Urdu Speech on Importance of Education | تعلیم کی اہمیت پر تقریر

Keywords

Urdu speech on education, taleem par taqreer Urdu, تعلیم کی اہمیت پر تقریر، اسلام میں تعلیم کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں


Urdu Speech on Importance of Education

ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں

اسلام میں تعلیم کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ۔ وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِ الْعَرَبِ وَ الْعَجَمِ، أَمَّا بَعْدُ۔

اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر

صدر عالی مقام، حَکَم صاحبان اور سامعینِ عِظام!

میری گفتگو کا موضوع ہے ’’اسلام میں تعلیم کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں‘‘

حضرات!

اسلام میں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، بغیر تعلیم کے دنیا کا کوئی نظام چل ہی نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کی پہلی وحی ’’اِقْرأْ‘‘ میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، دوسرے احکام بعد میں آئے۔

آئیے سب سے پہلے تقابلی انداز میں تعلیم کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہیں؛ تاکہ اسلام کا نظریۂ تعلیم واضح ہوکر ہمارے سامنے آجائے۔ افلاطون نے اخلاق کی تربیت کو تعلیم کا مقصد بتایا ہے، ارسطو کی نظر میں تعلیم کا مقصد پُر خلوص نیکی کے ذریعہ شادمانی کا حصول ہے، ہربرٹ اسپِنْسر نے کہا تھا کہ تعلیم کا مقصد مکمل زندگی کی تیاری ہے، کارْل مارْکس کا نظریہ تھا کہ تعلیم کا حصول اس لیے ہو؛ تاکہ اقتصادی و سیاسی نظام وجود میں آسکے، گاندھی جی کی نظر میں تعلیم کا اہم مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعہ غیر طبقاتی نظام وجود میں آسکے، رابیندر ناتھ ٹیگور کے نزدیک تعلیم کا مقصد بچے کے ذہن کو قدرتی ماحول سے روشناس کرانا تھا، جبکہ اسلامی نقطۂ نظر سے خالص رضائے الٰہی کی طلب، مقصدِ تخلیق کے منشا کو پورا کرنا، خود اچھے اخلاق سے آراستہ ہونا اور دوسروں کو آراستہ کرنا، علم کی روشنی سے جہل کی تاریکی کو دور کرنا، نہ جاننے والوں کو سکھانا، بھٹکوں کو راہ دکھانا، حق کو پھیلانا اور باطل کو مٹانا تعلیم و تَعَلُّم کا مقصد ہے۔

سامعینِ بزم!

اسلام میں تعلیم کی اہمیت کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ایک طرف قرآن میں خوفِ خدا کی بنیاد تعلیم کو قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا: ’’إنَّمَا یَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَآءُ‘‘ تو دوسری طرف حدیث میں مرد و عورت کی تعلیم کی فرضیت کا اس طرح اعلان ہوا: ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ‘‘ جہاں اللہ نے ایمان والوں اور اہلِ علم کے درجات بلند کرنے کی بات ان الفاظ میں کی: ’’إِنَّما يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ‘‘ وہیں رسول اللہ ﷺ نے تعلیم کا راستہ اختیار کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری ان الفاظ میں دی: ’’مَنْ سَلَكَ مَسْلَكًا فِيْ طَلَبِ الْعِلْمِ سَهَّلَ اللهُ لَهٗ طَرِيْقَ الْجَنَّةِ‘‘ اسی علم کی بدولت سب سے پہلے نبی حضرت آدمؑ کو سجدے کے قابل بنایا گیا اور سب سے آخری نبی حضرت محمدؐ کی دنیا میں تشریف آوری کا مقصد تعلیم دینا بتایا گیا، آپؐ نے فرمایا: ’’وَ إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً‘‘ بے شک میں ایک معلم کی حیثیت سے بھیجا گیا، ابوداؤد کی روایت ہے کہ ’’علم سکھاؤ؛ اس لیے کہ علم کا سکھانا نیکی ہے، اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اس کا مذاکرہ تسبیح ہے، اس پر بحث کرنا جہاد ہے، اس کا خرچ کرنا تَقَرُّبِ الٰہی کا ذریعہ اور نہ جاننے والوں کو بتانا صدقۂ جاریہ ہے۔‘‘

تعلیم سے آتی ہے اقوام میں بیداری
ہے علم کے پنجے میں شمشیرِ جہاں داری

حضرات!

میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے نبی رحمۃ للعالمین ﷺ نے بچیوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ کسی بچے کو پڑھانا ایک فرد کو پڑھانا ہے؛ لیکن کسی بچی کو تعلیم دینا پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے، آپ ہمیں بتائیے کہ دین کی مکمل جانکاری کے ساتھ بچیاں اگر عالمہ نہیں بنیں تو جہالت کے دلدل سے خواتین کو کون نکالے گا اور حضرت عائشہؓ کا رول ادا کرنے والی خواتین کہاں سے آئیں گی؟ یہی نہیں بلکہ نبیٔ رحمتؐ نے بغیر کسی مرد اور عورت کی تفریق کے آج سے چودہ سو سال پہلے میڈیکل تعلیم کی ترغیب دی، غور کیجیے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اگر بچیاں ڈاکٹر نہیں بنیں گی تو عورتوں کا علاج مردوں کو کرنا ہوگا اور جینٹس ڈاکٹر کی نظر لیڈیز پیشینٹ کے جسم کے ان حصوں پر پڑے گی جس کو نہ ہم پسند کرتے ہیں اور نہ ہماری شریعت۔

علم انسان کو انسان بنا دیتا ہے
علم بے مایہ کو سلطان بنادیتا ہے
علم جسے دے خدا اسے توفیق بھی دے
ورنہ علم انسان کو شیطان بنا دیتا ہے

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارے دوسرے تعلیمی رہنما قرآن و حدیث کی روشنی میں تعلیم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’علم پیغمبروں کی میراث ہے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے بتایا: ’’طالب دنیا کو علم سکھانا ڈاکو کے ہاتھ تلوار بیچنا ہے۔‘‘

حضرت عثمانؓ نے سمجھایا: ’’برباد ہے وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے۔‘‘

حضرت علیؓ نے دکھایا: ’’شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال و نسب سے۔‘‘

حضرت معاذؓ نے کہا: ’’علم کا سیکھنا نیکی اور اس کا سکھانا عبادت ہے۔‘‘

امام محمدؒ نے واضح کیا: ”ہمارا علمی مشغلہ بچپن سے موت تک ہونا چاہیے۔“

امام شافعیؒ نے اعلان کیا: ’’علم کا حاصل کرنا نفل پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘

امام غزالیؒ نے بتایا: ”بھلائی کی تعلیم میں والدین، اساتذہ اور مربی سب کو اجر ہے۔‘‘

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا: ’’حکم بدلتا ہے علم نہیں، حکم منسوخ ہوتا ہے علم نہیں۔‘‘

امام زہریؒ نے سمجھایا: ’’علم کا قیام ہے تو دین و دنیا قائم ہے۔‘‘

حضرت عطاؒ نے کہا: ’’علم کی ایک مجلس گناہ کی ستر مجلسوں کا کفارہ بنتی ہے۔‘‘

حضرت زرنوجیؒ نے اعلان کیا: ”علم ہی کی بدولت حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت ملی۔‘‘

شاہ ولی اللہؒ نے واضح کیا: ’’تعلیم کا مقصد معاشرے میں اسلامی رسموں کو رواج دینا ہے۔‘‘

حضرت تھانویؒ نے فرمایا: ’’دین کے مراکز ہی اس وقت اسلام کی بقا کی ایک صورت ہیں۔‘‘

حضرت مودودیؒ نے بتایا: ”انقلابِ امامت کے لیے انقلاب تعلیم ناگزیر ہے۔“

سرسید احمد خانؒ نے اعلان کیا: ”ہمارے دائیں ہاتھ میں قرآن، بائیں ہاتھ میں سائنس اور سر پر توحید کا تاج ہوگا۔“

مولانا ابوالکلام آزادؒ نے کہا: ”مقصدِ تعلیم معاشی مسائل حل کرنا نہیں، انسان کی تعمیرِ نو اصل ہے۔“

مفکّرِ اسلام علی میاں ندویؒ نے رہنمائی فرمائی کہ: ’’مدرسے اپنا کام چھوڑ دیں تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے۔“

آئیے عہد کریں کہ ہم اپنے معاشرے سے جہالت کی تاریکی کو دور کریں گے، علم کی روشنی گھر گھر پہنچائیں گے، اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دیں گے اور اس حقیقت کو سچ کر دکھلائیں گے کہ:

اے علم تیری ذات سے دنیا کا بھلا ہے
دنیا ہی نہیں دین کی بھی تجھ پہ بِنا ہے

وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ


مفید لنکس:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے