْ تَابَ‘‘ اور اس ابن آدم کے منھ کو سوائے قبر کی مٹی کے کوئی بھر نہیں سکتا، اور اللہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کی طرف لوٹ کرجاتا ہے۔ (بخاری)

اس لئے انسان اپنے اندر سے زیادہ کی تلاش نکال دے، جو مال آرہا ہے اس پر شکر ادا کرے، اگر انسان کی روزی کم ہے، اللہ سے کوئی نعمت چاہتا ہے خدا کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلانا، اللہ سے مانگنا اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، ہمیں تو دعا سکھائی گئی ہے کہ: ’’رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ (سورہ بقرۃ: ۲۰۱) اللہ ہمیں دنیا میں بھی بہترین چیزیں اور بہترین نعمتیں عطا فرما اور آخرت میں بھی بہترین نعمتیں عطا فرما۔ دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی اللہ سے مانگنی چاہئے، انسانوں کی مصیبت یہ ہے کہ ان سے مانگا جاتا ہے وہ ناراض ہوتے ہیں، اور خدا تعالیٰ کی شان کرم یہ ہے کہ جب اس سے مانگا نہیں جاتا تب اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے۔ خدا کے آگے دست سوال دراز کرتے رہنا چاہئے، لیکن انسان کو لالچ میں نہیں پڑنا چاہئے، راتوں رات ارب پتی بننے کا خواب نہیں دیکھنا چاہئے، یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو حرام سود اور رشوت کی طرف لے جاتی ہیں، زیادہ مال کی تلاش انسان کو تباہ و برباد کردیتی ہے، اس کے اخلاق بگاڑ دیتی ہے۔

▪️نیکی گناہ کو مٹانے کا ذریعہ

پھر حضور ﷺ نے اگلی بات ارشاد فرمائی: ’’وَ اَتْبِعِ السَّیِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُھَا‘‘ دیکھو کوئی گناہ ہوجائے، تو فوراً کوئی نیکی کا کام کرو، یہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی، انبیاء معصوم ہیں، یعنی ان سے گناہ نہیں ہوتا، اولیاء محفوظ ہیں، یعنی ان سے گناہ تو ہوتے ہیں مگر گناہ ہوتے ہی توبہ، استغفار کرلیتے ہیں، آپ قرآن میں پڑھیں کہ متقین کی صفات میں کہا گیا: ’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِم‘‘ ترجمہ: اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھتے ہیں یا اپنے آپ پر اور کسی قسم کی زیادتی کر گزرتے ہیں تو ﷲ کو یاد کرتے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہنے لگتے ہیں۔ (سورہ آل عمران:۱۳۵)

متقی لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ جب ان سے کوئی بڑا گناہ ہوجاتا ہے تو فوراً ان کو اللہ کی یاد آجاتی ہے اور فوراً اپنے گناہ پر استغفار کرلیتے ہیں۔ متقیوں سے بھی گناہ ہوگا اولیاء سے بھی گناہ ہوگا، لیکن وہ گناہ پر اصرار نہیں کریں گے، حتی الامکان بچیں گے بالفرض کوئی غلطی ہوگئی تو فوراً توبہ کرلیں گے۔ یہاں تک کہ علماء نے لکھا ہے کہ ’’القُطُبُ قَدْ یَزْنِيْ‘‘ قطب (جو ولایت کا بہت اونچا مقام ہے) کبھی زنا کر بیٹھتاہے، اس لئے کہ اولیاء معصوم نہیں ہیں، اولیاء محفوظ ہیں، معصوم صرف انبیاء علہیم السلام ہیں، اولیاء کرام سے غلطی ہوسکتی ہے، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ ’’لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا‘‘ اپنے عمل اور اپنے گناہ پر اصرار نہیں کرتے، فوراً توبہ کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، اللہ سے معافی مانگتے ہیں، ہمارا بھی طریقہ یہی ہونا چاہئے کہ غلطی ہو جائے تو فوراً توبہ کریں اور اچھے عمل میں لگ جائیں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کُلُّ بَنِيْ آدَمَ خَطَّاؤوْنَ وَ خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ‘‘ (ترمذی) تم سب بہت گناہ کرنے والے ہو اور بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہے، اب ہم سے گناہ ہو تو ہمارا عمل کیا ہو؟ حضور ﷺ نے سکھایا کہ فوراً نیکی کرلو، علماء نے لکھا ہے ’’اَلْحَسَنَةُ‘‘ سے مراد توبہ ہے یعنی گناہ ہوجائے تو توبہ کرلو، اور اکثر علماء نے لکھا ہے کہ انسان کوئی بھی نیک عمل کرے گا تو اس کے گناہ کے مٹ جانے کی امید کی جاسکتی ہے۔

▪️وضو کی برکت

احادیث شریفہ میں متعدد اعمال کے بارے میں یہ بات آئی ہے کہ ان سے گناہ معا ف ہوتے ہیں، ایک حدیث میں ہے۔ جو انسان بہترین وضو کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ختم کردیتا ہے، یہاں تک کہ ناخن کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ (مسلم) یہ فضیلت اس کے لیے ہے جو وضو کرتا ہے اور اچھا وضو کرتا ہے، ہمارا آپ کا وضو نہیں جو ماشاء اللہ آدھے منٹ میں ہوجاتا ہے، اور ایسا جلدی جلدی وضو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خوفناک درندہ پیچھے بیٹھا ہوا ہے، نگلنے کیلئے تیار ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم کو ایسی چیز نہ بتائوں جو گناہوں کو مٹانے والی ہے؟ صحابہ نے کہا ضرور۔ ارشاد ہوا مشقت کے باوجود( یعنی سردی کے موسم میں) اچھی طرح وضو کرنا، اعضاء وضو پر اچھی طرح پانی بہانا، پھر مسجد کی طرف چل کر آنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، یہ گناہوں کو مٹادینے والی چیز ہے۔

▪️روزے کا انعام

حدیث شریف میں روزے کے بارے میں آپ پڑھیں: ’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ‘‘ جو ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھے گا اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ ’’مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِہٖ حُطّتْ خطایاہُ و إنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ البَحْرِ‘‘ جو شخص روزانہ یہ کلمہ سو مرتبہ پابندی سے پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دے گا چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں، عمرہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’اَلْعُمْرَۃُ اِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَابَیْنَھُمَا‘‘ (بخاری و مسلم) ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک جو گناہ ہوجاتے ہیں، درمیان کے سارے گناہ کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتا ہے۔ آدمی نے عمرہ کیا پھر دوبارہ کیا درمیان کے جتنے گناہ ہیں اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے، تو اعمال میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر رکھا ہے کہ گناہوں کو وہ مٹائیں گے۔

▪️حضور اکرم ﷺ کی تیسری نصیحت

آپ ﷺ نےتیسری بات ارشاد فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق برتو، اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ، لوگوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرو۔ حدیث شریف میں حسن اخلاق کی کتنی فضیلتیں آئی ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن میزان میں انسان کے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز وزن دار نہیں ہوگی۔ ترازو میں جو اعمال تولے جائیں گے اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز وزنی نہیں ہوگی۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ انسان اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے دن کے روزے دار اور رات کے عبادت گزار کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، یعنی خود رات کو جاگ نہیں رہاہے، دن میں روزہ نہیں رکھتا، لیکن اس کے اخلاق اچھے ہیں، لوگوں سے بہتر تعلقات ہیں، تو یہ شخص دن کے روزے دار اور رات کے عبادت گزار کا مقام حاصل کرلیتا ہے۔ اللہ نے اور اس کے پاک رسول ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ بہترین اخلاق اور بہترین کردار اپنے اندر پیدا کریں۔

▪️دونوں جہاں کی بھلائی

اب آپ تینوں چیزوں پر غور کیجئے، یہ تین مختصر جملے ہیں لیکن ان تینوں جملوں پر اگر آپ دھیان دیں گے تو پتہ چلے گا کہ اس میں ایک طرف دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کو جمع کردیا گیا ہے، دوسری طرف انسان کو اللہ کا حق اور بندوں کا حق ادا کرنے کی تعلیم دی گئی، ارشاد ہوا: اللہ سے ڈرو، یعنی تمام احکام شریعت پر عمل کرو۔ حقوق اللہ کیا ہیں؟ نماز، روزہ، ذکر، تلاوت، اللہ کو ایک ماننا یہ سب حقوق اللہ ہیں۔ ان کی ادائیگی کی تعلیم دی گئی۔

حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق ادا کرنا جس کی تعلیم ایک جملے میں دی گئی کہ ’’وَ خَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ‘‘ اس میں دنیا کی بھلائی کو جمع کردیا اور آخرت کی بھلائی کو بھی جمع فرمادیا، پھر غور کیجئے کہ ایک تو انسان کا اپنی ذات کے ساتھ تعلق ہے، پھر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ہے، پھر دوسرے انسانوں اور سماج کے ساتھ اس کا رابطہ ہے، اس حدیث شریف میں ان تینوں چیزوں کو درست کرنے کی ہدایت دی گئی، اللہ کے ساتھ تعلق کو درست کرنے کیلئے ارشاد ہوا: بندہ اللہ سے ڈرے جہاں کہیں بھی رہے، پھر انسان اپنے رب کے ساتھ اپنی ذات کے تعلق کو درست رکھے، تو ارشاد فرمایا کہ اگر گناہ ہوجائے غلطی ہوجائے تو فوراً نیکی کا کوئی کام کرے۔

▪️نرمی اختیار کرو

پھر تیسرے جملے میں انسانوں کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کیلئے ارشاد ہوا کہ لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آؤ، انسان اگر کسی سے مسکرا کر ملتا ہے تو یہ بھی نیکی کا کام ہے، ’’تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْهِ اَخِیْکَ صَدَقَةٌ‘‘ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کسی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے، معاملات میں نرمی کا برتاؤ کرو، نبی کریم ﷺ نے اس کی تعلیم دی کہ انسان نرمی برتے، ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نرمی پر وہ چیز عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا، معلمین کو نصیحت کی، ارشاد فرمایا:سکھاؤ اور سختی نہ برتو، اس لئے کہ سکھانے والا سختی برتنے والے سے زیادہ بہتر ہے، شوہروں کو تعلیم دی کہ بیوی کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو، درگزر سے کام لو، اولاد کو سکھایا کہ ماں باپ کے ساتھ محبت، اکرام اور عزت کا برتاؤ کرو، حضور ﷺ نے زندگی کے ہر حصے میں رہنمائی فرمائی ہے، اور تمام تعلقات کو درست رکھنے کا ضابطہ اور طریقہ بتلایا ہے، آپ کی ہدایت ہے کہ کوئی ضرورت مند آئے، اگر تم ضرورت پوری کرسکتے ہو تو ضرور کرو، نہیں پوری کرسکتے ہو خوش اسلوبی سے معذرت کردو، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لئے چلتا پھرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم پر ثواب عطا کرتا ہے، یہاں تک کہ واپس آجائے۔ غور کیجئے کہ صرف جانے کا ثواب نہیں ہے آنے کا بھی ثواب ہے۔ اگر انسان جارہاہے تب بھی اجر ہے، جہاں سے چلا تھا واپس آنے میں بھی اجر ہے، اور پھر ارشاد ہوا: اگر اس کی ضرورت پوری ہوجائے، تو اس کی بخشش کردی جائے گی، یعنی سفارش کرنے والا، کوشش کرنے والا، اس کی بخشش کردی جائے گی، ایک حدیث میں ارشاد ہوا: جو اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے کل قیامت کے دن میں اس کے ترازو کے پاس کھڑا ہوجاؤں گا، اگر اس کی نیکی اس کے گناہ پر غالب آجائے تو جنت میں جائے گا، اگر اس کے گناہ اس کی نیکی پر غالب آگئے تو میں اس کی سفارش کرکے جنت میں داخل کروادوں گا۔ یہ سب اچھے اخلاق کا حصہ ہے تو یہ تین نصیحتیں ہیں ان پر عمل کرنا ہم سب کے لئے مفید ہے، ایک تو اللہ سے ڈریں جہاں بھی رہیں، دوسرے کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً نیکی کا کام کریں، اورتیسری چیز لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

و اٰخر دعوانا أن الحمد للّٰهِ رب العالمین

٭…٭…٭

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

ہر ہفتہ خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نمبر پر اپنا نام اور پتہ ارسال کریں

9834397200


مفید لنکس:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے