Keywords
Urdu speech on Maulana Abul Kalam Azad RH, Maulana Abul Kalam Azad par taqreer, مولانا ابوالکلام آزادؒ پر تقریر
Urdu speech on Maulana Abul Kalam Azad
ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں
آزاد ہندوستان کی تعمیر میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی خدمات
الْحَمدُ لِلّٰهِ، وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ رَسُولِ اللّٰهِ، أَمَّا بَعْدُ!
وہ دن اب یاد آتے ہیں وطن تھا جب غلام اپنا
کہ جب آزاد قوموں میں نہ تھا کوئی مقام اپنا
تھے دل سینوں میں لیکن ہر لگن سوئی ہوئی سی تھی
چمن تو تھا مگر روح چمن سوئی ہوئی ہی تھی
گلستان وطن میں بس خزاں کے ہیرے پھیرے تھے
غلامی ہی غلامی تھی اندھیرے ہی اندھیرے تھے
یہ عالِم تھا کہ اک دیوانۂ آزادی کامل
جسے آزاد کہتے ہیں بڑھا وہ جانبِ منزل
صدرِ باوقار، حَکَم صاحبان اور سامعینِ کرام!
میری گفتگو کا مِحوَر ہے ’’آزاد ہندوستان کی تعمیر میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی خدمات‘‘
حضرات!
ہمارے میرِ کارواں مولانا ابوالکلام آزادؒ انیسویں صدی کے نصفِ آخر کی پیداوار تھے اور بیسویں صدی کے نصفِ اول پر چھائے رہے۔ اس طرح انہوں نے دو صدیوں کے قدیم و جدید گہواروں میں پرورش پائی، قدیم نے ان کو سنوارا تو جدید نے نکھارا تھا، ان کے ذہن میں حِدّت ہی نہیں جِدّت بھی تھی۔ خیالات تر و تازہ اور شاداب تھے، افکار میں مذہب، فلسفہ اور سماجی علوم کا ایک سنگم بن گیا تھا۔ مولانا کی ہمہ جہت صلاحیت اور ان کے جوہرِ ذاتی پر تبصرہ کرتے ہوئے نیاز فتح پوری نے لکھا ہے کہ ”مولانا آزادؒ اگر عربی شاعری کی طرف توجہ کرتے تو متنبی و بدیع الزماں ہمدانی ہوتے، اگر وہ محض دینی و مذہبی اصلاح کو اپنا شعار بنا لیتے تو اس عہد کے ابنِ تیمیہؒ ہوتے، اگر علومِ حکمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتے تو ابن رُشد اور ابن طفیل جیسے فلسفی ہوتے، اگر وہ فارسی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوتے تو عُرفی و نظیری کی صف میں نظر آتے، اگر وہ تصوف و اصلاح کی طرف مائل ہوتے تو غزالی اور رومی سے کم نہ ہوتے۔“
حاضرین کرام!
مولانا آزادؒ نے اپنی تحریر و تقریر اور دانشورانہ قیادت کے ذریعہ ہندوستان کے خوابیدہ معاشرہ میں زندگی کی تڑپ پیدا کر دی۔ آپ کی علمی و عملی، صحافتی و سیاسی جِدّ و جُہد نے ہندوستانی قوم کو ایک نئی شاہراہ پر لا کھڑا کیا۔
جو تھے غفلت میں غرق ان کو صدا دیتا ہوا اٹھا
کہ وہ غیرت کے شعلوں میں ہوا دیتا ہوا اٹھا
جو تھے جذبات پژمردہ جوانی بخش دی ان کو
جو تھے ٹھہرے ہوئے دھارے روانی بخش دی ان کو
مولانا ابوالکلام آزادؒ محض کسی سیاسی لیڈر کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک روشن ستارہ تھا جو آسمانِ ہند پر اس لئے طلوع ہوا تھا کہ صبحِ آزادی کی آمد کا اعلان کرے اور بشارت دے کہ زندگی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ اب جو دن طلوع ہوگا وہ مظلوموں کی بالا دستی اور ظالموں کی شکست و پستی کا دن ہوگا۔ وہ ایک شعلہ جوّالہ تھا جس نے ظلمتوں کے دامن کو تار تار کر دیا تھا۔ اس کے قلم نے نصف صدی تک ایسی آگ برسائی کہ سامراجیوں کی توپ و تُفَنْگ کو تُودَۂ خاکِستر میں بدل دیا، اس کی زبان نے اپنی خطابت سے وہ سَیْلِ بے اماں پیدا کر دیا کہ سامراج کے سفینہ کا دامنِ ساحل تک پہنچنا دوبھر ہو گیا۔
وطن کے چہرۂ تاباں پہ جب رنگِ جلال آیا
پیامِ انقلابِ قوم لے کر الہِلال آیا
کہا اس نے وطن والوں سے اب ہوشیار ہو جاؤ
نیا سورج ابھرنے والا ہے بیدار ہو جاؤ
مگر پیغام اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیا اس نے
برائے اتحادِ باہمی یوں بھی کہا اس نے
اگر کوئی فرشتہ آسمانوں سے اتر آئے
قطب مینار سے پھر وہ اگر اعلان فرمائے
کہ آزادی ابھی دے دوں تمہیں ہندوستاں والو
اگر تم اتحادِ باہمی کو ختم کر ڈالو
تو میں یہ شرط ٹھکرادوں گا بربادی نہیں لوں گا
جو کھوکر اتحاد آئے وہ آزادی نہیں لوں گا
نظریاتِ آزاد کے علمبردارو!
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آزاد ہندوستان میں تعلیمی نظام کا پورا ڈھانچہ کس نے بنایا؟ سائنس اور ایٹمی ترقی کا اعلٰی تحقیقاتی ادارہ کس کے حکم سے وجود میں آیا؟ صنعت اور ٹکنالوجی کو فروغ دینے کے لئے ’’انڈین کاؤنسل فار ایگریکلچر اینڈ سائنٹفک ریسرچ‘‘ کو کس نے قائم کیا؟ زراعت اور دیہی ترقی کے لئے ’’انڈین کاؤنسل فار ایگریکلچرل ریسرچ‘‘ کا قیام کس کے حکم سے عمل میں آیا؟ معیاری میڈیکل تعلیم کے لئے ’’انڈین کاؤنسل فار میڈیکل ریسرچ‘‘ کس کی دین ہے؟ سماجی علوم کے لئے ’’انڈین کاؤنسل فار سوشل سائنس‘‘ کی بنیاد کس نے ڈالی؟ تہذیبی روابط کو قائم رکھنے کے لئے ’’انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز‘‘ کا بانی کون ہے؟ ’’انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘ کس کی سرپرستی میں قائم ہوا؟ فنونِ لطیفہ اور ادَبیات کو ترقی دینے کے لئے ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘، ’’سنگیت ناٹک اکیڈمی‘‘ اور ’’لَلِت کلا اکیڈمی‘‘ کس کی مرہونِ منت ہے؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ’’علومِ شرقیہ‘‘ اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں ’’ادارۂ علومِ اسلامی‘‘ کا بانی کون ہے؟ ان سب کا ایک ہی جواب ہے؛ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم امام الہند محی الدین احمد مولانا ابوالکلام آزادؒ۔
مختصر یہ کہ مولانا آزادؒ کی شکل میں ۱۱/ نومبر ۱۸۸۸ء میں مکہ معظمہ کے افق پر جو سورج طلوع ہوا تھا، وہ اگر چہ ۲۲/ فروری ۱۹۵۸ء کو زمینِ ہند میں غروب ہو گیا لیکن اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے جو ہمارے لئے ہمیشہ سنگِ میل کی حیثیت رکھیں گے۔
وہ تو باقی نہ رہا، اس کی مگر یادر ہے
ہر قدم پیشِ نظر اُسوۂ آزاد رہے
میکدہ اس کی روایات کا آباد رہے
وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ