Urdu speech on Parents
ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں
والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں
الْحَمْدُ للّٰهِ وَ كَفٰى وَ سَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى، أَمَّا بَعْدُ!
کوستے ہیں قسمت کو زندگی کو روتے ہیں
جن کو اپنے بچوں سے خدمتیں نہیں ملتیں
جنابِ صدر، حَکَم صاحبان اور سامعینِ کرام!
میری تقریر کا موضوع ہے ’’والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں‘‘
برادران اسلام!
انسان اپنے وجود میں سب سے زیادہ جس کا ممنون ہے، وہ خالقِ اکبر کی عِلّتِ فاعلہ ذات کے بعد ماں اور باپ ہیں۔ ماں وہ ہستی ہے جس نے بچے کو اپنا خون پلاکر بڑھایا اور نو مہینے تک اس کی مشکلیں سہہ کر اپنے شِکم میں رکھا، پھر اس کے جننے کی ناقابلِ برداشت تکلیف اٹھائی اور اپنا خون دودھ شکل میں پلایا، ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی بچے کی تکوین و تولید میں شریک ہے وہ باپ ہے، بچے کی نشو و نما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی و مالی کوششیں شامل ہیں، والدین نے اولاد کی پرورش و پرداخت میں اپنی ہر راحت قربان، اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خوشی نثار کردی، لہٰذا اولاد پر فرض ہے کہ اپنے والدین کی کوششوں سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ، ماں باپ کی خدمت کی صورت میں ادا کرے۔
ارشادِ خداوندی ہے: ’’وَ قَضٰى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَاناً، إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أَفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا، وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا‘‘ ’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو افّ بھی نہ کہو، نہ انہیں جھڑکیاں دو اور ان سے ادب سے بولو، ان کے لئے اطاعت کا بازو محبت سے جھکادو اور دعاء کرو کہ اے میرے پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی۔‘‘
حتّٰی کہ ماں باپ اگر غیر مسلم بھی ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، فرمایا: ’’وَ صَاحِبْهُمَا فِيْ الدُّنْيَا مَعْرُوفاً‘‘
اولاد جو مال بھی خرچ کرے اس کے اولین حقدار ماں اور باپ ہیں۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’وَ مَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ‘‘
سامعین کرام!
احادیثِ رسولؐ نے اسی منشائے الٰہی کو مختلف عبارتوں میں ادا فرمایا ہے۔ کبھی ارشاد ہوا: ’’ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے‘‘، کبھی ارشاد فرمایا: ’’رب کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے‘‘، کبھی ماں باپ کے ساتھ صلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کو درازیِ عمر اور کشادگیِ رزق کا ذریعہ بتایا، کبھی ماں باپ کو رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھنے والے کو حجِّ مقبول کے ثواب کا مژدہ سنایا، کہیں بوڑھے ماں باپ کی خدمت نہ کرنے والے کو ذلیل کہا تو کہیں ان کی شان میں گستاخی کرنے والے کو گناہ کبیرہ کا مرتکب ٹھہرایا فرمایا: ’’مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ‘‘
حضرات!
والدین کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں جہاد کی بڑی اہمیت ہے، مگر والدین کی خدمت کا درجہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، ان کی اجازت کے بغیر جہاد بھی جائز نہیں، اس لئے کہ جہاد کے میدان میں سر ہتھیلی پر رکھ کر جانا ہوتا ہے اور ہر وقت جان جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے والدین کی اجازت کے بغیر ان کو اپنے اس جسم و جان کو کھونے کا حق نہیں، جن کو ان کی خدمت کے لئے وقف ہونا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ اگر بیوی اور والدین کے درمیان کوئی ناقابلِ حل اختلاف ہو جائے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجبوراً ترجیح دینی پڑے، تو اسلام کا حکم یہ ہے کہ اس حال میں بھی والدین کی اطاعت کی جائے، اس لئے کہ بیوی کا تعلق ایسا ہے، جس کو قانون اور عہد نے پیدا کیا ہے، جو ٹوٹ کر جڑ سکتا ہے، اور مٹ کر بدل سکتا ہے؛ لیکن والدین کا فطری تعلق ناقابلِ شکست اور ناقابلِ تغیر ہے۔
اے ضیا ماں باپ کے سائے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کا ٹے گی بہت جب شجر کٹ جائے گا
وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ