مسلمان بچیوں کا طوفان ارتداد اسباب و علاج

مسلمان بچیوں کا طوفان ارتداد اسباب و علاج

✍ محمد اسعد نعمانی کشن گنجی
٢٦ شعبان المعظم ١٤٤٢ھ

ادیان عالم میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسے علم و حکمت، معرفت و بصیرت اور حجت و برہان کے میدان میں کوئی شکست دے سکا ہے نہ آئندہ دے سکے گا۔ دشمنان اسلام انتھک کوششوں کے باوجود نہ اسلام کو مغلوب کر سکے نہ ہی مسلمانوں کو اپنے دین سے برگشتہ کرسکے۔ برطانوی ہند میں تبلیغ عیسائیت کی انتہائی جد وجہد اور ان کی حد درجہ ناکامی اس کی واضح مثال ہے۔ جب دشمنان ایمان کو اس بات کا مکمل یقین ہوچکا کہ عام احوال میں کسی مسلمان کو علانیہ اسلام کے مضبوط قلعے سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ بالفاظ دیگر وہ اختیاری اور ارادی طور پر دامنِ اسلام کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا؛ تو اسے غیر اختیاری اور غیر ارادی طور پر نعمت ایمان سے محروم کرنے کے لیے انہوں نے بڑی بڑی سازشیں رچیں اور ہتھکنڈے اپنائے۔ ذیل میں ان میں سے چند روح فرسا اور نیند اڑادینے والی سازشوں کو طشت از بام کیا جا رہا ہے:

1 _ عشق و محبت کا پرفریب جال:

کہتے ہیں کہ ’’انسان‘‘ بنا ہی ہے’’انس‘‘ سے۔ اگر اس کے اندر انس و محبت نام کی چیز نہ ہو تو اسے انسان کی بجائے ’’پتھر‘‘ کا نام دینا زیادہ موزوں ہوگا۔ لیکن اس کا حد سے زیادہ ہوجانا بھی بڑے خطرے کی چیز ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ عشق و محبت میں ایسے اندھے ہوجاتے ہیں کہ انہیں اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ چاہے اس کے نتیجے میں کسی کا قتل ہو یا خود انہیں مذہب ہی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اور بچیاں تو اپنے بھولے پن کی وجہ سے محبت میں کچھ زیادہ ہی’’مخلص‘‘ ہوتی ہیں؛ لیکن انہیں کیا خبر کہ ان کے اس ’’اخلاص و وفا‘‘ کا صلہ سوائے جور و جفا کے کچھ نہیں۔

دشمنان ایمان نے مذکورہ بالا انسانی فطرت کو سامنے رکھ کر مسلمان بچیوں کو ٹارگٹ کیا اور انہیں ’’آداب محبت‘‘ کی زنجیروں میں جکڑ کر جبراً مرتد بنانے کی پلاننگ بنائی اور اپنے نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم تیار کی جن کا کام ہی یہی ہے کہ اسکول و کالج میں تعلیم حاصل کرنے والی یا شوشل میڈیا سے وابستہ مسلمان لڑکیوں کے فون نمبرز حاصل کیے جائیں، ان سے کمال ہوشیاری کےساتھ محبانہ اور مخلصانہ انداز میں بات چیت کر کے ان سے تعلقات قائم کیے جائیں، انہیں قیمتی ’’گفٹ‘‘ (موبائل وغیرہ) پیش کرکے اپنی ہوسناکی پر پردہ ڈالا اور ’’بے لوث‘‘ محبت کا یقین دلایا جائے، پھر ان سے ملاقات ہو، یہاں تک کہ دولت اور پرسکون زندگی کا سبز باغ دکھاکر موقعے سے اسے لیکر فرار ہوجائیں اور کورٹ میں اپنا  ’’قانونی نکاح‘‘ درج کروالیں اور اب انہیں اولاً اپنا ہم مذہب (مرتد) بنائیں، عجیب بات ہے کہ یہ سارے مراحل اس حال میں طے پاتے ہیں کہ وہ ’’ظالم‘‘، اپنا کافر ہونا بالکل ظاہر ہونے نہیں دیتا بلکہ مسلمانوں کے طور طریقے پر اور مسلمان کے فرضی نام کے ساتھ خود کو متعارف کراتا ہے، یہ تو گلے میں پھندا ڈالنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کیا حقیقت اور کیا فریب ہے۔

پھر ایک مدت تک ’’استعمال‘‘ کرنے کے بعد ان پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑیں کہ وہ زندگی سے بیزار ہوکر خود کشی کرلیں یا خود موت کے گھاٹ اتار دیں۔

یہ کوئی اتفاقی باتیں نہیں ہیں۔ سینکڑوں واقعات اس کی تصدیق کے لیے موجود ہیں کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت انجام دیا جارہا ہے۔ بلکہ ایک نامور صحافی اور معروف عالم دین کے بیان کے مطابق اس کے لیے ہزاروں ٹریننگ کیمپس پورے ملک میں قائم ہیں، جن میں صرف اسی ’’درندگی‘‘ کی تربیت دی جارہی ہے۔ اس وقت جو ہزاروں کی تعداد میں مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ یہ اسی سازش کا نتیجہ ہیں۔ جس پر پردہ ڈالنے کے لیے ’’لو جہاد‘‘ کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے اور اس کو خوب اچھالا جارہا ہے جب کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے چند اتفاقی واقعات کے؛ تاکہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹی رہے۔

1- اس کا حل اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اسلام کا وہ چودہ سو سال پہلے کا دیا ہوا حکم دوبارہ پابند عمل بنائیں، جسے ’’رجعت پسندی‘‘ خیال کرکے ترک کردیا گیا تھا: ’’عورت کی ذات وہ قیمتی ترین پونجی ہے جسے جتنا چھپاکر رکھا جائے، خود اس کے لیے اور پورے معاشرے کے لیے پاکیزگی کا سبب ہے۔ عورت کی ذات ہی پردہ سے عبارت ہے، اس کا غیر محرموں سے ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، گفتگو کرنا حتی کہ اپنے پازیب کی آواز بھی ان کو سنانا حرام ہے۔ افسوس کہ قیمتی جواہرات کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ رکھنا تو عقل مندی کہلائے اور عورتوں کے لیے شرعی پردہ (نقاب و برقعہ پہننا، گھر کی چار دیواری سے باہر نہ نکلنا) رجعت پسندی قرار پائے ؟؟!!‘‘

2_ ہمیں اپنی بچیوں کے لیے مخلوط نظام تعلیم کو بالکل ترک کرنا ہوگا۔ اب ان کو یاتو کسی غیر مخلوط اور محفوظ اسلامی ادارے میں داخل کرائیں یا گھر پر ہی اپنے قریبی رشتے داروں کے ذریعہ بنیادی ضروری تعلیم دلائیں۔ بصورت دیگر ایمان اور عزت بچانے کے لیے مروجہ عصری تعلیم کی قربانی بھی دینی پڑے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اس سے دنیا یا آخرت تباہ نہیں ہوجائے گی۔

3_ موبائل اور اسکوٹی سے ان کو دور رکھنا ہوگا، اس سلسلے میں معمولی سی غفلت و کوتاہی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ پیش آمدہ واقعات میں زیادہ تر ایسی ہی بچیاں ہیں جن کے ہاتھ میں یہ دونوں چیزیں رہا کرتی تھیں۔ ہماری بچیاں جس قدر پاک باز اور نیک طینت ہوں، رابعہ بصریہ سے سبقت نہیں لےجاسکتیں، ان کے تئیں شیطان سے بے خوف نہیں ہوا جاسکتا تو ہمارے لیے اپنی بچیوں کے بارے میں اس قدر مطمئن اور بے خوف رہنا کسی دور اندیش کا کام نہیں۔ ان کی ہر ہر حرکت پر کڑی نظر رکھنی ہوگی اور قابل شک بات پر باز پرس بھی کرنی ہوگی۔ تب جاکر ان کا ایمان اور اپنی عزت باقی رہ سکتی ہے۔

4_ اس سلسلے میں آخری ہمدردانہ گزارش یہ ہے کہ انسان کو ہوش تب آتا ہے جب کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے، حالانکہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا، اب ہوش آنے سے کیا ہوگا۔ آپ ایسا نہ کریں۔ مذکورہ بالا حقائق کو بار بار پڑھیں اور ان پر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں پھر جو کرنے کی چیزیں ہیں ان کو آج ہی سے عمل میں لائیں۔ ابھی کل کی بات ہے ارریہ سے چھ سات مسلمان بچیوں کے ارتداد کی خبر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین!

✍ محمد اسعد نعمانی کشن گنجی
٢٦ شعبان المعظم ١٤٤٢ه‍


نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے ویب سائٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے