Keywords
Urdu speech on Independence day, Independence day speech in Urdu, یوم آزادی پر تقریر، ۱۵ اگست پر تقریر
Urdu Speech on Independence Day
ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں
آزادی و حب الوطنی کا اسلامی تصور اور ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار
نَحْمَدُهٗ وَ نُصَلِّيْ عَلٰى رَسُولِهِ الْكَرِيْمِ، أَمَّا بَعْدُ!
چمن اپنا ہے یہ، اپنے چمن کے باغباں ہم ہیں
لہو دے کر اسے سینچا ہے، اس کے پاسباں ہم ہیں
صدرِ با وقار حَکَم صاحبان اور سامعینِ کرام!
میری تقریر کا مِحْوَر ہے ’’آزادی و حُبُّ الوطنی کا اسلامی تصور اور ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘
حضرات!
خدائے واحد کی غلامی اختیار کر لینے کے بعد انسان دوسری ساری غلامیوں سے آزاد ہو جاتا ہے، حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری کا ایک اہم مقصد پوری انسانیت کو انسانوں کی زنجیرِ غلامی سے نجات دلانا تھا، ارشادِ خداوندی ہے: ’’وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْأَغْلَالَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ‘‘ اس لیے تو اسلام وطن دوستی کی تعلیم دیتا ہے اور وطن کی محبت کو ایمان کا حصہ ان الفاظ میں قرار دیتا ہے ’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ‘‘
غور فرمائیے! حضرت محمد ﷺ کا وطن مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تھا، آپؐ مکہ مکرمہ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے تھے ’’مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَ مَا أَحَبَّكِ إِلَيَّ‘‘ ’’تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے۔‘‘
اپنے وطن سے محبت کی تعلیم دینے والے پیغمبر حضرت محمد ﷺ خود اپنے وطن مدینہ منورہ کے لیے اپنے پروردگار سے اس انداز میں دعاء مانگتے تھے: ’’اللّٰهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَةَ أَوْ أَشَدَّ‘‘ ’’اے اللہ! جس طرح ہمیں مکے سے محبت ہے ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ مدینے کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے۔‘‘ یہی نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کو اپنے وطن کی ہر چیز محبوب تھی؛ یہاں تک کہ اپنے وطن کے پہاڑ سے بھی محبت کا اظہار فرماتے تھے، کہتے تھے ’’هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَ نُحِبُّهٗ‘‘ ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ ذرا تصور کیجیے کہ جس نبی کو اپنے وطن کے پہاڑ سے بھی اتنی محبت ہو اس نبی کے امتی حُبُّ الوطنی سے کیسے عاری و خالی ہو سکتے ہیں؟ ہمارے ملک ہندوستان میں تمام اہل وطن کی ترجمانی کرتے ہوئے مفکرِ اسلام علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ ’’حب الوطنی یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے کانٹے سے بھی محبت ہو۔‘‘
تاریخ کے خوشہ چینو!
ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے وطن سے مسلمانوں نے ہمیشہ نہ صرف یہ کہ جذباتی محبت کا اظہار کیا ہے؛ بلکہ انگریزوں کے تسلط سے اس کو آزاد کرانے میں پیش پیش رہے ہیں، اس ملک میں مسلمانوں کی جِدّ و جُہدِ آزادی صبر آزما لمحات کی کہانی ہے جس کو پھیلائیں تو آزاد ہندوستان سمیٹیں تو کتب خانے، پڑھیں تو نوشتے، لکھیں تو صحیفے، بکھیریں تو دار و رسن کے افسانے اور دل میں اتاریں تو آزادی کے ترانے بنتے ہیں اور ہم فخر سے کہنے لگتے ہیں کہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مادرِ وطن کے جگر پارو!
اس ملک کی آزادی کے لیے جن مجاہدوں نے گولیاں کھا ئیں، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، مسکراتے ہوئے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالا، ان مجاہدین آزادی میں ہندو مسلم سب شریک تھے۔
اگر ہندو کی کوشش کا وطن کے رخ پہ غازہ ہے
مسلماں کے لہو سے بھی وطن کا باغ تازہ ہے
برادران وطن!
ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانی کا عرصہ کم و بیش تین صدیوں کے برابر ہے۔ ۱۷۰۰ ء سے ہی نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کے خلاف لڑنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۷۳۱ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے انگریزوں کے قائم کردہ نظامِ حیات کی دھجیاں بکھیر نے کی کوشش کی، ۱۷۹۹ء میں آزادی کے متوالے ٹیپو سلطان شہیدؒ نے سری رنگا پٹنم کے میدان میں جامِ شہادت نوش کیا، ان کی نعش کو دیکھ کر فاتح انگریز نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘
۱۸۰۳ ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد یہ اعلان ہو گیا تھا کہ ’’خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، حکم کمپنی بہادر کا‘‘، اس اعلان کے بعد امام حریت شاہ عبد العزیزؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’آج سے ہمارا ملک غلام ہو گیا ہے اور حصولِ آزادی کے لیے جِدُّ و جُہد کرنا ہمارا فریضہ ہے‘‘، اس کے بعد بذریعہ اسلحہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے مسلمان آگے بڑھے جن کی قیادت حضرت سید احمد شہیدؒ نے کی۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ تمام مولویوں کو تختِ دار پر چڑھا دیا جائے، چنانچہ پندرہ دنوں تک پورے ملک میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا، دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے جن میں ساڑھے اکاون ہزار علماء کرام تھے۔ چاندنی چوک، لال قلعہ اور جامع مسجد کے پورے علاقے کی گلی کوچوں اور چوک چوراہوں پر علماء کو سولی دے کر عوام کی عبرت کے لئے کئی دنوں تک لٹکاکے رکھا گیا۔
۱۸۶۱ء میں انبالہ اور مالدہ کے اندر بڑے سنگین مقدمے چلائے گئے، جن میں نامزد تمام مسلمانوں کو پھانسی دی گئی یا ساری عمر کے لئے کالا پانی بھیج دیا گیا، برطانوی سامراج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے حضرت شیخ الہندؒ نے اندرونِ ملک انگریزوں کی مخالفت اور بیرونِ ملک سے حملے کا پروگرام بنایا، اسی مقصد کے لئے انہوں نے چالیس برس کی خفیہ تیاری کے بعد ۱۹۱۵ء میں ریشمی رومال کی تحریک چلائی جن میں ملک کے نامور سیاسی لیڈر شریک ہوئے۔
۱۹۲۱ء میں کراچی کے اندر خلافت اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنیؒ نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے‘‘، اس جسارتِ حق گوئی کی پاداش میں ان کو اور ان کے رفقاء کو دو سال کی قیدِ بامشقت کی سزا ہوئی، مولانا محمد علی جوہر نے گول میز کانفرنس میں اہلِ برٹش سے کہا تھا کہ
یا تو ہندوستان کی آزاد ہوگی سرز میں
دینی ہوگی یا مجھے انگلینڈ میں دوگز زمیں
۱۹۲۶ء میں کلکتہ کے اندر علّامہ سید سلیمان ندویؒ کی قیادت میں اس ملک کی مکمل آزادی کی تجویز منظور ہوئی۔ ۱۹۲۹ء میں ڈانڈی مارچ کی تحریک میں جہاں گاندھی جی گرفتار ہوئے وہیں مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ان کے رفقاء گرفتار کئے گئے۔ ۱۹۴۲ء میں ’’انگریزو! ہندوستان چھوڑ دو!‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔
مختصر یہ کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمارے اکابر نے گولیاں کھائیں، جیل خانے آباد کئے، دار و رسن کے مرحلے سے گزرے اور جامِ شہادت نوش کیا، بالآخر غلامی کے مضبوط قلعے مسمار ہو گئے محکومیت کی زنجیریں ٹوٹ گئیں اور آزادی کی جو جِدُّ و جہد ۱۷۰۰ء میں شروع ہوئی تھی وہ پندرہ اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی کا عنوان جلی لیکر مطلعِ ہندوستان پر جلوہ گر ہوئی، مگر
جب پڑا وقت گلستاں کو تو لہو ہم نے دیا
جب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
آئیے عہد کریں کہ آزادی کی حفاظت اور ملک کی سالمیت کے لئے ہم کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے، ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور قومی یکجہتی و جذباتی ہم آہنگی کو فروغ دیں گے۔ مادرِ وطن ہم سے مخاطب ہے کہ
وطن آواز دیتا ہے وطن کی شان بن جاؤ
اٹھو اٹھ کر نئی تاریخ کا عنوان جاؤ
وَ مَا عَلَیْنَا إِلَّا الْبَلَاغ